چپ امپلانٹیشن۔۔۔ کیا یہ سچ ہے؟
کمپیوٹر کی چپ وہ چیز ہے جسے ہم اپنے موبائیل فون میں ڈال کر اس کے ذریعے ہر طرح کے کام کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں، پوری دنیا سے اپنا رابطہ کرلیتے ہیں اور اپنے فون کو کمپیوٹر کی طرح وسیع تر مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح کی صرف ایک چاول کے دانے کے برابر چپ انسانی جسم میں لگانے کا کام شروع ہوچکا ہے جس کی وضاحت میں اپنے گذشتہ کالموں میں کرچکا ہوں۔ جس طرح مختلف کام کرنے والی مشینوں کو کنٹرول کرنے اور ان کی صلاحیت کار بڑھانے کے لئے ان سے کمپیوٹر یا محض ان کی معمولی سی چپ Chip منسلک کردی جاتی ہے اسی طرح انسانی جسم کی مشینری سے بھی یہ کمپیوٹر چپ منسلک کرکے انسان کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، اس کی صلاحیت اور ذہانت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام اس قدر انقلاب آفرین ہے کہ اس سے دنیا بھر میں جاسوسی کے موثر ترین جال بچھانے، اہم ترین شخصیتوں کو کنڑول کرنے حتی کہ، ایک انسان کے جسم میں کسی دوسرے انسان کا ذہن لگادینے کا کام لیا جاسکتا ہے۔
اس کام میں بنیادی ااور اہم ترین پیش رفت 1995ء کے زمانے میں اس وقت ہوئی جب سائنسدانوں کو یہ معلو م ہوا کہ انسانی ذہن کے کروڑوں خلیوں میں بھی اسی طرح کی مقناطیسی لہریں معلومات جمع کرنے(جو اسے جسم کے اعصابی نظام کے ذریعے حواس خمسہ سے ملتی ہیں)اور ان معلومات کی روشنی میں فیصلے کرنے کا کام کرتی ہیں جس طرح کہ یہ ایک کمپیوٹر کی چپ میں کرتی ہیں۔ اس سے انہیں یہ خیال آیا کہ جن لوگو ں کے جسم کا نچلا حصہ اوپر والے حصے سے اعصابی نظام کا سلسلہ منقطع ہوجانے سے کام نہیں کررہا اور وہ معذور ہوچکے ہیں کیا کمپیوٹر چپ لگا کر ان کے اعصابی نظام کو بحال نہیں کیا جاسکتا۔؟ امریکہ کے سابق فوجیوں کے تحقیقاتی مرکز میں اس خیال کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے تحقیق کی گئی اور اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ معذور افراد کے اعصابی نظام کا ٹوٹ جانے والا عمل انسانی جسم میں کمپیوٹر کی چپ لگا کر بحال کردیا گیا۔ اس کامیا بی کو کمپیوٹر کی دنیا کی اہم ترین پیش رفت قراردیا گیا۔ یہ معمولی بات نہیں تھی کہ جس طرح عام دھاتی مشینری کے ساتھ کمپیوٹرز کو منسلک کر کے مشینری کو زیادہ خود کار بنانے، اس کے کام میں اضافہ کرنے اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے کا کام لیا جاتا تھا اسی طرح کمپیوٹر کو انسانی جسمانی مشینری سے بھی منسلک کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی گئی تھی۔
انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ آج کی دنیا میں کسی بھی اہم سائنسی دریافت اور ایجاد کے ذریعے سب سے پہلے دفاعی کاموں اور انسانوں کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کرنے کی فکر کی جاتی ہے۔ کمپیوٹر کے میدان میں امریکہ میں ہونے والی اس اہم دریافت کے بعد ( اس کی خبریں ایک بار باہر آنے کے باوجود) اس کی اہم تکنیک اور اس سلسلے کی مزید اہم کامیابیوں کو صیغہ راز میں رکھا گیا۔ تاہم انسانی جسم میں کمپیوٹر کی چپ لگانے کو’’چپ امپلانٹیشن‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس سلسلے میں بعض تحقیقاتی اداروں کے کام کی خبریں سامنے آتی رہیں لیکن انسانی ذہن کو کنڑول کرنے کی اس موثر ترین تکنیک کے اہم ترین پہلوؤں کو سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ لیکن اس طرح کی کوئی سی بھی تکنیک جب دفاعی مقاصد کے لئے استعمال میں بہت آگے تک پہنچ جاتی ہے تو پھر کاروباری لوگ اس تکنیک کے صارفین کی روزمرہ عام اشیاء میں استعمال کے متعلق بھی سوچنے لگتے ہیں۔ ایسی اہم تکنیک کے بھی کوئی نہ کوئی پہلو کسی نہ کسی حد تک عوامی استعمال میں آجاتے ہیں۔
قارئین! انسانی ذہن کو کنڑول کرنے کی مختلف تکنیکس کے متعلق میں نے اب تک مستند حوالوں سے مصدقہ حقائق پیش کئے ہیں، لیکن اب میں’’چپ امپلانٹیشن‘‘کے متعلق کچھ غیر مصدقہ باتیں بیان کرنے جارہا ہوں۔ ان باتوں کا تعلق لاہور کے ڈیفنس اور گلبرگ جیسے امیر لوگوں کے علاقوں سے ہے۔ اس سلسلے میں بعض اہم باتیں بیان کرنے والے افراد جاہل اور غیر ذمہ دار بھی نہیں ہیں۔ ان کا تعلق معزز گھرانوں سے ہے۔ لیکن وہ ایسے معاملات میں کچھ ’’حقائق‘‘ سامنے لاتے ہوئے اپنی شناخت سے بھی گریز پا ہیں۔ ہم ان کی باتوں کو اگر حقیقت نہیں تو واضح امکانات کی حیثیت دے سکتے ہیں۔ میری ایک سابق شاگردہ اس سلسلے میں بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ شکایت سامنے لاتی رہی ہیں کہ ان کے علاقے میں چپ امپلانٹیشن کرنے والا مافیا سرگرم ہے جس کو بعض بہت بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہے اور اس نے ڈرگ مافیا سے بھی زیادہ زور پکٹر لیا ہے۔ ان لوگوں کے پاس ایک ایسی مشین ہے جو پورے لاہور شہر میں ان لوگوں کو کنڑول کرسکتی ہے جنہیں انہوں نے چپ لگا رکھی ہے۔ ان لوگوں نے شہر کی بہت سی خوبصورت لڑکیوں کو چپ امپلانٹیشن کے ذریعے قابو کررکھا ہے اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔
ان چپس میں سی ایس ایس ،اور اے لیول اور او لیول کے امتحانات دینے والوں کے لئے سارامواد بھر کر امتحانی نظام کو تباہ کردیا گیا ہے اور چپ امپلانٹیشن والا ایک نیا نقل مافیا قائم ہوچکا ہے۔ ان سے کسی بھی امتحان کے سلسلے میں چپ لگواکر پچانوے فیصد تک نمبر حاصل کرلینا معمولی بات ہے۔ بہت سے سکولوں کی ٹیچرز بھی اس حقیقت سے حیرت زدہ ہیں کہ ان کے سکولوں کے وہ بچے جو آخر وقت تک نکمے اور نالائق تھے انہوں نے امتحان میں اے پلس گریڈ کس طرح حاصل کرلئے ہیں۔ ایک سکول کی ٹیچر نے ایک ننھے منے سے بچے کے متعلق یہ شکایت کی کہ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فلسفیوں کی طرح ایسی ایسی مدبرانہ باتیں کرتا ہے کہ اسے حیرت ہوتی ہے۔ لاہور کے ایک نواحی گاؤں سے ڈیفنس کے گھروں میں صفائی وغیرہ کا کام کرنے کے لئے آنے والی بعض عورتوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے بیماریوں سے بچانے کے جھانسے میں لاکر ان کے گاؤں کے بہت سے لوگوں کے کانوں میں کچھ ایسی دوائیں ڈال دی ہیں جس کے بعد انہیں طرح طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جنہیں یہ لوگ سمجھ تو نہیں پاتے لیکن انہیں یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ان سے باتیں کررہا ہے،اس سے گاؤں کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، تاہم ڈاکٹروں وغیرہ نے اسے محض ان لوگوں کا واہمہ قرار دیا۔ کچھ لوگوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ ان پر کالا جادو کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کچھ افراد نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ کم از کم لاہور شہر میں ایک ایسی مشین ضرور موجود ہے جو شہر کے کم از کم سینکڑوں افراد اور بالخصوص نوجوان لڑکیوں کے اذہان کو کنٹرول کرکے انہیں اپنے بعض نامعلوم مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہے۔
اگر ایسی باتوں میں کچھ حقیقت ہے تو اس سے ہمارے خفیہ اداروں اور حکومت کو لاتعلق اوربے خبر نہیں ہونا چاہئیے۔ تاہم اس طرح امتحانوں میں نوجوانوں کا نقل کرنے کے منفی کام کے لئے محفوظ ترین طریقہ دریافت کرلینے سے چپ استعمال کے ایک انقلا ب آفرین مثبت پہلو کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ امتحانات میں نقل کے لئے یہ منفی سروس فراہم کرنے والے لوگ اگر چپ کے ذریعے کوئی مثبت کام کرنے کا سوچ لیں تو ایسے بہت سے سافٹ ویئر یعنی کمپیوٹر پروگرام تیار کرسکتے ہیں جن میں ایک ایک چپ ایم بی بی ایس، میڈیکل اور سرجری کی سپیشلائزیشن اور انجیئرنگ کے ہر طرح کے کورسز کے لئے ہر طرح کا علم اور عملی تجربے کا خزانہ لئے ہوئے ہو، اس طرح کی چپس کو مختلف لوگوں کے اذہان سے منسلک کرکے انہیں ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان بنایا جاسکتاہے۔
سائنسدان مصنوعی ذہانت کے پہلو پر بھی ایک عرصہ سے تحقیق کررہے ہیں۔ کمپیوٹرز اور مشینوں کے اشتراک سے پیدا ہونے والی یہ مصنوعی ذہانت Artificial Intelligenceمصنوعی انسانوں یعنی روبوٹس اورصنعتی اداروں کے کام کو زیادہ سے زیادہ خود کار بنانے میں استعمال ہورہی ہے۔ انسانی دماغ میں چپ لگا کر اس کی ذہانت اور حافظے میں ہزار وں گنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ا نسان آدھا انسان اور آدھا مشین ضرور بن جائے گا۔ لیکن آلات اور ٹیکنالوجی پر بڑھتے ہوئے انسانی انحصار نے انسان کے لئے یہ ناگزیر کردیا ہے کہ وہ اپنی ذہانت میں اضافہ کرکے قدرت کے پنہاں رازوں کو زیادہ سے زیادہ سمجھے اور کائنات کی وسعتوں میں اپنے لئے موجود لا انتہا ء امکانات سے فائدہ اٹھا نے کے لئے آگے بڑھے۔ کیا معلوم کہ اس کائنات میں موجود جنت اور اپنی زندگی کے دوام کا انتظام انسان نے خود ہی کرنا ہو۔ ع
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
اگر انسان نے ٹیکنالوجی کو دوسرے انسانوں کی تسخیر اور بربادی کے بجائے اپنی اور دوسروں کی فلاح اور انسانیت کی معراج کے لئے استعمال کرنا سیکھ لیا تو وہ دن دور نہیں جب ٹیکنالوجی انسان کی بربادی اور تباہی کے بجائے انسانوں کے لئے نت نئی خوشیاں249 سہولتیں اور نئے امکانات لے کر آئے گی۔