غارِ حرا سے اٹھنے والی قرآنی آواز (1)
کائنات میں پہلی ’’صوت القرآن‘‘ (قرآنی آواز) غارِ حرا سے گونجی، پھرساری دنیا میں سنائی دینے لگی، اب دنیا کا کوئی ملک ایسانہیں ہے، جس کے میڈیا سے تلاوتِ قرآن کریم سنائی نہ دے رہی ہو، اس کرۂ زمین میں قائم کوئی بلڈنگ، کوئی جھونپڑی، کوئی دریا، کوئی صحرا، کوئی بحرِ بیکراں ایسا نہیں، جہاں سے ’’صوت قرآن‘‘ بلند ہونے کی سماعت نہ ہوتی ہو، حتی کہ قرآنِ کریم کو آخری آسمانی کتاب تسلیم کرکے ایمان لانے والے ہوں یا کوئی غیر مسلم سب ’’صوت قرآن‘‘ سننے اور اس کی وجد آفریں تلاوت سے محظوظ ہونے اور اس کی روحانی تاثیر کے قائل ہیں، ’’صوت قرآن‘‘ میں جو کشش اور جاذبیت ہے، وہ دنیا کی کسی کتاب میں نہیں، عرب کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں نے جب سیدنا خاتم الانبیاء و الرسل حضرت محمد رسول اللہؐ کی زبان مبارک سے روح افروز صوت قرآن کی سماعت کی تو زبان حال سے پکار اٹھے تھے۔ ’’یہ کلام سن کر تو دل بے قابو ہو جاتا اور جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے‘‘۔ سرزمین عرب کے یگانہ روزگار اور ممتاز شاعروں نے اپنے سات قصیدے (سبع معلقات) بیت اللہ شریف کی دیواروں کے ساتھ چیلنج کی صورت میں لٹکا رکھے تھے کہ کوئی ’’ماں کا لال‘‘ ان سے بڑھ کر شاعرانہ کلام سامنے لائے۔ ایک صحابی رسولؐ نے قرآن کی چھوٹی سورۃ ’’اِنّا اَعَطَیُنَاکَ الُکَوُثَرُ‘‘ لکھ کر لٹکا دی تو سبع معلقات (سات قصیدے) لٹکانے والے شاعر نے یہ کہہ کر اپنے قصیدے اُتار لئے تھے۔ ’’ماھذا من کلام البشر‘‘ (یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے) قرآن کریم واحد آسمانی کتاب ہے، جس میں میری قوم سے نہیں یَااَیُّھَاالنَاسُ! اے لوگو: کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔
صوت قرآن کی ہمہ گیر مقبولیت اور اثر خیزی کی بابت اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ غارِ حرا میں واقع وہ کون سی براڈ کاسٹنگ اتھارٹی تھی اور کون سے آلات نصب تھے، جن کی بناء پر بے آب و گیاہ خشک پہاڑ کی چوٹی غارِ حرا سے نشر ہونے والی ’’صوت قرآن‘‘ کرۂ ارضی کے آخری سرے تک صاف صاف سنائی دینے لگی، پھر بچے، بوڑھے، نوجوان اور عورتیں عربوں کے لب و لہجے میں قرآن کریم کے قاری بن گئے، پانچ چھ سال کے بچوں نے قرآن حفظ کرکے سینوں میں محفوظ کرلیا اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا، قرآن کریم کی تلاوت میں جو مقناطیسی جذب و کشش موجود ہے، اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، سب سے پہلی مثال امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کے اسلام قبول کرنے کی ہے کہ دشمنانِ اسلام کفار مکہ کی اک میٹنگ میں حضرت عمرؓ یہ کہہ کر مسلح ہو کر نکلے تھے کہ میں ابھی (نعوذ باللہ) حضرت محمدؐ کا خاتمہ کر کے سر لے کر آتا ہوں، مگر راستے میں ایک شخص نعیم بن عبداللہؓ نے ان کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر پوچھا کدھر جا رہے ہو؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ (نعوذ باللہ) حضرت محمدؐ کا خاتمہ کرنے جارہا ہوں۔ نعیم نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر کر لو، تمہاری بہن فاطمہؓ اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔ یہ بات سنتے ہی حضرت عمر فاروقؓ غضبناک ہوکر سیدھے اپنی بہن کے گھر گئے تو دروازے کے قریب سے ہی سنا کہ حضرت فاطمہؓ اور ان کے شوہر حضرت خباب بن الارتؓ دونوں بلند آواز سے آیتِ قرآنی ’’طٰا مَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لِتَشْقٰی‘‘ کی تلاوت کررہے ہیں۔
دروازے پر حضرت عمرفاروقؓ کے قدموں کی آہٹ سن کر تلاوت بند کردی گئی، حضرت عمرؓ نے دروزہ کھٹکھٹایا تو حضرت خبابؓ نے دروازہ کھول دیا، حضرت عمرؓ نے مکان میں داخل ہوتے ہی بہن سے پوچھا یہ تم کیا پڑھ رہے تھے؟ سہمی ہوئی بہن فاطمہؓ ابھی مکمل جواب نہ دے سکی تھی کہ حضرت عمرؓ نے بہن کے زوردار طمانچہ مارا اور انہیں لہو لہان کر دیا، حضرت خبابؓ بچانے کے لئے آگے بڑھے تو انہیں بھی زخمی کر دیا، حضرت عمرؓ نے اپنی بہن کے خون آلودہ کپڑے دیکھ کر شفقت بھرے انداز میں پوچھا۔ اچھا جو تم پڑھ رہے تھے۔ مجھے بھی سناؤ۔ بہن کی زبانی آیات قرآنی سن کر حضرت عمرؓ کی حالت یک لخت بدل گئی، ایک قرآن کریم کی مقناطیسی تاثیر اور کشش اور دوسری بات یہ کہ سیدنا رسولﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ یا اللہ! ان دو ’’عمروں‘‘ (عمر بن خطابؓ اور عمر بن ہشام (ابو جہل) میں سے ایک عمر مجھے دیکر دعوت اسلام کو مؤثر اور مضبوط بنادے، چنانچہ قبول اسلام کی سعادت حضرت عمر بن خطابؓ کے حصے میں آگئی۔
(امیر شریعت سید عطاء اللہ بخاریؓ سے کسی نے پوچھا کہ عمرؓ اور علیؓ میں کیا فرق ہے تو آپ نے جواب دیا کہ عمرؓ مراد اور علیؓ مرید ہیں)۔
نظام قدرت ملاحظہ کیجیے کہ سیدنا رسول اللہؐ کا (نعوذ باللہ) سر قلم کرنے کی قسم کھا کر تلوار لے کر گھر سے نکلنے والے عمر بن خطابؓ اب سیدنا رسول اللہؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے کے لئے سرنگوں ہو کر دار ارقم کی جانب روانہ ہوگئے، جہاں پر سیدنا رسول اللہؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ قیام فرما رہے تھے، روزنِ در سے حضرت حمزہؓ نے حضرت عمرؓ کو مسلح دیکھ کر سیدنا رسول اللہؐ کی خدمت اقدس میں صورت حال عرض کی تو آپؐ نے فرمایا، اسے آنے دو، اگراچھے ارادے سے آیا ہے تو خیر، ورنہ اس کی تلوار اور اسی کی گردن ہوگی۔ سیدنا رسولؐ نے آگے بڑھ کر حضرت عمرؓ سے دریافت کیا۔ عمر! کیسے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپؐ کی ذات اقدس پر ایمان لانے اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے حاضر ہوا ہوں، کلمہ طیبہ پڑھ کر حضرت عمرؓ کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کی صدا جس کے کان میں بھی پڑی نعرۂ تکبیر سے فضا گونج اٹھی تھی۔ یہاں پر چونکہ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا مفصل واقعہ بیان کرنا مقصود نہیں، بلکہ قرآن کریم کے مقناطیسی اثرات اور تلاوت کی کشش کا حوالہ مقصود ہے، اس سلسلے کے ایمان افروز واقعات پر مشتمل تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ (جاری ہے)
عہد رسالتؐ میں بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے سیدنا رسولؐ کی تلاوت سن کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا، نیز جنات کے ایک گروہ نے جب مسجد جنّ متصل جنت المعلی مکہ معظّمہ کے مقام پر سیدنا رسولؐ کی تلاوت قرآن سنی تو فوراً ایمان لے آئے تھے، چنانچہ قرآن کریم میں سورہ جنّ کے نام سے متصل ایک سورت موجود ہے اور ان کے قبول اسلام کا واقعہ بھی درج ہے۔ جنّوں کے اس واقعے کو قرآن کریم میں جس ادبی انداز میں بیان کیا گیا ہے، اس میں زبردست کشش اور جاذبیت ہے، آیت قرآنی ہے:
’’جنّوں کے اس وفد نے سیدنا رسول اللہؐ کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے، جو رشد و ہدایت کا موجب ہے، ہم اس پر ایمان لے آئے، اب ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہکریں گے‘‘۔
غرض یہ کہ انسانوں اور جنّوں میں سے دنیا کے بے شمار ایسے ہیں، جو قرآن کی تلاوت سن کر ایمان لے آئے اور لاتعداد ایسے ہیں جو ایمان تو نہیں لائے، مگر قرآن کریم کی عظمت اور کلام الہٰی ہونے کے معترف ضرور ہوئے ہیں۔ ان میں نامور غیر مسلم دانشور برنارڈشا بھی ہے اور ہندوستانیوں میں مہاتما گاندھی بار ایٹ لاء بھی ہیں، جو صبح کو اپنی مجلس کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سن کر اپنی روح کو تسکین فراہم کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے، علاوہ ازیں سکھوں کے گرو نانک نے ایک شبد میں کہا ہے:
نانک کل جگ ڈٹھیا ڈٹھے وید پران
اَکوکتیب قرآن ہے جہڑھی کل جگ وچ پردھان
تلاوت قرآن کی مقناطیسی کشش
اللہ کی نازل کردہ آخری آسمانی کتاب قرآن کریم کی تلاوت میں جو جذب و کیف اور کشش ہے وہ دوسری کسی بھی کتاب میں موجود نہیں، حالانکہ آسمانی کتابوں میں توریت اور انجیل بھی ہے، ان کتابوں پر ایمان لانے والے جدید ترین نشریاتی اداروں کے مالک اور میڈیا کے موجد کہلاتے ہیں، لیکن دنیا کے کسی بھی چینل سے قرآن کریم کی ایمان افروز اور وجدآفریں آواز کی مانند کوئی صدا سنائی نہیں دیتی۔ قرآنی تلاوت کی تاثیر کا ایک اور واقعہ جسے برصغیر پاک و ہند کے بے مثل مقرر اور مثالی تلاوتِ قرآنی کا جادو جگانے والی شخصیت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ بانی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان نے بیان کیا کہ تحریک آزادی ہند میں حصہ لینے کی پاداش میں مجھے پسِ دیوار زنداں کر دیا گیا تھا، جیل خانے کی تنگ و تاریک بارک میں ایک سرد رات کو میں سورۂ یوسف کی تلاوت کر رہا تھا، رات کا سناٹا بارش اور ژالہ باری سے ٹھٹھرا ماحول تھا، جب میں نے سورۂ یوسف ؑ میں سے یہ آیت پڑھی:
’’اے میرے رب! مجھے جیل خانہ محبوب اور منظور ہے اس کی نسبت جس کی جانب مجھے مائل کرنے کی یہ کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ تو جیل خانے کی مناسبت سے میری اپنی کیفیت بدل گئی تھی، اس آیت کریمہ کو باربار پڑھ رہا تھا کہ باہر مجھے کسی کے رونے کی آواز آئی۔ میں نے کھڑکی کھول کر دیکھا تو باہر رام جی لال سپرنٹنڈنٹ جیل کھڑا تھا، اس نے مجھے دیکھتے ہی رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ شاہ جی! خدا کے لئے تلاوت قرآن بند کردیں، مجھ میں اس ٹھٹھرتی رات میں کھڑا ہونے کی مزید سکت نہیں ہے، اس نے اشک آلود آنکھیں صاف کرتے ہوئے پوچھا، شاہ جی! یہ کیا جادوبھرا کلام ہے؟جسے سن کر میرے جسم میں عجیب لہر دوڑ گئی ہے۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ اللہ کے کلام کی یہ تاثیر ہے کہ سننے والا خواہ کوئی بھی ہو اس کے مقناطیسی اثر اور اس کی پر کیف وجد آفرینی سے ضرور متاثر ہوتا ہے۔
حسن قرأت کی عالمگیر یکسانیت
قرآن کریم کو اللہ نے یہ اعزاز عطا کیا ہے کہ اس کے پہلی وحی کے نزول کے وقت جب سیدنا رسول اللہؐ نے عجلت کے ساتھ وحی کے الفاظ یاد کرنے کے لئے زبان متحرک کی تو بصورت وحی فرمایا گیا:
یعنی آپ قرآن کو یاد رکھنے کے لئے اپنی زبان متحرک اور تیز نہ کریں اسے آپ کے سینے میں جمع رکھنا اور اس کی تلاوت کے انداز کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے، جب ہم اس کی تلاوت کریں تو اس کے اتباع اور مطابقت میں آپ بھی تلاوت کریں، پھر اس کا ترجمہ اور تفسیر بھی ہماری ذمہ داری میں ہے۔
گویا تلاوت کے متن سے لے کر قرآن کریم کی حسن قرأت، ترجمہ اور تفسیر بھی وحی الٰہی کے مطابق ہے، اسی لئے قرآن کریم واحد آسمانی کتاب ہے جو ہر قسم کی تحریف اور نقص سے پاک ہے کوئی شخص بھی اس کتاب کا نہ متن تبدیل کر سکتا ہے نہ اس کے ترجمے اور تفسیر میں اپنی ذاتی رائے داخل کر سکتا ہے۔ دنیا میں بچوں، بچیوں، مردوں، عورتوں، نوجوانوں اور بوڑھوں میں قرآن کریم کے حفاظ موجود ہیں، مقابلہ حسن قرأت میں جہاں عرب کے حفاظ شرکت کر کے قرآن کریم کی وجد آفریں اور ایمان افروز تلاوت کرتے ہیں وہاں مختلف ممالک کے لڑکے، لڑکیاں، مرد اور عورتیں بھی شرکت کر کے عربوں کا ایسا لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ سامعین کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیات قرآنی تلاوت کرنے والا کوئی عربی اور سرزمین مقدس کا کوئی باشندہ ہے یا عربی اور عجمی ہے۔
عربوں کے لہجے میں تلاوت قرآن کی تاکید۔۔۔سیدنا رسول اللہﷺ کی ایک حدیث شریف میں آپﷺ نے فرمایا کہ تم قرآن کریم کو عربوں کے لہجے میں پڑھا کرو
دنیا کے اکثر ممالک میں عربوں ہی کے لہجے میں تلاوت ہوتی ہے کیونکہ اکثر ممالک کے باشندوں نے عرب تاجروں، مبلغوں، مجاہدین اسلام کے روبرو اسلام قبول کیا اور انہی سے قرآن کریم کی تلاوت سیکھی تھی، صرف برصغیر ہندوستان کا شہر پانی پت ضلع کرنال ایسا ہے، جس میں ایک عورت سے قرآن پڑھنے والوں نے اسی کا لہجہ اختیار کر لیا۔ قیام پاکستان کے بعد پانی پتی لہجے کے ممتاز قاری حضرات کی تعلیم سے اس لہجے کو فروغ ملا، جبکہ وہ کسی عربی قاری کی خدمات سے استفادہ کر سکتے ہیں، لیکن افسوس کہ اس جانب توجہ کسر شان قرار پا رہی ہے، اور سیدنا رسول اللہؐ کی تاکیدی ارشاد گرامی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
قرآنی لہجوں کے ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک محفل میں قرآنی تلاوت کی تاثیر موضوع سخن تھی، مجھ سے بھی دریافت کیا گیا کہ آپ کی نگاہ میں عربوں اور مصری قاریوں میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے؟
میں نے تلاوت قرآن کے لہجوں کے حوالے سے ایک مرتبہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی خدمت میں عرض کیا کہ شاہ جی! آپ سے ایمان افروز تلاوت سننے کے لئے میں نے اپنے شہر سلطانپور لودھی(مشرقی پنجاب ریاست کپورتھلہ) میں لوگوں کو ساری رات جاگ کر گزارتے دیکھا ہے، آپ جب تلاوت کرتے ہیں تو مکہ کے پہاڑوں، مدینہ منورہ کی گلیوں اور طائف کے بازاروں کا نقشہ آنکھوں میں گھوم جاتاہے، میں نے آپ سے قرآن سننے کے لئے ہندوؤں، سکھوں، مردوں اور عورتوں کو کشاں کشاں جلسہ گاہ کی جانب دیوانہ وار آتے دیکھا ہے۔ آپ کس کی تلاوت سے متاثر ہیں؟ شاہ صاحب نے جواب میں کہا، بیٹا! پہلے یہ بات ذہن نشین کر لو کہ دنیا میں جتنے بھی لوگ حسن قرات کا مظاہرہ کرتے اور عربوں کے لہجے میں تلاوت قرآن کر رہے ہیں وہ سب سیدنا رسول اللہؐ کی تلاوت قرآن کے لہجے کی صحیح اتباع کی کوشش کرتے ہیں، ان میں سر زمین مقدس کے قاری اس لئے ممتاز اور منفرد ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے آباء و اجداد سے تعلیم القرآن حاصل کی ہے، جنہوں نے نسلاً بعد نسلِ صحابہ کرامؓ اور سیدنا رسول اللہؐ سے تلاوت قرآن براہ راست سننے کی سعادت اور شرف و اعزاز پایا ہے، جو صحابہ کرامؓ تبلیغ اسلام، جہاد یا تجارت کی غرض سے دوسرے ملکوں میں رونق افروز ہوئے تھے، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا کہ مصری قاری عبدالصمد عبدالباسط کی تلاوت قرآن سن کر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے سینے میں پھیپھڑے نہیں،بلکہ مشکیزے نصب کر رکھے ہیں اتنی لمبی سانس والا قاری میں نے کہیں نہیں دیکھا۔
بہر حال جس مجلس میں مجھ سے ان قاری حضرات کی تلاوت کا فرق دریافت کرنے والوں سے میں نے کہا تھا کہ میں حسن قرات کے لئے کوشاں ہوں، اللہ تعالیٰ یہ سعی و کوشش قبولیت سے نوازے، البتہ مجھے جب بھی مکہ معظّمہ اور مدینہ منورہ کے آئمہ کرام خطباء سے تلاوت قرآن کریم کی سماعت کا شرف ملا ہے میں نے محسوس کیا کہ ان حضرات کی تلاوت دلوں کو متاثر کرتی اور وجد و کیف طاری ہو جاتا ہے، لیکن مصری اور دوسرے ممالک کے قاریوں کی تلاوت کانوں کو متاثر کرتی اور ایک کان سے نکل کر دوسرے کان کا رُخ کر لیتی ہے اور کمال نے نوازی میں دل کا دامن خالی رہ جاتا ہے۔