جنرل حمید گل کی تیسری برسی
آج سے تین برس قبل15اگست2015ء پاکستان کی عسکری و سیاسی تاریخ کے ایک عظیم کردار جنرل حمید گل79 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔آپ پاک فوج کے مایہ ناز وژنری اور حقیقی سپوت تھے،پاکستان، ریاست پاکستان کے بارے میں اور ریاست پاکستان کی تنظیم اور قوت کے بارے میں ان کے خیالات بڑے واضع تھے، انہیں جنرل محمد ضیاء الحق نے میجر جنرل بنایا تھا وہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بارے گہری نظر رکھتے تھے، اسلامی نظام کے قیام کے حوالے سے بھی اُن کے خیالات واضح تھے۔ 1979ء میں جب اشتراکی افواج نے افغانستان پر لشکر کشی کی تو جنرل ضیاء الحق نے گلبدین حکمت یار اور پروفیسر برہان الدین ربانی کے علاوہ دیگر جنگجو گروپوں کو اکٹھا کر کے ایک مزاحمتی تحریک میں بدلنے کا فیصلہ کیا، ان کے خیال کے مطابق افغانوں کی دوہزار سالہ تاریخ کے مطالعے کے بعد یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ اِسی طرح اشتراکیوں کو پچھاڑ دیں گے، جس طرح انہوں نے عظیم برطانوی افواج کو شکست سے ہمکنار کیا تھا، جنرل ضیاء الحق کی اسلام پسندی اور پاکستان میں نفاذِ اسلام کی کاوشیں جاری تھیں، افغانستان مزاحمتی تحریک کی معاونت کا فیصلہ بھی ایسی ہی کاوشوں کے عین مطابق تھا۔ جنرل حمید گل جنرل ضیاء الحق کے اس وژن کے خوشہ چین تھے، ہم القاعدہ کے بانی فلسطینی پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ عزام شہید کے خیالات کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ جنرل ضیاء الحق و جنرل حمید گل کی طرح افغانستان میں افغانستان کی تحریک آزادی کو ’’جہاد‘‘ اور اسلام کے غلبے کے لئے ’’جہادی نرسری‘‘ قرار دیتے تھے، بعد میں آنے والے واقعات نے ان کی سوچ کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
نائن الیون کا وقوعہ جدید صلیبی جنگ کا ابتدائیہ ثابت ہوا ہے اس واقعے کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکہ نے افغانستان میں جس جنگ کا آغاز کیا تھا،اس میں عالم اسلام بری طرح جھلس چکا ہے، جارج بش سے لے کر اوباما اور اب نسل پرست کٹر عیسائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک تمام امریکی رہنما کسی نہ کسی بہانے مسلم ممالک میں قتلِ عام کرتے رہے ہیں۔ ذرا شام کو دیکھ لیں وہاں تمام عیسائی قومیں متحارب کیمپوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی ہیں، لیکن دونوں فریقین ایک بات پر متفق ہیں کہ اہلِ حرم کی بیخ کنی کی جائے۔ یہ بات جنرل حمید گل بڑے شدو مد کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ امریکہ مسلمانوں کا دوست ہر گز نہیں ہے، ہمیں بطورِ مملکت اس کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے۔وہ جہاد افغانستان کی کامیابی کے لئے مکمل طور پر پُرامید تھے وہ سبز ہلالی پرچم صرف کابل و اسلام آباد پر لہرانے کے ہی قائل نہیں تھے، بلکہ وسط ایشیائی ریاستوں کی آزادی اور اسلامی قبیلے کا حصہ بننے کے بارے میں بڑے پُرامید تھے۔
بطور ڈائریکٹر ملٹری انٹیلی جنس اور پھر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی وہ اسی نظریے کی تطبیق پر عمل پیرا رہے، انہیں جنرل ضیاء الحق کی مکمل تائید بھی حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر کام بڑے موثر انداز میں سرانجام دیتے تھے، جب انہیں1987ء میں آئی ایس آئی کی کمانڈ دی گئی تو افغانستان میں مجاہدین کی فتح اور اشتراکیوں کی شکست طے ہو چکی تھی اور ہماری آئی ایس آئی یہ کام جنرل اختر عبدالرحمن کی قیادت میں پہلے ہی مکمل کر چکی تھی، جنرل اختر عبدالرحمن کیونکہ ایک خالص پیشہ ور جرنیل تھے، اِس لئے وہ شہرت و خود نمائی سے دور رہتے تھے۔ آئی ایس آئی کہ کام کی نوعیت بھی ایسی تھی کہ اس میں ’’اخفاء‘‘ یعنی راز داری بنیادی اہمیت رکھتی ہے اِس لئے عام لوگوں کو جنرل اختر عبدالرحمن کے بارے میں بہت زیادہ کیا، کم بھی پتہ نہیں تھا1988ء میں سی ون30 کے حادثے کے بعد معروف صحافی و دانشور عرفان صدیقی نے ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں ان کے بارے میں ایک طویل مضمون لکھا تھا جسے بعد میں جنگ پبلشرز نے ایک کتاب ’’خاموش مجاہد‘‘ کی شکل میں شائع کیا تو دُنیا کو جنرل اختر کے بارے میں پتہ چلا پھر ان کے بیٹوں ہمایوں اختر خان، غازی اختر خان، ہارون اختر خان وغیرہ نے جنرل اختر عبدالرحمن کے بارے میں ’’فاتح‘‘ کے نام سے ایک تحقیقی کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا ہارون رشید نے جنرل بارے معلومات کو بڑے پیشہ وارانہ انداز میں تحریر کر کے حق ادا کیا۔ اس طرح جنرل اختر عبدالرحمن 1988ء میں شہادت کے بعد منظر عام پر آئے اور دُنیا کو پتہ چلا کہ وہ ایک عظیم فوجی جرنیل تھے، جنہوں نے افغان مجاہدین کی کامیابی کی بنیاد بھی رکھی اور اسے مکمل بھی کیا۔
جنرل حمید گل کو1987ء میں سٹیج سجی سجائی ملی اور وہ اسے لے کر آگے بڑھے۔افغانستان سے اشتراکی افواج کی رخصتی کے بعد افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم کرنے کے مشن پر ڈٹ گئے،انہوں نے غیر ریاستی عناصر کے ذریعے جلال آباد پر قبضہ کر کے افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم کرنے کے لئے تاریخی آپریشن جلال آباد لانچ کیا،لیکن اس میں اُنہیں بری طرح شکست ہوئی۔
آپریشن جلال آباد کے بعد مجھے ان سے جی ایچ کیو میں ملنے اور انٹرویو کرنے کا اعزاز حاصل ہوا،مَیں نے ان سے پوچھا کہ جنیوا معاہدے پر پاکستان نے دستخط کر کے میدانِ جہاد افغانستان میں حاصل کردہ کامیابی کا سودا نہیں کیا؟ اس معاہدے پر دستخطوں کے نتیجے میں اشتراکی افواج کی افغانستان پر لشکر کشی کو بھی درست تسلیم کر لیا گیا اور ان کی قائم کردہ نجیب حکومت کو بھی تسلیم کر لیا گیا، تو انہوں نے بتایا جب جونیجو حکومت کے وزیر خارجہ زین نورانی جنیوا جا رہے تھے، تو ہم نے انہیں واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ’’دستخط نہیں کرنے‘‘ ہمیں نورانی صاحب پر اعتماد تھا وہ ہمارے ساتھ ایک عرصے سے کام کر رہے تھے،لیکن وہاں جا کر انہوں نے امریکی دباؤ میں جنیوا معاہدے پر دستخط کر کے افغان کاز کو نقصان پہنچایا۔
آپریشن جلال آباد میں ناکامی نہ صرف جنرل حمید گل کے کیریئر پر ایک دھبہ ثابت ہوئی، بلکہ پاکستان کو بھی سبکی اٹھانا پڑی۔کہا جاتا ہے کہ جنرل حمید گل اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے وزیراعظم بے نظیر بھٹوکو اس معاملے کی ہوا نہیں لگنے دی،لیکن یہ بات شاید درست نہیں ہے،کیونکہ اس آپریشن پر حکومت کے دو ارب روپے خرچ ہوئے۔ اس دور کے مشہور اشتراکی دانشور اور صحافی زبیر رانا نے جو محترمہ کے قریبی تھے، بتایا کہ بے نظیر بھٹو کو فوج نے اِس معاملے پر بریفنگ دی تھی اور وہ اس آپریشن کی کامیابی کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں تھیں، لیکن جنرل حمید گل کے اصرار پر انہوں نے نہ صرف اس آپریشن کی منظوری دی،بلکہ درکار مالی وسائل بھی مہیا کئے۔آپریشن کی ناکامی کے بعد جنرل اسلم بیگ نے بے نظیر بھٹو کے کہنے پر جنرل حمید گل کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے فارغ کر دیا۔جنرل ضیاء الحق نے انہیں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر ایم آئی کا سربراہ بنایا تھا وہ اسلامی ریاست کے قیام کے حوالے سے جنرل ضیاء الحق کے ہم خیال ہی نہیں،بلکہ ان خیالات کے مبلغ بھی تھے، جب افغان تحریک مجاہدین کی کامیابی نظر آنے لگی تو آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا دیا گیا اور جنرل حمید گل کو آئی ایس آئی کی قیادت پر فائز کر دیا گیا۔ جنرل حمید گل جنرل ضیاء الحق کے نقشِ قدم پر چلتے رہے۔جنرل ضیاء الحق نے1977ء میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹا اور1979ء میں انہیں نواب محمد احمد خاں کے قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا۔ ایسے ہی جنرل حمید گل نے بے نظیر حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا اور وہ اس کام کو اپنی فوجی اور قومی ہی نہیں دینی ذمے داری بھی سمجھتے تھے،کیونکہ وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا خواب دیکھتے تھے۔ آئی جی آئی اسی خواب کی تعبیر کی ایک شکل تھی اور نواز شریف کو وزیراعظم بنانا اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔
وہ پیپلزپارٹی اور بے نظیر بھٹو کے بارے میں ویسے ہی خیالات کے حامل تھے، جیسے جنرل ضیاء الحق کے تھے،انہوں نے ایک سچے اور محب وطن سپاہی کے طور پر پیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی سیاسی کاوشیں بھی کیں۔ آئی جے آئی کے ذریعے نواز شریف کو آگے بڑھایا۔ ان کے لئے سیاسی جگہ بنائی اور انہیں وزارتِ عظمیٰ کے عہدۂ جلیلہ تک لے کر گئے۔ اس بارے میں دو آراء ہو سکتی ہیں کہ انہیں بطورِ جرنیل ایسا کرنا چاہئے تھا یا نہیں،بلکہ ایک بات بڑی واضح ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ کسی ذاتی منفعت یا نمود و نمائش کی خاطر نہیں کیا،بلکہ ایک فرض اور مقدس مشن سمجھ کر کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بہت کچھ کیا تو جنرل حمید گل ویسے بھی پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کے مقابل ڈٹے رہے۔
جنرل حمید گل پاکستان کے اسلامی تشخص کے بارے میں بڑے یکسو تھے وہ پاکستان کو نظریۂ پاکستان اور آئین پاکستان کے عین مطابق ایک اسلامی ریاست دیکھنے کے خواہشمند نہیں،بلکہ اس کے لئے مصروف جہاد بھی رہے۔
ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے افکار و نظریات کی ترویج کا کام جاری رکھا، انہیں ایک مسلم عسکری دانشور کے طور پر پذیرائی ملی ، وہ اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ انہوں نے بطور جرنیل بھی عزت کمائی، اپنے ادارے کی عزت میں چار چاند لگائے۔اپنے مرشد جنرل ضیاء الحق کی فلاسفی کو آگے بڑھایا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں معاشرے میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا،انہوں نے کبھی بھی اپنے ادارے فوج پر تنقید نہیں کی۔اللہ رب العزت ان کے درجات بلند کرے۔ آمین یا رب العالمین۔