خیبر اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اپوزیشن کا احتجاج
رواں ہفتے کی خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی پندرہویں قومی اسمبلی کے نو منتخب اراکین نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا۔ پیر کے روز قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ تین صوبائی اسمبلیوں خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے اراکین بھی محلف ہوئے۔ پنجاب اسمبلی کے اراکین آج حلف اٹھائیں گے۔ حلف برداری کی تقاریب بڑے پر امن اور پر جوش انداز میں انجام پائیں، قومی اسمبلی میں تو دلچسپی کے کئی امور دیکھنے میں آئے اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نامزد وزیر اعظم عمران خان نے سیاسی مخالفین سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کر کے زبردست پیغام دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے جواں سال قائد بلاول بھٹو زرداری کی ایوان میں آمد پر ان کا پر جوش استقبال کیا گیا اور عمران خان سمیت اراکین اسمبلی نے کھڑے ہو کر انہیں خوش آمدید کہا۔ یہی جمہوری حُسن ہے اور عالی ظرفی کا مظاہرہ بھی ۔ یوں پنجاب کے سوا ملک بھر میں انتقال اقتدار کا ایک اہم سنگ میل عبور ہو گیا اور حکومت سازی کا پہلا مرحلہ بھی بخیر و خوبی انجام پایا۔ آج پنجاب بھی انتقال اقتدار کی اس صف میں شامل ہو جائے گا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کے پہلے اجلاس میں نو منتخب اراکین صوبائی اسمبلی نے حلف اٹھالیا، سپیکر اسد قیصر کی غیر موجودگی میں پریزائیڈنگ افسر اورنگزیب نلوٹھہ نے 124 میں سے 111نو منتخب اراکین صوبائی اسمبلی سے حلف لیا، خیبر اسمبلی کی ننھی منھی اپوزیشن کے اراکین نے اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شرکت کی۔ حزب اختلاف کے اراکین حلف لئے جانے کے دوران بھی احتجاج اور مسلسل نعرے بازی کرتے رہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے سپیکر اسدقیصر نے چونکہ صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی کی رکنیت کاحلف لیا اور وہ قومی اسمبلی میں سپیکر کے امیدوار بھی نامزد ہوئے ہیں اس لئے وہ خیبر اسمبلی میں تشریف نہیں لائے۔ آج قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہو رہا ہے جو خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔ کے پی کے اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر اسمبلی کی عمارت ریڈ زون قرار دی گئی تھی اور اسمبلی اجلاس کے موقع پر400 پولیس اہلکار اسمبلی عمارت اور گرد و نواح میں تعینات رہے۔
دوسری جانب اسمبلی میں جمہوری تسلسل کے دوسرے مرحلے میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہوگا، پاکستان تحریک انصاف نے ایبٹ آباد سے نو منتخب رکن صوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی کو خیبر پختونخوا اسمبلی کا اسپیکر نامزد کر دیا ہے جبکہ محمود جان ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب لڑیں گے۔ اس حوالے سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے باضابطہ منظوری دیدی ہے۔ مشتاق غنی تحریک انصاف کے سرگرم رہنما ہیں جو گزشتہ دور حکومت میں صوبائی وزیر اطلاعات، ہائر ایجوکیشن اور صوبائی حکومت کے ترجمان بھی رہے ہیں ۔ ان کا شمار قائد تحریک عمران خان اور سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے قریبی اور معتمد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی اے دور حکومت میں ان کی کارکردگی کا ہر شخص معترف تھا، اسی بنا پر انہیں صوبائی اسمبلی کا سپیکر نامزد کیا گیا ہے۔ جہاں تک نامزد وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوامحمود خان کا تعلق ہے تو وہ آج کل اپنے ساتھی ارکان اسمبلی سے خوب ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اپوزیشن اراکین کے ساتھ رابطوں کی بھی اطلاعات ہیں اور خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے نامزد وزیر اعلیٰ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ پی ٹی آئی صوبائی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت ہے جس کی طرف سے سپیکر ، ڈپٹی سپیکر اور قائد ایوان کے لئے نامزد افراد کی کامیابی یقینی ہے یعنی رواں ہفتے کے دوران ہی یہ دوسرا جمہوری مرحلہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ جہاں تک نئی کابینہ کا تعلق ہے تو پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری پارٹی نے وفاق اور صوبوں میں کابینہ اراکین سمیت تمام عہدوں پر ناموں کو حتمی شکل دے دی ہے اور قائد تحریک عمران خان سے اس کی باقاعدہ منظوری بھی حاصل کر لی گئی ہے تاہم وفاق اور چاروں صوبوں میں ان مناصب پر فائز افراد کے ناموں کا اعلان اسی ہفتے متوقع ہے ۔ خیبرپختونخواکی صوبائی کابینہ کیا ہو گی اور ان میں کن کن افراد کو شامل کیا جائے گا، کتنے سابق وزراء یا مشیروں کو دوبارہ عہدے ملنے کا امکان ہے اس امر کا فیصلہ ایک دو روز میں ہو جائیگا اور نامزد وزیر اعلیٰ محمود خان اس حوالے سے بھی متوقع اراکین کابینہ سے معاملات طے کر رہے ہیں۔پہلی بار منتخب ہو کر خیبرپختونخوااسمبلی پہنچنے والے کئی نو وارد ارکان بھی وزارت کے لئے دوڑ دھوپ میں مصروف ہیں اور کئی ایک تو با اثر سیاسی گروپوں کے ساتھ لابننگ کے ذریعے کابینہ میں شامل ہونے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ نئی کابینہ میں تین چار نئے چہرے بھی شامل کئے جانے پر غور کیا جا رہا ہے اور گزشتہ دور حکومت میں جن اضلاع کو کابینہ میں نمائندگی نہیں مل سکی وہاں سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی نئی کابینہ میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔ وزراء مشیران اور معاونین خصوصی کی تعداد کتنی ہو گی اس حوالے سے بھی تا حال کوئی اندر کی خبر باہر نہیں آئی۔
25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات کے روز جن حلقوں میں بوجوہ الیکشن نہیں ہو پائے تھے الیکشن کمیشن نے ان حلقوں کے ضمنی انتخابات کا بھی اعلان کر دیا ہے اور چاروں صوبوں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 41حلقوں میں اکتوبر میں ضمنی انتخابات ہوں گے۔ ان ضمنی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے ایک ارب روپے خرچ ہونے کا امکان ہے۔ قومی اسمبلی کی 9 اور صوبائی اسمبلیوں کی 14نشستیں ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی نے خالی کی ہیں، جبکہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے دو اورصوبائی اسمبلیوں کے 6حلقوں میں الیکشن مؤخر ہوگئے تھے۔ان تمام حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف ،مسلم لیگ (ن) ،جے یو آئی، پاکستان پیپلزپارٹی سمیت دوسری جماعتوں کے امیدواروں نے انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں نے این اے 35 بنوں این اے 53اسلام آباد این اے 131لاہور اور این اے 243کراچی کی قومی اسمبلی کی 4نشستیں خالی کی ہیں۔ادھر جمعیت اعلماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کی چھوڑی گئی نشست این اے 35 بنوں سے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور کہا جا رہا ہے بعض حلقوں کی جانب سے جے یو آئی کے سربراہ کو ایک بار پھر پارلیمانی سیاست میں واپس لانے کی تیاری کی جا رہی ہے لیکن اس امر کا حتمی فیصلہ ایم ایم اے کے سربراہی اجلاس میں کیا جائے گا جس کا انعقاد جلد متوقع ہے یاد رہے کہ این اے 35 بنوں کی سیٹ پر عمران خان نے جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر اکرم خان درانی کو شکست دی تھی اور اس امر کا اظہار بھی اکرام خان درانی نے خود کیا ہے مولانا فضل الرحمن کا پارلیمانی سیاست میں اہم کردار رہا ہے ان کی قومی اسمبلی میں موجودگی ضروری ہے۔ اکرم خان درانی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میں یہ سیٹ بھی جاتا تو اپنے قائد فضل الرحمن کے لئے چھوڑ دیتا۔