عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر47
معاًقاسم کو ایک خیال آیا۔ اور اس نے سلطان کی خدمت میں ادب سے گزارش کی۔
’’سلطانِ معظم! انتہائی احتیاط کے ساتھ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘
سلطان نے چونک کر قاسم کی جانب دیکھا۔ اور سر کی جنبش سے بات کرنے کی اجازت دی ۔ قاسم نے پھر کہا:۔
’’سلطانِ معظم ! حیرت کی بات ہے........سرکاری سراغ رساں کو ایک جگہ سے کسی شخص کی تین داہنی انگلیاں کٹی ہوئی ملی ہیں۔ جنہیں تفتیش کی غرض سے مشکِ کافور اور قدرتی برف میں محفوظ کر لیا گیا ہے.......اگر گستاخی نہ سمجھی جائے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ طبیب سیلم پاشا سلطانِ معظم سے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
قاسم بات کر رہا تھا اور سلیم پاشا کی ٹانگیں زور زور سے کانپ رہی تھیں۔ قاسم نے تین انگلیوں کا ذکر کر کے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ خزاں رسیدہ پتے کی طرح پیلا ہونے لگا ۔ اور وہ شاہی نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے فرش پر گھورنے لگا۔اس کی اب تک کی حرکتیں سلطان کے لیے بھی چونکا دینے والی تھیں۔ چنانچہ سلطان نے کسی قدر بلند آواز میں کہا:۔
’’طبیب !........آپ کی ٹانگیں کیوں کانپ رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ۔ آپ کا کوئی نہ کوئی تعلق ان تین انگلیوں کے ساتھ ہے۔‘‘
سلطان کی بات نے سلیم پاشا کی رہی سہی جان بھی نکال لی۔ اسی اثناء میں قاسم نے پھر کہا:۔
’’سلطان معظم!یہ کٹی ہوئی انگلیاں مجھے اپنے ہی گھر سے ملی ہیں اور میری بھابھی جان نے مرتے وقت بتایا تھا کہ انہوں نے حملہ آور نقاب پوشوں کے سردار کو زخمی کردیا تھا ۔لیکن سلطانِ معظم ! یہ ضروری تو نہیں کہ وہ انگلیاں محترم طبیب سلیم پاشا کی ہی ہوں۔‘‘
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر46پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قاسم نے جملے کا آخری حصہ کسی قدر زور دیتے ہوئے جان بوجھ کر کہا تھا ۔اب گویا اس نے سلیم پاشا پر اپنے شک کا براہِ راست اظہار کردیا تھا ۔ سلیم پاشا کی حالت غیر تھی۔اورا اس کی زبان کوئی بھی لفظ ادا کرنے کی ہمت نہ کر پارہی تھی۔ شکار کو جال میں پھنستے دیکھ کر قاسم نے آخری ضرب لگائی اور کہا:۔
’’سلطانِ معظم !.........خفیہ محکمے کے ماہرین ان انگلیوں اور محترم طبیب کے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کو دیکھ کر بآسانی بتاسکتے ہیں کہ یہ انگلیاں محترم طبیب سلیم پاشا کی ہی ہیں۔‘‘
قاسم کی بات پوری طرح ختم نہ ہوئی تھی کہ دیوانِ شاہی میں ایک عجیب حادثہ رونما ہوگیا ۔ سلیم پاشا نے خود کو چوہے دان میں پھنستے دیکھا تو ایک دم بجلی کی سرعت سے اپنی قباء کے اندر اپنا بایاں ہاتھ ڈالا اور ایک تیز دھار چمکتا ہوا خنجر نکال کر پلک جھپکتے میں سلطان مراد خان ثانی پر حملہ کردیا۔ بہت ممکن تھا کہ اس کا خنجر سلطان کا پیٹ چاک کردیتا ۔ لیکن اربان نے بروقت ایک عجیب حرکت کی اور بجلی کی طرح سلطان کے سامنے آگیا۔ سلیم پاشا کا خنجر اربان کی پسلیوں میں گھستا چلا گیا ۔ لیکن سلطان بال بال بچ گیا ۔ قاسم کے لیے اتنی مہلت کافی تھی۔ اس نے فوراً اپنی شمشیر بے نیام کی اور سامنے کی طرف سونت کر سلیم پاشا کی گردن پر رکھ دی۔ سلطان نے بآوازِ بلند دربان کو پکارا ۔ اور دربان تلوار سونتے اندر کی جانب لپک آیا۔ اب سلیم پاشا بے بس ہوچکاتھا ۔ لیکن اس نے آخر میں سب سے حیران کردینے والی حرکت کی اور اپنا خنجر اربان کی پسلیوں سے کھینچ کر اپنے یہ پیٹ میں گھونپ لیا ۔ اس کا پول کھل چکا تھا ۔ اور اب اس کے لیے مزید زندہ رہنا کسی صورت ممکن نہ تھا ۔ چنانچہ اس نے خودکشی کرلی۔
اگلے روز غدار سلیم پاشا کی لاش شہر کے سب سے بڑے چوراہے میں الٹی لٹک رہی تھی۔ جس کے پاس ہی ایک چھوٹے سے ستون پر سرکاری اشتہا رآویزاں تھا ۔ جس میں غدار سلیم پاشا کے سیاہ کارنامے درج تھے۔ قاسم کا انتقام پورا ہو چکا تھا ۔ اور اس کا سب سے بڑا دشمن حملہ آور نقاب پوشوں کا سردار اور قیصر کا خطرناک جاسوس اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا ۔اور اربان جو سلطان مراد خان ثانی کو بچاتے ہوئے غدار سلیم پاشا کے خنجر سے زخمی ہوگیا تھا کچھ دن بعد ہی پھر سے تندرست ہوگیا تھا ۔
آج قاسم بہت خوش تھا ۔ اور وہ اسی سرشاری کے عالم میں دھڑکتے دل کے ساتھ اربان کے گھر جاپہنچا۔ یہاں وہ اپنے بوسنیائی مہمانوں سے ملنے آیا تھا ۔ لیکن درحقیقت اس کے دل میں کوئی انجانا سا چور بھی سرچھپائے بیٹھا تھا ۔ یہ غالباً شہزادی حمیرا کی ملاقات کا چور تھا ۔ وہ اربان کے گھر پر پہنچا تو بے جذباتی ہورہا تھا ۔ اس نے لرزتے ہاتھ کے ساتھ اس خوبصورت مکان کے دروازے پر دستک دی اور کچھ دیر کھڑے رہ کر انتظار کرنے لگا۔
چند لمحے بعد مکان کا دروازہ کھلا تو وہ اپنی جگہ پر مارے جذبات کے کانپ کر رہ گیا ۔ سامنے بوسنیا کی حسین شہزادی کھڑی تھی۔ قاسم کو توقع نہ تھی کہ دروازہ کھولنے کے لیے شہزادی حمیرا خود چلی آئے گی۔وہ تو ششدر تھا ہی ،دیکھنے والی حالت تو شہزادی حمیرا کی تھی۔ جس کے سامنے اچانک اس کے خوابوں کا شہزادہ آفتابِ روشن کی طرح طلوع ہو گیا تھا ۔ شہزادی پھٹی پھٹی آنکھوں سے قاسم کا مسکراتا ہو ا چہرہ دیکھے چلی رہی تھی۔ اس کے دونوں ہاتھ دروازے کے کواڑوں پر تھے اور منہ سکتے کے عالم میں کھلاتھا ۔ قاسم کی آمد کسی معجزے سے کم نہ تھی۔ وہ سوچ رہی تھی مسلمان ہونے کے بعد اس کی پہلی دعا ہی قبول کرلی گئی تھی۔ اس نے مسلمان ہونے کے بعد اپنے خدا سے قاسم کی دوبارہ ملاقات طلب کی تھی اور آج قاسم خود بخود اس کے سامنے چلا آیا تھا ۔ دونوں طرف کی حیرتیں ماند پڑیں تو دونوں ملاقاتی عجیب سے انداز میں مسکرا اٹھے۔شہزادی نے بغیر کوئی سوال کیے قاسم کو اندر آنے کے لیے کہا اور خود دوڑتی ہوئی مریم اور بوڑھے عباس کو پکارنے لگی۔ قاسم کی ملاقات سب کے لیے اچانک اور چونکادینے والی تھی۔ اربان گھر پر موجود نہ تھا ۔ لیکن ان تینوں نے قاسم کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ اور اس کی آمد سے شہزادی کے گھر چار چاند روشن ہوگئے۔ وہ ایک جگہ جاکر بیٹھے تو عباس نے چھوٹتے ہی خوشی سے کپکپاتی آواز میں کہا:۔
’’بیٹی حمیرا دیکھو!!.........تمہارا دولہا خود بخود آگیا ۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں ۔تم پہلے دن سے ہی قاسم کو چاہنے لگی ہو۔ تم مجھ سے کچھ نہیں چھپا سکتی۔‘‘
حمیرا کا چہرہ حیاء سے گلنار ہوگیا۔ وہ فوراً اٹھی اور اندر کی طرف جانے لگی۔ لیکن عباس نے اس کو کلائی سے پکڑ لیا۔
’’بیٹی ! جاتی کہاں ہو؟ یہاں بیٹھو! اتنی مدت بعد قاسم ایک بار پھر ہمارے گھر آیا ہے اور تم چل دیں۔ خوشبو اور محبت کو چھپایا نہیں جاسکتا ۔ تم تو یہ بھی نہیں مانو گی کہ تم ادرنہ میں قاسم ہی کے سلسلے میں آئی ہو۔‘‘
حمیرا چھوئی موئی سے ہوگئی۔ اور عباس سے اپنی کلائی چھڑاتے ہوئے کہنے لگی:۔
’’چچا ! آپ نے دیکھا میری دعاؤں کا اثر۔ قاسم بن ہشام خود چل کر ہمارے پاس آئے ہیں۔ آپ میرا ہاتھ چھوڑیے! میں ان کے لیے کچھ کھانے کا بندوبست کرتی ہوں۔‘‘
لیکن قاسم اس صورتحال سے بری طرح سٹپٹا گیاتھا۔ اسے قطعاً توقع نہ تھی کہ معاملہ اس حد تک بڑھ چکا ہے۔ وہ تو غزالہ یعنی مارسی سے محبت کرتا تھا ۔ آج اس کے دل میں شہزادی حمیرا کی محبت نے شمع چلانے کی کوشش کی ۔ تو اسے مارسی کی بے پناہ یاد آنے لگی۔ اسے یوں لگا۔ جیسے وہ مارسی کی روح سے بے وفائی کررہا ہو۔ اس کے بعد وہ جتنی دیر بھی ان لوگوں کے پاس رہا اسی احساس کی آگ میں جلتا رہا ۔ اور حمیرا کی بے پایاں عقیدت کو درخورِ اعتناء نہ سمجھا۔ حتیٰ کہ جب وہ رات کو واپس ہونے لگا تو بالآخر حمیرا بو ل اٹھی:۔
’’محترم سالار ! .........آج آپ کھوئے کھوئے سے تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ کے دل میں کسی اور کے نام کا چراغ روشن ہے۔ اگر میری وجہ سے آپ کو کوئی دکھ پہنچا ہو تو میں دل سے معافی کی خواستگار ہوں۔‘‘
قاسم کو دھچکا لگا ۔ حمیرا نے اس کی بے رخی کو بھانپ لیا تھا ۔ وہ ایک بار پھر سٹپٹا گیا ۔ ایک طرف مارسی کی یاد اسے کچوکے دے رہی تھی۔ تو دوسری طرف کوئی غیبی طاقت اسے حمیرا کی طرف بھی کھینچ رہی تھی۔ اس کے دل کی ناؤ ڈولنے لگی۔ اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا:۔
’’نہیں شہزادی صاحبہ !! میں آپ کی محبت کے لائق نہیں ہوں۔ میں نے پہلے بھی ایک چراغ جلانے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن وہ سراجِ منور اب اس دل کے تاریک شبستانوں میں ماضی کی قبر پر جلتا ہوا ایک دیا بن کر ٹمٹما رہا ہے۔ آپ بہت اچھی ہیں۔ اور میں اپنے دل میں آپ کے لیے ایک انجانا سا جذبہ محسوس بھی کرتا ہوں ۔ لیکن میں آپ کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتا ۔ آپ سے پہلے ایک لڑکی میری زندگی میں آچکی ہے۔ اور وہ ہی میری پہلی محبت تھی۔‘‘
’’پہلی محبت تھی؟؟؟.....تھی سے کیا مراد ؟ وہ خوش نصیب اب کہاں ہے؟‘‘
قاسم کی آنکھوں میں عرب کی اداس شام اتر آئی ۔ اس نے دور خلاء میں گھورتے ہوئے جواب دیا:۔
’’وہ شہید ہوچکی ہے، اسلام اور محبت کے نام پر ۔ و ہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘
’’حیرت ہے ایک سپاہی ایک شہید کی شہادت پر اداس اور غمزدہ ہے۔ میں نے تو اسلام میں یہ سنا ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔ پھر آپ نے کیوں اس کی جدائی کا غم دل سے لگا لیا ۔ میں آپ سے صرف ایک درخواست کروں گی کہ جب کبھی بھی دل پر اس خوش نصیب کی جدائی کا بوجھ محسوس کریں تو مجھ بد نصیب کو اپنے غم کا تھوڑا وزن اٹھانے کا موقع ضرور دیں۔‘‘
حمیرا کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو جھلمل جھلمل کررہے تھے۔ نہ جانے قاسم کو کیا ہوا کہ اس نے بے ساختہ شہزادی حمیرا کا ہاتھ تھام لیا ۔ اور تیزی سے کہا:۔
’’نہیں حمیرا نہیں!!! آپ مجھے اتنی عزت مت دیجیے کہ میں آپ کی محبت میں گرفتار ہوجاؤں۔ اور اپنی غزالہ کی یادوں کو بھلادوں۔‘‘
حمیرا نے اپنی پرنم پلکیں اٹھائیں ۔ تو اس کی آنکھوں سے پگھلتے ہوئے کانچ کے دو قطرے اس کے رخساروں پر ایک ٹھنڈی لکیر چھوڑتے ہوئے دروازے کی دہلیز میں جذب ہوگئے۔ حمیرا ایک سسکی کے ساتھ مسکرادی۔ اس نے قاسم سے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔ اور سرجھکاتے ہوئے کہا:۔
’’آپ پھر کب آئیں گے ؟اب تو کان دروازے کی آہٹ پر لگے رہیں گے۔‘‘
قاسم نے حمیرا کے رخساروں پر بنی لکیروں میں مشعل کی چمک دیکھی اور جانے سے پہلے کہا:۔
’’میں ضرور آؤں گا۔ آپ کے لیے چچا عباس کے لیے اور سب کے لیے ........آپ بھی میرے گھر آئیے گا۔ میں نے آپ کو بتایا ہے نا.........کہ ننھے عمر اور علی ہماری بھابھی جان کی شہادت کے بعد سے بے حد اداس رہنے لگے ہیں۔ آپ آئیں گے تو ان کا دل بہل جائے گا۔‘‘
قاسم رخصت ہوکر سیدھا گھر پہنچا تو ایک مہمان اس کا منتظر تھا ۔ یہ اس کا خاص آدمی تھا ۔ جسے اس نے غزالہ کی خبر لانے کے لیے البانیہ بھیجا تھا ۔ قاسم نے اسے دیکھا تو قاسم کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ وہ غزالہ کے بارے میں کوئی بری خبر نہیں سننا چاہتا تھا ۔ اس کی تمام موہوم امیدیں اس آدمی کو دیکھتے ہی نئے سے سرے سے جاگ اٹھیں۔ لیکن جب اس نے اپنے جاسوس کی کارگزاری سنی ۔ تو اس کے دل پر پھر یاسیت کے بادل چھا گئے۔ اس کے جاسوس نے اسے بتایا کہ غزالہ کی کوئی خبر نہیں ملی۔ بلکہ سلطان مرادخان ثانی کے بھیجے ہوئے ایلچی جو سکندر بیگ سے غزالہ کو واپس مانگنے گئے تھے بھی قتل کروادیے گئے ........اسے غزالہ ملتی بھی کیسے۔ یا اس کا جاسوس غزالہ کی کوئی خبرلاتا تو کیسے۔ کیونکہ غزالہ تو سکندر بیگ کے محل میں بھی نہ تھی۔ آج قاسم کو پوری طرح یقین ہوگیا کہ اس کی غزالہ اس دنیا میں نہ رہی تھی۔وہ کچھ دن تک غزالہ کی یادوں کے سہارے جیتا رہا۔ لیکن کب تک ......با لآخر کئی دن بعد ایک بار پھر اس کے قدم اربان کے گھر کی جانب اٹھ گئے۔ اس کی زندگی کا نیا باب شروع ہونے والا تھا ۔ کئی ماہ تک اس کا آنا جانا اربان کے گھر رہا ۔ اور شہزادی حمیرا کی آمدو رفت قاسم کے گھر رہی۔ یہ ملاقاتیں بہت کم عرصے میں شدید محبت میں بدل گئیں۔ اور پھر ایک دن دونوں گھروں کی رضا مندی سے بوسنیا کی شہزادی حمیرا قاسم کی دلہن بن کر اس کے گھر آگئی۔(جاری ہے)