اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 15

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 15

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دیوداسی الکندہ کو مندر کی رقاصہ روکاش اور اس کے عاشق موگاش کو موت کی سزا سنائے جانے کا سخت دکھ تھا اور صبح و شام ان دونوں کے فرار کے منصوبوں پر غور رہتی تھی۔ وہ خود موہنجودڑو کے ایک نوجوان سے محبت کرتی تھی جو صرف اے ایک نظر دیکھنے کے لئے کبھی کبھی مندر میں عبادت کرنے آیا کرتا تھا مگر وہ دونوں ایک دوسرے کے نہ ہو سکتے تھے۔ مندر کے قوانین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کی راہ میں حائل تھے۔ اب وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی پیاری سہیلی اور حسین ترین رقاصہ روکاش محض محبت کرنے کے جرم میں اپنے محبوب کے ساتھ قتل کر دی جائے۔
وہ شب روز بے چینی سے سوچ بچار کرتی رہی۔ آخر اس نے اپنے ذہن میں ایک منصوبہ تیار کیا اور کمال جرات سے کام لیتے ہوئے خود اپنی موت سے کھیلتے ہوئے ان سپاہیوں پر ڈورے ڈالنے شروع کردیئے جو مندر کے تہہ خانے میں روکاش کی کال کوٹھری کے باہر پہرہ دیتے تھے۔ یہ دونوں سپاہی ہر وقت مسلح رہتے اور اپنے فرض کی سختی سے پابندی کرتے مگر الکندہ کے تیر نیم کش اور اس کی چنچل اداؤں کے سامنے انہوں نے بھی ہتھیار ڈال دیئے اور ایک رات انہوں نے الکندہ کو اجازت دے دی کہ وہ اپنی سہیلی روکاش سے چند لمحوں کے لئے ملاقات کر سکتی ہے۔ رقاصہ روکاش نے کال کوٹھری میں اپنی سہیلی دیوداسی الکندہ کو آتے دیکھا تو اسے خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی۔ ’’ الکندہ! تم ؟‘‘ اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 14پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ شی ! ‘‘ الکندہ نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
’’ روکاش! میری پیارے سہیلی میرے پاس وقت بہت کم ہے۔ میں تم سے صرف اتنا پوچھنے آئی ہوں کہ کیا تم اپنے محبوب کے ساتھ یہاں سے فرار ہونے کو تیار ہو؟‘‘
روکاش تو الکندہ کا منہ دیکھتے رہ گئی۔ اس نے اپنے خشک ہونٹوں ۔۔۔ پر زبان پھیر کر کہا۔’’ الکندہ! تم موت کی دہلیز پر میرا دل خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔‘‘
الکندہ نے کہا۔ ’’ روکاش! مجھے صرف اتنا بتا دو کہ کیا تم یہاں سے فرار ہونا چاہتی ہو یا نہیں؟‘‘
روکاش نے سنبھل کر جواب دیا۔ ’’ الکندہ! مگر ۔۔۔ مگر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اس تہہ خانے میں آیا ہوا کوئی انسان زندہ نہیں بچ سکا؟‘‘
الکندہ نے روکاش کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔
’’ پیاری بہن ! مجھے سب کچھ معلوم ہے۔ اس کے باوجود میں تمہیں یہاں سے فرار ہونے میں مدد دوں گی۔ میں نے ایک ترکیب سوچ رکھی ہے۔ اگر تم یہاں کہہ دو تو میں اس ترکیب پر آج ہی سے عمل شروع کر دوں گی اور اس سے پہلے کہ تمہیں دیوتا کے حضور قربان کیا جائے تم اپنے محبوب موگاش کے ساتھ کسی دوسرے ملک کی طرف سفر کر رہی ہو گی۔‘‘
روگاش نے کہا۔ ’’ الکندہ! میں اسی وقت اپنے موگاش کو لے کر اس پتھر دل شہر سے بھاگ جانا چاہتی ہوں مگر مجھے یقین نہیں آتا کہ تم اس خطرناک منصوبے میں کامیاب ہو سکو گی۔‘‘
الکندہ نے کہا ۔’’ یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ اگر میں آدھی رات کو تم سے ملاقات کرنے تمہاری کال کوٹھری میں آسکتی ہوں تو تمہیں یہاں سے نکال بھی سکتی ہوں۔ اب تم اطمینان سے یہاں بیٹھو۔ میں موگاش سے ملاقات کر کے اسے بھی اپنے منصوبے سے آگاہ کردوں گی اور پھر ایک روز تم دونوں کو اس جہنم سے نکال دوں گی۔ دیوتا تمہارے نگہبان ہوں۔‘‘
اور اس سے پہلے کے پہرے دار سپاہی الکندہ کو ملاقات ختم کرنے کے لئے کہتے وہ خود ہی کال کوٹھری سے باہر نکل آئی اور دونوں سپاہیوں کو ایک نگاہ دلبرانہ سے تکتی ہوئی وہاں سے رخصت ہوگئی۔ اب اس نے ان پہرے دار سپاہیوں پر اپنا جادو جگانا شروع کیا جو بت تراش موگاش کے تہہ خانے پر پہرہ دیتے تھے۔ ایک حسین اور پرکشش لڑکی کے لئے اس عہد کے موہنجودڑو کے کسی بھی نوجوان پر اپنا جادو چلانا کوئی مشکل امر نہیں تھا۔
الکندہ بہت جلد پہرے داروں کا دل اپنی مٹھی میں لینے میں کامیاب ہوگئی۔ اس نے ان پہرے داروں کو بھی وہی کہانی بیان کی کہ وہ موگاش سے پیار کرتی ہے اور اسے مرنے سے پہلے ایک نظر دیکھنا اور اس سے اپنی زندگی کی آخری باتیں کرنا چاہتی ہے۔ پہرے داروں نے الکندہ کو اجازت دے دی کہ وہ چند سیکنڈ کے لئے موگاش کی کال کوٹھری میں جا سکتی ہے۔ رات کے اندھیرے میں پہرے داروں کے پہلو سے اٹھ کر الکندہ کال کوٹھری کا دروازہ کھول کر اندر آگئی۔
شاہی بت تراش موگاش دیوار سے ٹیک لگائے سو رہا تھا۔ اس کی داڑھی بڑھ آئی تھی اور مردانہ حسن و جمال ماند پڑنے لگا تھا۔ طاق میں موم بتی روشن تھی جس کی روشنی نے تہہ خانے کی کال کوٹھری کی فضا کو اور زیادہ آسیبی بنا دیا تھا۔ الکندنے موگاش کے شانے پر آہستہ سے ہاتھ رکھا تو اس نے آنکھیں کھول دیں اس کی آنکھوں میں موت کے خوف کی بجائے لازوال محبت کی چمک تھی؟ مگر ۔۔۔ مگر باہر تو کڑا پہرہ ہے۔‘‘
اس نے مسکرا کر موگاش کو اپنی ساری سکیم سمجھائی اور اسے بتایا کہ وہ روکاش سے مل آئی ہے او روہ بھی اس کے ساتھ فرار ہونے پر تیار ہے۔ پہلے نوموگاش کو یقین نہ آیا کہ الکندہ انہیں اس جگہ سے فرار کر سکتی ہے جہاں قدم قدم پر پہرہ لگا ہے اور کوئی مکھی بھی اڑ کر باہر نہیں جا سکتی لیکن پھر اس نے سوچا کہ جو لڑکی شاہی گارڈ کے معمتد ترین پہرے داروں کو اُلو بنا سکتی ہے وہ انہیں موت کے منہ سے فرار ہونے میں مدد بھی دے سکتی ہے۔ ان نے الکندہ کے فرار کے منصوبے کو غور سے سنا۔ اس میں خطرہ بہت تھا مگر وہ دونوں مندر کی چار دیواری سے باہر جا سکتے تھے۔ موگاش کو یہی چاہیے تھا۔ ایک بار وہ روکاش کو ساتھ لے کر اس ستم آفریں مندر کی سنگین اورمنحوس چار دیواری سے باہر نکل جائے۔ پھر جو ہوگا وہ دیکھ لے گا۔ موگاش کو سب کچھ سمجھا کر الکندہ واپس چلی گئی۔
فرار کی رات موہنجودڑو کے آسمان کو سیاہ بادلوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ ان کالی گھٹاؤں نے رات کی سیاہی کو تاریک بنا دیا تھا۔ بارش نہیں ہو رہی تھی۔ مگر بجلی رہ رہ کر چمک رہی تھی۔ رات کا پہلا پہر گزرا تو مندر میں پوجا کی رسم شروع ہوگئی۔ روکاش کی جگہ اب الکندہ نے مذہبی رقص کیا اور قائم مقام کاہن اعظم سے گلاب کے پھولوں اور زعفران کا تبرک وصول کیا۔ اذیت پسند کاہن بڑا خوش تھا کیوں کہ مورگاش اور روکاش کی قربانی کا دن بہت قریب آگیاتھا۔ ان نے الکندہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’ الکندہ جس روز تمہاری پیاری سہیلی اور اس کے عاشق کے سینے چیرے جائیں گے اور ان کے دل گرم لوہے کی سلاخوں میں پروئے جائیں گے اس روز بھی تم ہی رقص کرو گی۔کیا تم خوش ہوگی؟‘‘
الکندہ نے دل پر پتھر رکھ کر کہا۔ ’’ ہاں کاہن اعظم ! میں دیوی دیوتا کی خوشیوں میں شریک ہوں۔‘‘
سنگ دل کاہن اعظم مکروہ ہنسی ہنسنے لگا اور الکندہ اس کے آگے تعظیم بجا لا کر گھنگرؤں کی چھن چھن میں نیم روشن ستونوں کی طرف چلی گئی۔ الکندہ آدھی رات گزر جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اپنی کوٹھری میں بستر پرلیٹی بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی۔ شمع دان کی روشنی دیوار کے طاق میں رکھی ریت گھڑی پر پڑ رہی تھی۔ الکندہ کی نگاہیں بار بار اس گھڑی پر جاتیں۔ جب آدھی رات گذر گئی تو الکندہ ایک چٹان جیسا عزم لے کر بستر سے اٹھی۔ اس نے اپنے تخت کے نیچے سے لکڑی کی صندوقچی نکال کر کھولی اور اس میں سے ایک چھوٹی سی چمڑے کی شیشی نکالی جس میں زہریلا سفوف تھا۔ اس شیشی کو اس نے اپنے کپڑوں میں چھپا کر سیاہ لبادہ اوڑھا یااور جام اور صراحی ساتھ لئے اور نیم تاریک راہ داریوں میں سے گذرتی اس تہہ خانے کے پہرے داروں کے پاس آئی جو روکاش کے تہہ خانے کے باہر پہرہ دے رہے تھے۔
آج الکندہ نے ان سے اپنی ملاقات پکی کر رکھی تھی۔ اندھیرے میں ہی جام و سبو کا دور شروع ہوگیا۔۔۔ اس نے کامل ہوشیاری سے زہریلی سفوف شراب میں حل کر کے دونوں سپاہیوں کو پلا دیا۔ جتنا زہر ان کے جسموں میں داخل ہوا وہ ان کو موت کے سپرد کرنے کے لئے کافی تھا۔ دونوں سپاہی جہاں بیٹھے تھے وہیں کے وہیں لڑھک گئے۔ زہر اتناسریع الاثر تھا کہ اس نے ان کی ہڈیوں کو گلانا شروع کردیا۔ الکندہ وہاں سے اٹھ کر اگلی راہ داری میں موگاش کے تہہ خانے کے باہر پہرہ دینے والے سپاہیوں کے پاس آگئی۔ ان کو بھی اس نے اسی رات کا وقت دے رکھا تھا اور ان سپاہیوں کا بھی وہی انجام ہوا جو پہلے سپاہیوں کا ہوا تھا۔ الکندہ نے باری باری باری دونوں تہہ خانوں کی کال کوٹھریوں کے دروازے کھول کر روکاش اور موگاش کو باہر نکالا اور سرگوشی کی۔
’’ خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے چلتے آؤ۔ تمہارے قدموں کی چاپ بھی سنائی نہ دے۔‘‘
روکاش کے ہونٹ خوف کے مارے خشک ہو رہے تھے۔ موگاش نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا اور ایک مرے ہوئے سپاہی کے نیام سے تلوار کھینچ کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لی۔ الکندہ ایک قدم آگے آگے چل رہی تھی۔ راہ داریاں بالکل تاریک تھیں جن میں سے گذر کر وہ ایک جگہ سے سیڑھیاں اترنے لگے۔ آخری سیڑھی پر ہلکی ہلکی روشنی پڑ رہی تھی۔ اس کے آگے لوہے کا ایک مضبوط دروازہ تھا جو ایک ایسی خفیہ سرنگ میں کھلتا تھا جو مندر کے تہہ خانوں سے نکل کر شہر کے نیچے سے ہوتی ہوئی شہر کی فصیل سے باہر کھائی میں نکل جاتی تھی۔ الکندہ نے آخری سیڑھی کی روشنی کو دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے روکاش اور موگاش کو وہیں روک لیا پھر وہ بے پاؤں شاہی بت تراش موگاش کے بالکل قریب آئی اور اس کے کان میں بغیر آواز لگائے سرگوشی کی۔
’’ یہ آخری دروازہ ہے ۔ اس کے آگے آزادی ہے۔ ایک آخری سپاہی اس دروازے پر پہرہ دے رہا ہے۔ کیا تم اسے ہلاک کر سکتے ہو؟‘‘
موگاش نے کوئی جواب نہ دیا اور سیڑھی کی دیوار کے ساتھ لگ کر ایک ایک سیڑھی اترنے لگا۔ سپاہی کو آہٹ ہو تو اس نے چلا کر کہا’’ کون ہے؟‘‘ موگاش نے جواب دینے کی بجائے سیڑھیوں پر سے اس پر چھلانگ لگا دی۔ اس کی تلوار کا رخ پہرے دار کی طرف تھا یہ تلوار سیدھی اس کے سینے میں اتر گئی اور وہ ایک گھٹی ہوئی چیخ کے ساتھ دروازے کے پاس گر کر ڈھیر ہوگیا۔ الکندی اور روکاش لپک کر نیچے آگئیں۔ الکندہ نے تڑپتے ہوئے پہرے دار سپاہی کے تھیلے سے دروازے کی چابی نکالی اور دروازہ کھول دیا۔ پھر بولی۔
’’ میں نے اپنی جان پر کھیل کر تم دونوں کے لئے آزادی کا در کھول دیا ہے۔ ایک سہیلی اور دوست کی حیثیت سے میرا جو فرض بنتا تھا وہ میں نے پورا کر دیا۔ پیچھے جو ہوگامیں سنبھال لوں گی۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ محبت کرنے والے دل آج سے محبت کی کشمکش فضاؤں میں پرواز کرنے کے لئے آزاد ہو رہے ہیں۔ محبت کی دیوتا تمہاری نگہبانی کریں۔ ‘‘
رقاصہ روکاش کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے اپنی جانثار سہیلی کو اپنے سینے سے لپٹا لیا اور کہا۔ ’’ الکندہ! اگر گمنام محبت کرنے والوں کی کوئی تاری لکھی گئی تو اس کا پہلا ؟؟؟ تمہارے کام سے شروع ہوگا۔‘‘ بت تراش موگاش نے الکندہ کا ہاتھ چوم لیا اور کہا ۔ ‘‘ میری بہن ! آج تم نے محبت کی دیوتاؤں کا دل جیت لیا ہے۔ ‘‘ الکندہ نے سپاہی کی تڑپتی ہوئی لاش کے قریب جلتی شمع کو اٹھا کر موگاش کے ہاتھ میں دے کرکہا۔ ’’ یہ وقت باتوں میں ضائع کرنے کا نہیں ہے۔ جتنی جلد ہو سکے یہاں سے نکل جاؤ۔ یہ سرنگ تم دونوں محبت کرنے والوں کو شہر کی فصیل کے باہر لے جائے گی۔ صبح ہونے سے پہلے پہلے اس ظلم سے جتنا دور جا سکو چلے جانا۔ دیوتا تمہارے حفاظت کریں۔‘‘ اتنا کہہ کر الکندہ تیزی سے سڑھیاں چڑھ کر راہ داری کے اندھیروں میں غائب ہوگئی۔(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 16 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں