نظام کی دیوار پر تبدیلی کا وال پیپر
عمران خان 18 اگست کو وزیرِ اعظم پاکستان کا حلف اٹھائیں گے اور اس طرح انتقال اقتدار کا اہم مرحلہ بخیر و خوبی سر انجام پہنچے گا۔
پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے لے کر عمران خان تک ایک طویل داستان ہے ۔ بات سمجھنے اور سمجھانے کی یہ ہے کہ اس ملک پر آمرانہ۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سوچ کی مختلف ادوار میں حکمرانی رہی ہے۔ آمریت سے مراد بظاہر فوج کی حکمرانی لی جاتی ہے مگر یہ صلاحیت جمہوریت پسندوں میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہے بس کرسی اقتدار تک پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کسی کے اندر ضیاء الحق کی روح سرایت کر جاتی ہے تو کوئی ایوب خان بننے لگ جاتا ہے۔ کچھ جمہوریت پسند حکمرانوں کا رویہ جاگیردارانہ رہا روٹی۔ کپڑا۔ مکان کا نعرہ لگتا رہا جائیدادیں بڑھتی رہیں سندھ سسکتا رہا ووٹ دیتا رہا کیونکہ بھٹو زندہ تھا۔
پھر ایک طویل دور سرمایہ داروں کا دیکھنا پڑا ۔ انہوں نے جمہوریت کو لوہے کی بھٹی سمجھ لیا تھا عوام کو جلا جلا کر کندن بنانے کے سپنے دکھاتے رہے، ترقیاتی منصوبوں کے نادیدہ جال بچھاتے رہے۔ جو صرف اشتہارات میں نظر آتے رہے۔ سرمایہ دار تھے بچے بھی بچپن سے کاروباری نکلے والدین کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ چھ سات سو ارب کی جائیداد لندن میں بنا لی اور والد محترم منی ٹریل دینے کے چکر میں نا اہل ہوئے اور سیاسی شہید بننے کے چکر میں عازمِ اڈیالہ ہوئے۔
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔ اب کی بار عوام کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے اس لیئے شہر اقتدار کی دیوار پر تبدیلی کا وال پیپر لگا دیا ہے۔
وال پیپر کی مضبوطی اسکی دیکھ بھال اس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ وہ کتنی مدت تک کار آمد رہے گا۔اس دیوار پر مختلف اوقات میں امریکن۔ چائینز۔ سعودی۔ اور ترکی کے وال پیپر لگتے رہے ہیں ۔
پاکستان میں اوّل تو وال پیپر بنائے نہیں جاتے اور جو بنتے ہیں انکا حال جیپ ڈیزائن اور ڈولفن ڈیزائن والے وال پیپر کی طرح ہوجاتا ہے جو بظاہر تو خوبصورت نظر آتے ہیں مگر ان میں چپکنے کی جڑنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیئے دیوار اقتدار انکا بوجھ اٹھا نہیں پاتی اور وہ خستہ حال ہو کر گر پڑتے ھیں۔
تبدیلی کا وال پیپر لگنے کو ہے مگر اسے ابھی سے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ شہر اقتدار کی دیوار پر پہلے سے جو وال پیپر موجود تھے وہ مکمّل طور پر نہیں اترے ہیں ابھی انکی باقیات موجود ہیں ۔ وال پیپر لگانے والوں نے تبدیلی کا وال پیپر مختلف کیمیکل ملا کر جوڑ تو دیا ہے مگر اس میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پیوند کاری بھی کی گئی ہے، کہیں کہیں رفو گری سے بھی کام چلایا گیا ہے۔ یہ دور سے تو بہت خوشنما لگتا ہے مگر قریب سے دیکھنے پر بعض مقامات پر پیوند کاری نمایاں نظر آتی ہے جس سے وال پیپر کی کمزوری کا پتہ چلتا ہے۔۔
تبدیلی کا وال پیپر روز نئی تبدیلی مانگتا ہے ۔اس پر روز نئے رنگ بکھیرنے ہونگے نئے منظر دکھانے ہونگے تو سلسلہ چلتا رہے گا ۔دیکھنے والوں کا رش بھی لگا رہے گا وال پیپر بھی قائم و دائم رہے گا۔ جس طرح کھڑا پانی بھی تعفن زدہ ہوجاتا ہے اسی طرح ایک جیسا منظر ایک جیسی باتیں ایک جیسی تقریریں بھی یکسانیت کا باعث بن جاتی ہیں اور اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہیں۔ معاملات میں جب تک تحرک قائم رہتا ہے تحریک بھی توانا رہتی ہے ۔تبدیلی سرکار کو اقتدار کے وال پیپر پر جگہ ضرور مل رہی ہے مگر اس پر کب تک موجود رہنا ہے اسکا فیصلہ انصاف کے ساتھ انصاف والوں نے خود کرنا ہے۔
یہ دیوار زمین پر قائم ہے۔ اسکے معاملات بھی زمین والوں نے خود سنبھالنے ہیں ۔اگر یہ کسی ٹوٹ پھوٹ کا یا آسمانی آفت کا شکار ہوجائے تو اسکا الزام خلائی مخلوق پر لگانے سے مسائل کا حل نہیں نکلے گا ۔دیواریں حفاظت کے لیئے قائم کی جاتی ہیں ۔ جن لوگوں کا تحفظ کرتی ہیں وہ اسکی سائے تلے مراعات حاصل کرتے ہیں دیوار کی دیکھ بھال کی ذمّہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے ۔یہ کیا بات ہوئی کہ پانچ سال میں جو لوگ نیا وال پیپر بدلنے میں مدد کرتے ہیں ،لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہیں، سارا الزام ان پر لگا دیا جائے کہ انہوں نے دیوار کو مطلوبہ عزت نہیں دی ۔وال پیپر ذمہ داری سے نہیں لگایا جسکی وجہ سے پیوند کاری ہوگئی ہے۔
وال پیپر کے پیچھے کی دیوار میں سے ہر ایک اینٹ کو یہ زعم ہوتا ہے کہ دیوار کا وجود اسکی بدولت قائم ہے اس لیئے اگر وہ ذرا بھی حرکت کرے گی تو دیوار زمین بوس ہوجائے گی۔ اینٹوں کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو سن کر بنیاد میں موجود پتھر بھی ہنستے رہتے ہیں ، سب کو تکتے رہتے ہیں ،وال پیپر کے لیئے نئے منظر نئے نئے کیمیکل ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ کبھی تو کسی وال پیپر پر بنیاد کے پتھر اور دیوار کی اینٹیں ایک پیج پر آجائیں گی ۔کبھی تو یہ منظر سب دیکھیں گے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔