متحدہ عرب امارات،اسرائیل امن معاہدہ،فلسطین نے یو اے ای سے سفیر واپس بلا لیا،ترکی کا بھی عندیہ،نیتن یاہو فلسطینی علاقے ضم نہ کرنے کی یقین دہانی سے مکر گئے
تل ابیب، واشنگٹن، انقرہ (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے متحدہ عرب امارات سے باہمی تعلقات کا معاہدہ طے پانے کے باوجود مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کرنے کا منصوبہ ختم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے متحدہ عرب امارات سے معاہدے کے ایک روز بعد ہی اپنے بیان میں مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے سے متعلق اہم بیان دیا۔انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات سے باہمی تعلقات کے معاہدے کے تحت وہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے میں تاخیر پر رضا مند ہیں لیکن یہ منصوبہ اب بھی ان کی ٹیبل پر موجود ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ انہوں نے صرف اس منصوبے میں تاخیر پر رضا مندی ظاہر کی تھی لیکن وہ اپنے حقوق اور اپنے زمین کے لیے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی خودمختاری کو بڑھانے کے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے ڈپٹی سپریم کمانڈر شہزادہ محمد بن زاید النہیان کی جانب سے ٹوئٹر پر بیان جاری کیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ یو اے ای نے اسرائیل کے مغربی کنارے کے علاقوں کو ضم کرنے کے منصوبے کا جائزہ لیا۔انہوں نے کہا کہ فلسطینی علاقوں کو مزید اسرائیل میں ضم کرنے سے روکنے کے لیے ایک معاہدہ کیا گیا ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر وائٹ ہاؤس جیرڈ کشنر نے متحدہ عرب امارات کے بعد ایک اور عرب ملک کے اسرائیل سے تعلقات قائم ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔جیرڈ کشنر نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل اور امارات کے درمیان برف پگھلی ہے، مزید ممالک ایسا کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ قوی امکان ہے 3 ماہ میں ایک اور عرب ملک اسرائیل سے تعلقات قائم کر لے، یقین ہے دیگر ممالک بھی اسی قطار میں ہیں۔اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق صیہونی ریاست سے تعلقات قائم کرنے والا اگلا ملک بحرین ہو گا۔امریکا کے مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ اوبرائن کا اس حوالے سے کہنا ہے حیران کن نہیں ہو گا، اگر اس معاملے پر صدر ٹرمپ کو نوبیل امن ایوارڈ دیا جائے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے بیان میں امید ظاہر کی ہے کہ مزید عرب اور مسلم ممالک امارات کی پیروی کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ دوبارہ الیکشن جیتا تو ایران سے 30روز میں نئی ڈیل کر لیں گے۔دریں اثنا اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیا ن معاہدے پر کئی اسلامی ممالک کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آرہا ہے فلسطین نے امارات سے اپنا سفیر احتجاجاً واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے پر اپنے ردعمل میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ الاقصیٰ، مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطینی کاز کو دھوکا دیا گیا۔ متحدہ عرب امارات حقیر معاہدے سے فوری پیچھے ہٹے۔ امارات کو حق نہیں پہنچتا کہ فلسطینی عوام کی طرف سے بات کرے، کسی کو فلسطینیوں کے امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔فلسطینی اتھارٹی نے عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بلا کر ڈیل یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کیساتھ صہیونیوں کا روّیہ ناقابل قبول ہے۔ عرب امارات نے اپنے مفاد کے لیے فلسطینیوں کو دھوکہ دیا۔ا یو اے ای کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات معطل کر سکتے ہیں۔غیر ترک صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان ہونیوالی ڈیل کے بعد یہ بھی ہوسکتا ہے ہم ابوظہبی سے اپنا سفیر واپس بلا لیں۔
فلسطین معاہدہ
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے پر کہا ہے کہ معاہدہ کے حوالے سے علم ہے پاکستان ہمیشہ سے پختہ عہد پر کاربند رہا ہے کہ فلسطین کے عوام کے تمام جائز حقوق انہیں دئیے جائیں جس میں استصواب رائے کا حق بھی شامل ہے۔ مشرق وسطی میں امن و استحکام بھی پاکستان کی کلیدی ترجیح ہے۔ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ نے معاہدہ پر پاکستان کے ردعمل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے پاکستان نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں تعلقات کی مکمل بحالی کے معاہدے کا مشترکہ بیان دیکھا ہے۔ یہ دور رس مضمرات کی حامل پیش رفت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے پختہ عہد پر کاربند رہا ہے کہ فلسطین کے عوام کے تمام جائز حقوق انہیں دئیے جائیں جس میں استصواب رائے کا حق بھی شامل ہے۔ مشرق وسطی میں امن و استحکام بھی پاکستان کی کلیدی ترجیح ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ منصفانہ، جامع و پائیدارا من کے لئے پاکستان نے اقوام متحدہ اور ’او آئی سی‘ کی متعلقہ قراردادوں اور عالمی قانون کے مطابق ہمیشہ دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔زاہد حفیظ کا کہنا تھا کہ پاکستان اس تجزیہ سے رہنمائی حاصل کرے گاکہ کیسے فلسطینیوں کے حقوق اور امنگوں کو مقدم رکھا جاتا ہے اور کس طرح سے علاقائی امن، سلامتی اور استحکام کی پاسداری کی جاتی ہے۔
پاکستان رد عمل