جکارتہ میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کا الزام ، نیب نے بالآخر ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دیدی
اسلام آباد (ویب ڈیسک) قومی احتساب بیورو (نیب) نے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت غیر قانونی طور پر فروخت کرنے کے الزام میں دفتر خارجہ کے چند حکام سمیت 2001 سے 2002 تک سفیر رہنے والے میجر جنرل (ر) سید مصطفیٰ انور حسین کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی ، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے قومی خزانے کو مبینہ طور پر 1.32 ملین ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق ایک سابق سینئر سفارتکار نے بتایا کہ میجر جنرل (ر) سید مصطفی انور حسین نے مبینہ طور پر جکارتہ میں موجود حکومت پاکستان کی عمارت صرف 3.19 ملین ڈالرز میں فروخت کی اور عمارت کی فروخت میں قوانین کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا، 2002 میں چانسری کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن سید مشتاق حیدر رضوی نے یہ معاملہ میڈیا تک پہنچایا تو انہیں او ایس ڈی کرکے پاکستان واپس بھجوا دیا گیا۔ جکارتہ میں چانسری کی عمارت کی فروخت میں دفتر خارجہ کے حکام کو بھی نظر انداز کیا گیا اور دفتر خارجہ کی اجازت کے بغیر سفیر نے اپنے تیئں ہی عمارت فروخت کر دی اور ڈیل سے ذاتی فائدہ اٹھایا۔معاملہ میڈیا پر آنے کے بعد اس وقت ملک کے سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی، جس نے اپنی تحقیقات میں بتایا کہ جکارتہ میں سفارت خانے کی عمارت اور رہائش گاہ بغیر کسی پبلک اشتہار کے فروخت کی گئی، لیکن سفیر کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی بلکہ معاملہ میڈیا پر لانے والے دفتر خارجہ کے افسر کو او ایس ڈی کردیا گیا اور انہیں دوبارہ کسی پوسٹ پر تعینات بھی نہیں کیا گیا، جو بعدازاں ہارٹ اٹیک کے باعث 2010 میں انتقال کرگئے۔
واضح رہے کہ چانسری کی عمارت اس وقت کے انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کی جانب سے حکومت پاکستان کو تحفے میں دی گئی تھی۔ 2011 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ معاملہ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی میں اٹھایا گیا اور نئی کمیٹی دفتر خارجہ کے سینیئر افسر ڈی جی ایاز حسین کی سربراہی میں بنائی گئی، جنہوں نے سفارت خانے کی عمارت کی فروخت میں بدعنوانی کی تصدیق کی۔