محکمہ داخلہ میں کرائم انیلیسزیونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اطلاعات کے مطابق وزیر اعلی پنجاب مریم نوازاور صوبائی محکمہ داخلہ کے ساتھ ہونیوالی میٹنگ میں یہ طے پایا ہے کہ وہ تھانہ اور سرکل کی سطح پرڈیٹااکٹھا کر کے ہرہفتے انہیں رپورٹ بھجوائیں گے۔یہ یونٹ ایڈیشنل سیکرٹری انٹرنل سیکورٹی کی سربراہی میں کام کرے گا۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے ساتھ ہونیوالی میٹنگ میں پنجاب حکومت نے آئی جی آفس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ محکمہ داخلہ ہر ہفتے وزیر اعلی پنجاب کو پولیس کی رپورٹ پیش کرنے کا پابند ہو گا۔ وزیر اعلی پنجاب ان رپورٹس کی روشنی میں آئی جی پولیس کی بجائے محکمہ داخلہ کے ڈیٹا پرہدایات دیں گی۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ پنجاب پولیس جو موجودہ حکومت کی اصل طاقت ہے عوام تو اسے پہلے ہی سیاست ذدہ قرار دے رہی ہے مگر اب یہ آہستہ آہستہ حکومت کی حمایت سے بھی محروم ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔پہلے وزیر اعلی پنجاب نے کمانڈر پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے محکمے میں ”کی پرفارمنس انڈیکیٹر“ کارروائیوں کا سلسہ شروع کروایا تھا۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نوازانے ڈی پی او میانوالی،سپرنٹنڈنٹ جیل میانوالی سمیت چارسپر نٹنڈنٹس جیل کو فوری عہدوں سے ہٹانے سمیت محکمانہ کارروائی کا حکم بھی ”کی پرفارمنس انڈیکیٹر“کی روشنی میں جاری کیا۔گزشتہ ماہ وزیر اعلیٰ مریم نوازنے صوبے بھر کے پولیس افسروں سے ایک ملاقات کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس میں پولیس افسروں کی کارکردگی جانچنے کے لئے ”کی پرفارمنس انڈیکیٹرز“ مقرر کر نے کا اعلان کیا تھا۔جس کے مطابق عوامی شکایات، ایف آئی آر، فرد جرم، نوگو ایریا، سرچ آپریشنزاور غیر معمولی کارکردگی دکھانے پر پولیس افسران کو اضافی نمبرز دینے کا کہا گیا جبکہ ”کی پرفارمنس انڈیکیٹرز“ سے ٹاسک پورا نہ ہونے پر پولیس افسروں کے نمبر بھی کاٹے جانے کا حکم دیا گیا۔ مریم نواز نے پولیس افسروں توایس ایچ اوز اور دیگر افسروں کی کڑی نگرانی کا ٹاسک دے دیامگر ان کے خلاف کاروائی پولیس افسران کی مرضی سے نہیں بلکہ ”کی پرفارمنس انڈیکیٹر“ کے مطابق کی جاری ہیں۔وزیر اعلی پنجاب مریم نوازنے پولیس کو مذید دبانے کے لیے اب کرائم انیلیسزیونٹ قائم کردیا ہے ان اقدامات سے پولیس مذید بددلی کا شکارہوگی۔تیسرا یہ کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نوازنے تمام افسروں سے تبادلوں کا اختیار چھین رکھا ہے کوئی بھی آفیسرزحتی کہ آئی جی پولیس بھی کسی کو اپنی مرضی سے تبدیل یا تعینات کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ محکمے کے اندر خود احتسابی کا نظام موجودہے اور اس کے ذریعے ہرسال درجنوں نہیں سیکروں اہلکاروں کو جن میں افسران بھی شامل ہوتے ہیں سزائیں دی جارہی ہیں لیکن وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کو پولیس کے اس خود احتسابی نظام پر یقین نہیں ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کا صوبہ بھر کے افسران سے تبادلوں کا اختیار واپس لینا بھی قرین انصاف نہیں ہے۔پولیس افسران پر نگرانی کے لیے پہلے ہی ادارہ جاتی نظام اگر موجود ہو اس نظام میں بہتری لانے کی بات تو کی جاسکتی ہے اگر کہیں خرابیاں پائی جاتی ہیں ان کا خاتمہ کردیا جائے یہ تو درست ہے مگرمحکمہ داخلہ کوکرائم انیلیسز کی ذمہ داری سمیت جتنے بھی اقدامات کیے جارے ہیں یہ پولیس کے معاملات میں کھلی مداخلت ہے بیوروکریسی نے تو پہلے ہی اس ملک کا نظام تباہ کرکے رکھ دیا ہے وہ پولیس کو بھی اپنے تابع لانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ایک عرصہ سے جنگ جاری ہے۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے پولیس افسران سے تبادلوں کا اختیار واپس لینے سمیت دیگر اقدامات کرکے بیوروکریسی کو خوش کیا ہے جو کہ پولیس کو قانون میں حاصل اختیارات پر کھلم کھلا ڈاکہ ہے۔حکومت کاکام ہے پولیس کی سربلندی میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ پنجاب پولیس پر سیاست ذدہ ہونے کے الذام کا خاتمہ کیا جاسکے۔ پھرایسے اقدامات کیے جائیں جس سے حکومت کی اپنی ساکھ بہتر ہو اور ادارے اس کی گڈ گورننس کا باعث بن سکیں۔خبر ہے کہ طالب علموں کو لوٹنے والا خواجہ سرا گروپ کا سرغنہ گرفتار کر لیا گیا ہے اب لاہور میں جس طرح خواجہ سراؤں نے اپنا روایتی کام چھوڑ کر روزی کمانے کے غیر روایتی طریقے اپنا لیے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ خاص طور پر بڑی سڑکوں کے کنارے جن میں پوش علاقے بھی شامل ہیں سرشام یہ رنگ برنگے لباس پہنے شوخ میک اپ کیے آنے جانے والوں کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں۔ مانگنے کی حد تو بات قابلِ برداشت ہے مگر اب جس طرح نوجوانوں کو یہ منشیات اور دیگر غلط کاموں کی طرف راغب کرتے ہیں وہ کسی صورت معاشرے کے لیے اچھا نہیں۔ اسی طرح خواجہ سرا کے روپ میں چھپے مردانہ خواجہ سرا تو اب کھلم کھلا لوٹ مار بھی کرنے لگے ہیں۔ ان کا خاص نشانہ یونیورسٹی کینال روڈ اوردیگرتعلیمی اداروں کے اطراف کے علاقے ہیں۔ جہاں طلبہ کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہ خواجہ سرا ان طالب علموں کو ڈرا دھمکا کر خوفزدہ کر کے ناصرف ان کی جیب خالی کرتے ہیں بلکہ ان کے موبائل بھی لے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں پولیس والے اور ڈولفن والے بھی گشت کرتے رہتے ہیں مگر شاید وہ اس طرح سڑک کے کنارے کھڑے لوگوں کو بات کرنا دیکھ کر ان کا ذاتی معاملہ سمجھ کر وہاں مداخلت نہیں کرتے۔ یوں واردات ہو جاتی ہے جو روکی بھی جا سکتی تھی مگر کیا کریں جو ہونا ہے ہو کر رہتا ہے۔ تین روز قبل ڈولفن اہلکاروں نے نہر کے کنارے ایک ایسے ہی خواجہ سرا گروہ کے سرغنہ کو دھر لیا اس کے باقی ساتھی بھاگ گئے۔ یہ گروہ طلبہ کو لوٹتا تھا۔اگر اسے آرگنائز کرائم ڈ یونٹ کے سربراہ ڈی آئی جی عمران کشور کے حوالے کردیا جائے تو امید ہے اس گرو کی باقی چیلیاں بھی جلد قابو میں آجائیں گی۔ پولیس کی نسبت آرگنائزڈ کرائم یونٹ اہلکاروں کی تربیت ذرا سخت ہوتی ہے۔اس لیے اب ان کی چوکی پر حملے کی یا ان پرہاتھ اٹھانے کی زحمت یہ خواجہ سرا نہیں کریں گے۔ اس طرح کی اگر کوئی حرکت کی تو اس کا انجام شاید اچھانہ ہو گا اور شایدبعد میں تالیاں بجاتے ٹھمکے لگاتے انہیں احتجاج کا موقع بھی نہ ملے گا۔