چکوال میں سیاسی سرگرمیاں

چکوال میں سیاسی سرگرمیاں
چکوال میں سیاسی سرگرمیاں

  

سابق امریکی سپیکر او نیل کا کہنا ہے”سیاست مقامی معاملات سے تعلق رکھتی ہے“....چنانچہ تمام اعلیٰ سطح پر ہونے والی خفیہ کارروائیاں، عالمی دہشت گردی، بین الاقوامی معاملات ، عقربی مظاہر فطرت، جیساکہ نیاگرا آبشار وغیر ہ کو بھول جائیں، کیونکہ حقیقی سیاست آفاقی تقاضوں کی دامن گیر نہیںہوتی، لہٰذا چکوال کی گلیوں اور بازاروں میں خاصی گہما گہمی دکھائی دیتی ہے اور یہاں لگائی جانے والی سیاسی قلابازیاں اولمپک گولڈ میڈلسٹ کو چیلنج کررہی ہیں۔

 اِس علاقے کے تین ناظم اٹک کے میجر طارق صادق، جہلم کے فرخ الطاف اور چکوال سے میرے عزیز دوست غلام عباس جنرل پرویز مشرف ، جب وہ تمام سفید و سیاہ کا بلاشرکت ِ غیرے مالک تھا،کے پسندیدہ تھے۔ اُن میں غلام عباس کو یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ گجرات کے چودھری پرویز الٰہی کا بھی دل پسند تھا۔ چودھری صاحب کے ایک قریبی دوست حافظ عمار یاسر ، جن کا تعلق تلاگنگ سے ہے، کی کرم نوازی کی وجہ سے غلام عباس کو عہدے کے لئے زیادہ سرگرمی نہیں دکھانا پڑی ، چنانچہ قسمت اُ ن پر مہربانی کرتی رہی اور غلام عباس بھی اہم افراد کی قربت حاصل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ چنانچہ ترقیاتی فنڈز یا جو بھی اُن کو چاہیے ہوتا تھا، اس کی فراہمی میں فراوانی دیکھنے میں آئی۔ چونکہ سیاست میں کوئی چیز بھی حرف ِ آخر نہیںہوتی اور نہ ہی اس دنیا سے معجزے ناپید ہوئے ہیں، اِس لئے اب مسٹر عباس مسلم لیگ (ن) میں جانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔

اُن کو مائل بہ پرواز کرنے میں اِس علاقے کے لئے قدرت کی عطاکردہ خوبصورت پہاڑیاں کاٹ کاٹ کر افغانستان اور انڈیا کی ضروریات پوری کرنے والے سیمنٹ مافیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اگر چہ اعلیٰ سطح پر اِن سیمنٹ فیکٹریوں کو یہاں لگانے کی اجازت دینے میں صدر پرویز مشرف کا ہاتھ تھاتو بھی مقامی سطح پر اِس سے غلام عباس کو ہی فائدہ ہوا۔اب اِسی مافیا نے غلام عباس کو تحریک دی ہے کہ وہ اِس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں، جس کا ببانگ دھل نعرہ ہے”ہم بدلیںگے پاکستان“....اگریہی رویہ انقلابی تبدیلی ہے تو پھر سکوت و جمود کے تو وہ معانی ہونے چاہئیں جو عام فہم ہونے کے باوجود نا قابل ِ اشاعت قرار دئیے جاتے ہیں۔ ویسے ابھی باضابطہ طور پر معاملہ طے نہیںپایا ہے، مگر عباس کے حامی متحرک ہیں۔ اگرچہ یہ افراد گزشتہ ستائیس برس(انیس سو پچاسی سے لے کر دوہزار بارہ )سے مسلم لیگ (ن) کے مخالفین رہے ہیں، مگر اب اُن کو اِس میں شامل ہونے میںکوئی عار نہیںہے۔

اِس ضمن میں مسٹر عباس کی مہارت دیدنی ہے۔ جب دوہزار میں پرویز مشرف نے ریفرنڈم کا انعقاد کیا تو سابقہ گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول اپنے باس کی حمایت حاصل کرنے چکوال آئے تو سٹیج پر آکر عباس نے نہایت جوش کے عالم میں جو تقریر کی، اُس کا لب ِ لباب یہ تھا کہ اُس نے زندگی میں بہت سے رہنما دیکھے ہیں، مگر پرویز مشرف کی سی خوبیاں کسی میں نہیں پائیں۔ دوہزار ایک میں وہ جنرل مجید ملک کے تعاون سے ضلعی ناظم بن گیا۔ دوہزار پانچ میں جنرل مجید ملک، جو پرویز مشرف کیمپ میں شامل ہو چکے تھے، خود ناظم بننا چاہتے تھے، مگر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے عباس کی حمایت کردی۔

تاہم جب تیس اکتوبر کو لاہور کے جلسے کے بعد عمران خان کی ویگن میں سواریاں بھرنا شروع ہو گئیں تو عباس نے وقت گنوائے بغیر تبدیلی کے چمپئن خان صاحب کو چکوال مدعو کیا اور تحریک انصاف کی حمایت کا اصولی فیصلہ کیا، تاہم ایک سال کے اندر اندر اُن پر ایک اور اُصول پسندی منکشف ہوئی اور اب وہ پی ایم ایل (ن) کے لئے دیدو دل فرش راہ کئے ہوئے ہیں۔ سچ ہے کہ سچی لگن رکھنے والاانسان کبھی بھی ناکام نہیں رہتا۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق غلام عباس کا چودھری نثار علی خان سے رابطہ ہے(تاہم چودھری نثار کے پرسنل سیکرٹری نے اِس خبر کی تردید کی ہے)۔ چودھری صاحب کا بیرونی دنیا کے ساتھ رابطہ صرف اپنے پی اے کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔لگتا ہے کہ فرشتے بھی چودھری صاحب سے سوال وجواب اُن کے پی اے کے ذریعے ہی کریںگے، تاہم غلام عباس کی اِس تازہ ترین قلابازی میں اُن کو امید کی کرن پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ہی دکھائی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ”قابل ِ انتخاب “ افراد کی ضرورت ہوتی ہے، مگر کیا اِس ضرورت کے چرنوں میںہر اُصول اور قدر قربان کر دی جانی چاہیے ؟کیا یہ طرز ِ سیاست خود کمزور ذہنیت کی عکاسی نہیںکرتی ؟اور پھر یہ دعویٰ کہ ”ہم پاکستان کو بدلیںگے“۔

انیس سو ستتر کی انتخابی دوڑ میں ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے رفقاءنے سمجھا کہ سیاسی کامیابی کے لئے جیتنے والے گھوڑوںپر ہاتھ رکھنا ضروری ہے ، چنانچہ اُن جاگیر داروں کو، جن کو ”راج کرنے والی خلق ِ خدا“ انیس سو ستر کے انتخابات میں شکست دے چکی تھی کواِس امید پر پی پی پی میں شامل کر لیاگیا کہ اُن کے ساتھ لاکھوں حامی ہیں، مگر کیا اِس پالیسی کا پی پی پی کے انقلابی نعرے کو فائدہ ہوا یا نقصان ؟انیس سو نواسی میں پاکستان میں زیادہ تر رجائیت پسند سیاست دان، جن میں نواز شریف اور اعتزاز احسن بھی شامل ہیں، ائیر مارشل اصغر خان کی تحریک ِ استقلال میںجوق در جوق شمولیت اختیار کررہے تھے، تاہم جب جنرل ضیا ءالحق نے مارشل لاءکا نفاذ کرتے ہوئے ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی تو ایئر مارشل صاحب کے گلشن سے بھی پنچھی پرواز کر گئے۔

عمران خان کا سونامی کس طرح اتنی جلدی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا؟ شعلہ ِ انقلاب کس طرح راکھ کا ڈھیر بن گیا ؟اِس کی وجہ دور آفاق میں بپا ہونے والی کوئی تبدیلیاں نہیں، بلکہ اِنہی ”قابل انتخاب “ افراد کی پارٹی میں شمولیت ہے، جنہوں نے بادہ ِ انقلاب کے لئے ترشی کا کام دیا۔ شروع میں عمران نے گمنام نوجوانوں اور باحوصلہ جواں فکر طلبہ کی امیدوں کا چراغ روشن کیا تھا، کیونکہ اِس وقت ہر طرف دقیانوسی سیاست کا اندھیر ا تھا پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) روایتی طرز ِ سیاست کی علمبردار تھیں، جن میں اصحاب ِ ثروت ہی جا پاتے ہیں، تاہم جیسے ہی خان صاحب نے ”قابل انتخاب “ افراد سے سیٹیں بھرنا شروع کر دیں، ان کا جہاز بوجھل ہو کر روایتی ریت میں بیٹھ گیا کہ ابھی کم گہرے پانی میں تھا۔ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی اِس راہ پر چل نکلی ہے۔ یقینا جب آسمانی طاقتیں کسی کی تباہی کا فیصلہ کر لیتی ہیں تو وہ پہلے استقامت کادامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ پارٹی میں یہ بحث بھی نہایت سنجیدگی سے ہورہی ہے کہ ننکانہ سے پارٹی کا ٹکٹ برگیڈئیر اعجاز شاہ کو، جو پرویز مشرف کا پُر زور حامی اور اُس دور میں آئی بی کا سربراہ تھا، دے دینا چاہیے۔ مَیں نے سوچا کہ اعجاز شاہ کو پارٹی میں جگہ ملنی ناممکن ہے مگر جب اس تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی پیمانوں میں، جس میں امیر مقام، ماروی میمن اور سمیرا ملک اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما ہیں، تو مسٹر اعجاز شاہ کا کیا قصور ہے؟

اِس وقت مسلم لیگ (ن) اِس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی کہ اُس کو اگلی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوجائے اور یہ منطق قابل ِ فہم ہے کہ اکثریت کے بغیر یہ حکومت سازی نہیں کر سکے گی۔ اِس کا صاف مطلب ہو گا کہ ملک کو اگلے پانچ سال کے لئے پھر آصف علی زرداری راج ہی برداشت کرناپڑے گا اور یہ سوچ رستم کا کلیجہ بھی پانی کردیتی ہے، تاہم اقتدار کی سیاست کے لئے ہر اصول کی پامالی کہاں تک روا ہے ؟کیا انتخابی سیاست میں کامیابی دراصل موقع پرستوں اوروفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی کامیابی ہوتی ہے؟اِس میںکوئی شک نہیں کہ سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں پی ایم ایل (ن) کی پوزیشن کمزور ہے اور وہاں اُسے مناسب سیاسی حمایت کی ضرورت ہے، لیکن چکوال میںیہ صورت ِ حال نہیںہے۔ یہاںسے پرویز مشرف دور ، جب مقامی قائدین نے موقع پرستی دکھائی، کے سوا 1985 ءسے لے کر اب تک ہر الیکشن میں عوام نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی ہی حمایت کی ہے۔

مبادا یہ کالم کسی ذاتی مقصد ، کہ مَیں ایک مرتبہ پھر یہاںسے ایم این اے بننے کا خواہشمند ہوں، کے پس منظر میںدیکھا جائے، ایک وضاحت ضروری ہے اگر مجھے ٹکٹ نہ دیا جائے تو نظام ِ ہستی اسی طرح چلتا رہے گااور اِس میںرتی بھر تبدیلی واقع نہیں ہوگی، لیکن کیا چکوال، جو ہمیشہ سے ہی مسلم لیگ کے ساتھ رہا ہے، کے لوگ اِس سلوک کے مستحق ہیںکہ ایک ایسے شخص کو، جو ہر دور میں مسلم لیگ (ن) کا مخالف رہا ہو، اُن پر مسلط کر دیا جائے؟آگ اور پانی کے ملاپ سے کیا نتیجہ آئے گا؟ غزنوی کا دربار یقینا ”ایاز“ کامرہون ِ منت نہیںہے، لیکن زلفیں ابھی اتنی بھی برہم نہیںہوئی تھیں اور پھر چکوال میں مسلم لیگ (ن) زندہ ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو مَیں روایتی سیاست میں خود کو مکیش کے لافانی گیت کی عملی تصویر پاتا ہوں” سچ ہے دنیا والوکہ ہم ہیں اناڑی“۔ دل تو چاہتا ہے کہ عباس سے مَیںبھی کچھ سبق سیکھوں ۔مجھ سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، مگر شاید سب سے سنگین غلطی وہ تھی جب مَیں نے نہایت قابل ِ احترام ایڈوکیٹ ضیاءالحسن زیدی کو مسلم لیگ (ن) کے ضلعی صدر کے عہدے سے ہٹائے جانے کو برداشت کیا۔ کاش یہ غلطیاں قابل ِ تلافی ہوتیں۔

تاہم جادہ ِ زیست بہت سے پیچ و خم سے عبارت ہے، کہ یہی زندگی ہے۔ آخر میں ، شاید کہنے کے لئے یہی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں وقتی فائدے کے لئے کوئی بھی اُصول بنا لیتی ہیں اور پھر دعویٰ کرتی ہیںکہ وہ انقلاب لا رہی ہیں۔ پاکستان کو بچانا ہے، لیکن اگر اِن نجات دھندوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان کو بہت زیادہ نجات کی ضرورت ہے۔

(نوٹ:اِس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا پاکستان محفوظ ہیں۔اِس کی کسی بھی صورت میںری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے)

مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔

مزید :

کالم -