انٹر نیٹ پر جا کر دیکھیں گے تو آپ کو سلفی تحریک، عقائد کے لحاظ سے، اسلام کے دوسرے فرقوں سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آئے گی۔ اہل حدیث، دیوبندی اور وہابی اگرچہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں، لیکن اس کے باوجود ان میں رنگ و بو کا کچھ نہ کچھ اختلاف ضرور پایا جاتا ہے اور یہ اختلاف، ہر دین اور ہر مذہب میںموجود ہے۔ اسلام کو اہلِ مغرب کی تنقید کا ہدف اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ان کی نگاہ میں اگر کوئی مذہبی تحریک، عقیدہ یا لائحہ عمل ایساہے جو مستقبل قریب یا بعید میں ان سے آگے نکلنے کے امکانات رکھتا تو وہ اسلام ہے۔ ان کے سامنے دورِ ماضی کی صد ہا برسوں پر پھیلی ہوئی مسلم تہذیب و تمدن کی وہ روایات پھیلی پڑی ہیں، جن کا جواب ان کی اپنی روایات سے آج تک نہیں بن پڑا۔ دراصل اہلِ مغرب کا یہی زعم تھا جس نے سلفی تحریک اور اس جیسی دوسری تحاریک کو جنم دیا۔ سلفی تحریک کو سعودی عرب کی وہابی تحریک کی سپورٹ اور اعانت میسر ہے۔ کئی فروعی عقائد بھی ان دونوں تحریکوں کے ایک ہیں۔ اگرچہ تمام سعودی، وہابی نہیں ہیں، لیکن تمام وہابی بنیادی لحاظ سے سلافی ہیں۔
آج سعودی عرب سے باہر دوسرے عرب ممالک میں یہ خوف پایا جاتاہے کہ کہیں یہ سلفی تحریک بھی ان کے داخلی نظام معاشرت وحکومت کو اسی طرح اپنی گرفت میں نہ لے لے جس طرح آج سے 30، 35 برس پہلے اس نے پاکستان کے مساجد و مدارس کو اپنی گرفت میں لے کر ”زیر نگیں“ کر لیا تھا۔ آج کے مصر، تیونس اور مراکش وغیرہ میں جدید اسلام کا جو رنگ و روپ پایا جاتا ہے، وہ سلفی تحریک کے عقائد سے زیادہ میل نہیں کھاتا۔ مثلاً سلفی تحریک کے پیروکار عورتوں کی تعلیم، ان کی مردوں سے برابری اور طاو¿س ورباب کے ان مظاہر سے بالکل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں جو ان عرب ممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سعودی عرب میں عورتوں پر پردے کی جو پابندیاں ہیں، مرد و زن کی مخلوط تعلیم پر جو قدغنیں ہیں اور رقص و موسیقی کی جو سخت روایات و رسوم ہیں، وہ سعودی عرب سے باہر کے ان عرب ممالک میں آپ کو کہیں نظر نہیں آئیں گی، جہاں ”عرب سپرنگ“ کے حالیہ مظاہرے ہوئے ہیں اور حکومتیں اور حکمران خاندان تبدیل ہوئے ہیں۔
سلفی تحریک، جدید جمہوری تقاضوں کی بھی شدید ناقد ہے، مثلاً زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سوات کے صوفی اور ملا حضرات کے وہ بیانات ہم پاکستانیوں کو یاد ہوں گے جو انہوں نے پاکستان کی طرز حکومت کے بارے میں دئیے تھے۔ کیاانہوں نے بَرملا نہیں کہا تھا کہ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کے عدالتی نظام کے مخالف ہیں؟ سلافی حضرات سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی موجودگی میں کسی بھی مسلم ملک کو کسی اور آئین کی ضرورت نہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا!
سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے سے ان کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق نہیں دئیے جاسکتے۔ اسلام میں سزاو جزاکا جو نظام اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اس پر بھی سلافی تحریک کے مقلد من و عن بلکہ لغوی طور پر عمل کرنا چاہتے ہیں.... ان کے یہی وہ ”انکشافات و ارشادات“ تھے، جن کو سن اور جان کر پاکستان کی سویلین حکومت نے سوات، مالا کنڈ اور دیر میں آرمی ایکشن کی منظوری دی تھی۔ آپریشن راہ راست اور راہ نجات کا فیصلہ فوج نے نہیں، سویلین حکومت نے کیا تھا.... اور انہی ایام میں اسلام آباد تک کو جو خطرات لاحق ہوگئے تھے ان کی صدائے بازگشت تو آج بھی پاکستان کے سوادِ اعظم کے لئے باعث نفرت ہے۔ پاکستان کے انہی تجربات کو دیکھتے ہوئے بیشتر عرب ممالک نے جو سبق حاصل کیا، وہ یہی تھا کہ اسلاف کو آواز نہ دو۔
حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک نے پاکستان کے طول و عرض میں لوگوں کے مذہبی عقائد کو شدید متاثر کیا۔ آج کے پاکستان کا ایک عام لکھا پڑھا نوجوان ایک عجیب کنفیوژن میں گرفتار ہے۔ ایک طرف تو وہ تحریک ہے جس نے برصغیر ہند و پاک میں مسلمانوں کو عددی اکثریت عطا کی اور جس کے طفیل اگست1947ءمیں پاکستان کی ریاست وجود میں آئی۔ جن بزرگانِ دین نے جنوبی ایشیاءمیں اسلام کی ترویج و اشاعت کی تھی، انہوں نے کبھی بھی اپنی زندگی میں یہ نہیں کہا تھا کہ ہمارے مقابر تعمیر کرو، ان کو مرجعِ خاص و عام بناو¿ اور وہاں آکر ہم سے من کی مرادیں مانگو.... ایسا ہرگز نہیں تھا۔ وہ سب خدائے واحد کے ماننے والے تھے اور ان کے ہاں شرک کے معانی وہی تھے، جن کو آج سلافی تحریک والوں نے بنیاد بنا کر ان بزرگانِ دین کے مزاروں کو منہدم کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ ماضی قریب میں حضرت داتاگنج بخشؒ، حضرت بابا فرید الدین شکر گنج ؒ، حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ ، رحمان باباؒ اور پیر باباؒ (بونیر والے) کے مزارات کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اور ان کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں، وہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت تھیں (اور ہیں) اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، سلفی اسلام کے نام لیواو¿ں نے ساتویں صدی عیسوی کے اسلام کے احیاءکا جو بیڑا اٹھایا وہ پاکستان کو نجانے کتنے عشرے پیچھے کی طرف لے گیا، کتنی ہزار جانوں کو موت کے گھاٹ اتار گیا اور کتنے لاکھ خاندانوں کو زندگی بھر کے ماتم دے گیا!
اور دوسری طرف عصر حاضر کے روشن خیال مسلم ممالک کی جیتی جاگتی ترقی اور خوش حالی ہے۔ آج کا مسلم نوجوان ان دونوں کے درمیان بھٹک رہا ہے۔
دبستانِ سلفیہ کے اساتذہ اور طلباءکو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر وہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے شاندار ماضی کا احیاءچاہتے تو تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں گھوم سکتا۔ گردشِ ایام ہمیشہ آگے کی طرف دوڑتی ہے، پیچھے کی طرف نہیں، ساتویں، آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے جو جو کامیابیاں حاصل کیں وہ اپنے ان دشمنوں کے خلاف کیں جو انہی تین صدیوں میں ان کے مقابل تھے۔ اگر آج ہم مسلمان اس دور کو واپس لانے کی کوشش کریں گے تو دشمن کا وہ دورِ ماضی بھی واپس لانا ہوگا جو اس وقت ہمارے سامنے صف آرا ہوا تھا۔ آج کا ہمارا دشمن قرون اولیٰ کا دشمن نہیں، اکیسویں صدی کا دشمن ہے۔ ہم اس دشمن کا مقابلہ آٹھویں یا ساتویں صدی کی اسلامی تاریخ کو واپس لا کر نہیں کر سکتے۔
قرون اولیٰ کی صدیوں کو مسلمانوں کی سنہری اور یورپ کی تاریک صدیاں بھی کہا جاتا ہے۔ آج اگر کوئی اسلامی تحریک، سلفی ہو یا کوئی اور، اس دور کا احیا چاہتی ہے تو اسے یورپ کا وہ براعظم بھی واپس لانا ہوگا جو تاریک تھا۔ امریکہ کا تو کہیں نام و نشان تک نہ تھا اور آسٹریلیا بھی بہت عرصہ بعد دریافت ہوا۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی جو بازنطینی سلطنت تھی یا جو رومن، ایمپائر تھی یا فارس میں جو ساسانی شہنشاہیت تھی، ان کا بیشتر حصہ، ایشاءمیں تھا اور بہت کم یورپ میں تھا۔ مسلمانوں نے اس وقت باز نطینی اور ساسانی حکومتوں کو شکست سے دوچار کیا تو آج نہ وہ ساسانی حکومت ہے نہ کہیں باز نطینی سلطنت نظر آتی ہے۔ اب وہ سلطنتیں زمانے کی گردش کے طفیل تاریکی سے نکل کر روشنی میں آچکی ہیں۔ اپنی قدامت کو جدت میں بدل چکی ہیں اور اپنی کمزوریوں کو توانائیوں کی شکل دے چکی ہیں۔ ان کے مقابلے میں ماضی قریب کا مسلمان اسی تیزی اور اسی تندی سے تبدیل نہیں ہوا جس تندی و تیزی سے ماضیءقریب کا عیسائی، بدھ اور یہودی تبدیل ہوا ہے۔ ایسے میں یہ سلفی تحریک یا بنیاد پرست مسلمانوں کی دوسری تحریکیں، اسلاف کو از سر نو زندہ کر کے کیا کریں گی؟ بطنِ گیتی تو آسمانِ تازہ پیدا کر چکا، جس پر نئے ستارے جلوہ گر ہو چکے، ہمیں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ نئے آفتاب و ماہتاب اور نئی کہکشائیں دریافت کرنی چاہئیں.... صد افسوس کہ مغرب تو یہ سب کچھ کر رہا ہے اور ہم ماضی کے ناسٹلجیا میں گرفتار پھرتے ہیں۔
ہاں البتہ آج کا مسلمان اپنے اسلاف کی روح ضرور تازہ کر سکتا ہے، ان کی سپرٹ کا احیاءضرور کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ” سلفی بھائیوں“ کو سوچنا چاہئے کہ کیا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر کو شکست دینے کی دھن میں اپنی قوم کو، اپنے ملک اور اپنے ہی معاشرے کو روند ڈالا تھا یا خون خرابہ مچا کر اپنے اسلاف کی یاد تازہ کی تھی؟.... آج کے مسلمان نے اگر آج کی غیر مسلم دنیا کو شکست دینی ہے یا اس کے مقابل آنا ہے یا اس سے آگے نکلنا ہے تو اس کا علاج اپنے اسلاف کی ان روایات کی اندھی پیروی میں نہیں جو اس جدید دور میں قصہءپارینہ بن چکی ہیں۔ ان پرانی روایات کی تقلید کا مطلب دورِ جدید کو کنڈم کرنا بھی نہیں بلکہ موجودہ عہد میں سانس لینا، زندہ رہنا اور اس کو اپنے اسلاف کی سپرٹ پر از سر نو تعمیر کرنا ہے.... سلافی تحریک کو تعمیر پر زور دینا چاہئے، تخریب پر نہیں.... قرونِ اولیٰ کی مسلمانی کو قرنِ جدید میں لانے کے لئے ریورس انجینئرنگ کے بغیر چارہ نہیں۔(ختم شد) ٭