معاشرہ اور معیشت ۔۔۔ جو درکار ہے
تشکیل نو کے مرحلے سے گزرنے والے عالمی نظام میں ہمیں کیا کرنا چاہیے
کثیر آبادی پر مشتمل معیشتیں جن کو چلانے والے حقیقت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، جیسا کہ پاکستان، انہیں آئندہ سالوں میں ایک مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ ایسی معیشتیں جو مصنوعات تیار کرتی ہیں، ہو سکتا ہے انہیں مستقبل میں جدید ٹیکنالوجی کے حامل/ امیر ممالک کی منڈیوں تک رسائی نہ ملے۔ بہت سے امیر ممالک صنعت کاری کو اپنے ملک میں واپس لا رہے ہیں تاکہ وہاں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا خاتمہ کیا جاسکے۔ علاوہ ازیں جدید ٹیکنالوجی کے حامل ممالک ایسے جدید طریق کار (جیسا کہ روبوٹ) ایجاد کر رہے ہیں جن کی مدد سے کم لاگت سے قلیل تعداد میں بھی بہت سی مصنوعات تیار کی جا سکیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ممالک مستقبل میں وہ مصنوعات درآمد نہ کریں جن میں ترقی پذیر ممالک کو خصوصی صلاحیت حاصل ہے۔ لہٰذا ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں محنت کش روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔
2007-08 ء کے بحران کے بعد سیاسی ترقی یافتہ ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ہمیں اس پورے معاملے کا موجودہ صورتحال میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آئندہ برسوں میں زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیسے کیا جائے؟ اندرون ملک تیار کردہ مصنوعات کے لیے مقامی منڈی کو کیسے توسیع دی جائے؟ لیبر فورس جس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، کو روزگار کیسے فراہم کیا جائے؟
کیا امیر طبقے کے زیر تسلط ریاست ان دیرینہ مسائل کو حل کر سکے گی؟ کیا یہ چیزیں سیاسی و معاشی نظام میں تبدیلی کا تقاضہ نہیں کرتیں؟
کیا صرف نمو ہی پاکستان میں تبدیلی لائے گی
نمو کی بدولت بہت سے ممالک میں بتدریج تبدیلی آئی۔ تعلیم، علم اور ہنرمندی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے میں مدد دیتے ہیں جس سے جی ڈی پی، ٹیکس محصولات اور برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ سب کسی بھی ملک اور کسی بھی معاشی نظام کی اقتصادی ترقی اور کسی حد تک سماجی ترقی کے لیے لازمی شرائط ہیں۔
لیکن پاکستان میں سماجی اور معاشی ترقی کے عمل میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔حکمران طبقے انتظامی اور معاشی شعبوں میں ضروری اصلاحات کے لیے آمادہ نہیں جو ہمہ جہت ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ وہ کسی بھی قسم کی اصلاحات نافذ کرتے وقت اپنے طبقاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے بجائے حکمران طبقے عام شہریوں کے زیر استعمال اشیاء پر ٹیکس عائد کرتے ہوئے انہیں کنگال کر دیتے ہیں۔ موجودہ نظام مجموعی طور پر ناہمواری کو فروغ دیتا ہے۔
تاریخی لحاظ سے پاکستان میں نمو کا انحصار غیر ملکی وسائل اور بیرونی سرمایہ کاری پر ہے۔ ایسے نظام میں، جس کا ذکر اس سے پہلے کیاگیا ہے، اقتصادی ترقی طبقاتی، لسانی اور علاقائی سطح پر ناہمواری میں اضافہ کرتی ہے۔ ناہمواری کئی وجوہات کی بنا پر نا قابل قبول ہے۔ یہ عام لوگوں، لسانی گروہوں اور علاقوں کے مصائب میں اضافہ کرتی ہے اور موروثی اشرافیہ کو استحکام بخشتی ہے جو جمہوری ارتقاء کے متضاد ہے۔ ہمیں ایک ایسے منصفانہ سماجی و معاشی فریم ورک میں رہتے ہوئے نمو کی ضرورت ہے جو غربت اور دولت کی ناہموار تقسیم کا بھی خاتمہ کرے۔
سماجی تبدیلی کا نعرہ
حکمران استحصالی طبقے نے ہوا کا رخ بھانپتے ہوئے سماجی تبدیلی کا نعرہ بھی بلند کیا۔ سماجی تبدیلی سے چند لیڈروں کی مراد معاشرے کے سماجی رویوں میں تبدیلی اور نظم و نسق میں چند اصلاحات ہیں۔ وہ اس غیر منصفانہ نظام پر حملہ نہیں کرنا چاہتے جو غربت، صحت کی خراب صورتحال، ناقص غذائیت اور بے روزگاری کے بنیادی اسباب ہیں۔ اس کا حل ایسے معاشی نظام کا قیام ہے جو طبقاتی اور علاقائی، سماجی اور اقتصادی ترقی کو یقینی بنائے۔ لیکن ایسا نظام جو ارب پتی لوگوں یا بدعنوان شرفا کے ماتحت ہو، کبھی منصفانہ مقاصد کو پورا نہ کرے گا۔ سیاسی میدان میں سماجی سیاست دان، یعنی نئی قسم کے سیاستدان شامل ہونے چاہئیں جس کی وضاحت بعد میں کی گئی ہے۔
Motivational (ترغیباتی) معاشیات کے ذریعے منصفانہ ترقی: بہت سے ترقی پذیر ممالک کے معدنی وسائل بیکار پڑے ہیں اور افرادی قوت جدید علوم و فنون سے بے بہرہ ہے، اس کیٹگری میں پاکستان بھی آتا ہے، ایسے ممالک عام طور پرغیر منصفانہ ہیں۔ ان ممالک کی قیادت طبقہ امراء سے تعلق رکھتی ہے اور وہ ایسی ترقی کے خواہاں ہوتے ہیں جو دولت کی تقسیم میں امیر کو امیرتر بنائے اور غربت زدہ افراد کو حالات کا ظلم سہنے پر چھوڑ دے۔ اگر ایک ترقی پذیر ملک کثیر آبادی کا حامل ہو تو اشرافیہ کے زیرقیادت چلنے والا نظام عوام کی بڑی تعداد بالخصوص غیر تربیت یافتہ افراد کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ حکمران طبقے ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری پر انحصار کرتے ہیں۔ البتہ ایسے ترقی پذیر معاشرے جو ترغیباتی معاشیات اختیار کریں وہ ترقی کے ابتدائی مرحلے میں بہت سے ترقیاتی مقاصد حاصل کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ سماجی طور پر سرگرم قیادت لوگوں کو متحرک کرتے ہوئے معاشرے کے طرز عمل میں تبدیلی اور نظم و نسق میں بہتری لا سکتی ہے۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ترغیباتی نظام ہمیشہ جاری نہیں رہتا۔ سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی اہمیت ہر نوع کے معاشرے کو ترقی اور تہذیب کے اعلیٰ مقام پر لے جانے میں موجود رہتی ہے۔
پاکستان میں حقیقی تبدیلی
جب تک سیاسی نظام ناجائز یا بے شمار دولت اور فیوڈل طاقت کی بنیاد پر چلتا رہے گا۔ بالادست طبقات کا ریاست پر تسلط قائم رہے گا اور وہ معاشرے پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ریاستی اختیار استعمال کرتے رہیں گے۔ انہیں عام لوگوں کے مفاد سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ البتہ وہ عوام کے مفاد کا نعرہ لگا کر انہیں دھوکا دیتے اور اپنے طبقاتی مفاد کو فروغ دیتے رہیں گے۔ اگر ہمیں صنعتی دور کے بعد کسی نوع کا فلاحی معاشرہ قائم کرنا ہے تو سیاسی کھیل کے ضوابط بھی تبدیل کرنے ہوں گے۔ صنعتی دور کی سیاست کے پرانے کھیل کے ضوابط کے ذریعہ نئے دور کی فلاحی ریاست کامیابی سے ہمکنار نہ ہوگی۔
ایسی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عوام سیاسی اختیارات امیر ترین/ بدعنوان اشرافیہ سے سماجی سیاستدانوں کو منتقل نہ کر دیں جو انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ فلاحی معیشت مخلوط ہوگی اور سماجی سیاست سے جڑی ہونی چاہیے۔ یہ ایک وسط مدتی پروگرام ہے۔ اس کا ابھی سے آغاز کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی کہ استحصالی اور بدعنوان طبقے کے تسلط کا خاتمہ کرنے کے لیے جدوجہد اور مشکلات درکار ہوں گی۔
سماجی سیاست سماجی خدمت سے مربوط ہے۔ جو افراد سماجی سیاست کے اُمیدوار ہوں گے انہیں کسی نہ کسی شکل میں سماجی اصلاح اور سماجی ترقی کے منصوبوں میں عملی حصہ لینا ہوگا۔ اور عوام کی خدمت سے اُن کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ جیسا کہ الگ واضح کیا گیا اصلاحی کاموں اور ترقیاتی منصوبوں میں عوام کی عملی شرکت ضروری ہے۔ تاکہ ان میں اپنی تقدیر خود تعمیر کرنے کا جذبہ اُبھرے۔ ظاہر ہے یہ کام وسط مدتی ہے۔ ہمارے ملک کے حالات فوری حل طلب کرتے ہیں۔ فوری حل کا تقاضا ہے کہ الیکشن کے قوانین میں شفافیت کے ساتھ ساتھ متناسب نمائندگی (Proportional Representation) کا اصول اختیار کیا جائے۔ اس طریقِ انتخاب سے بڑا فائدہ وہ سیاسی قوت حاصل کرے گی جو ’’غربت کی جڑیں اُکھاڑ پھینکو‘‘ کا نعرہ مؤثر انداز میں پیش کرے گی۔ غالباً ’’سٹیٹس کو‘‘ کی حامی پارٹیاں اور لیڈر اس تجویز کو آسانی سے قبول نہ کریں گے۔ چنانچہ اس تجویز کو عوام کی جدوجہد کے ذریعے ہی منوایا جائے گا۔ یہ طریقِ کار ایک حد تک مفید ثابت ہوگا کہ یہ کام سماجی سیاست کا نعم البدل نہیں۔ اس معاملے میں کچھ وجوہ آگے بیان ہوں گی۔
سماجی سیاست۔۔۔ تبدیلی کی سیاست
ترقی پذیر قوم جو اپنے معاشرے کو ترقی یافتہ اور مہذب بنانے کی خواہاں ہو، اسے مروجہ ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی جگہ ’’سماجی سیاست‘‘ کا وسط مدتی پروگرام اپنانے کی ضرورت ہے۔ سماجی سیاست خاص طور پر ٹیکنالوجی سے محروم کثیر آبادی کے حامل ترقی پذیر ملک کے لیے درکار ہے۔ ایسے ملک میں عوام کے معیار زندگی میں بہتری کا انحصار سماجی سیاست کی قبولیت پر ہوتاہے۔
سماجی سیاست کا مقصد لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے سیاسی جمہوریت کے ساتھ ساتھ معاشی جمہوریت کا قیام ہے۔ اس طرح سے قائم وسیع تر جمہوریت کا حامل معاشرہ امن و راحت کو فروغ دے گا اور نئے علوم میں اضافے کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ اس سے خوشحالی میں اضافہ کرنے اور قدرت کے ساتھ ہم آہنگی (ماحولیات کو بہتر بنانے) میں مدد ملے گی۔(جاری ہے)
’’ سماجی سیاست دان‘‘ سیاسی طور پر باشعور ہوتا ہے اور وہ لوگوں، بالخصوص محروم طبقات کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ وہ ابتدا میں سماجی کاموں میں شرکت کرتا/ کرتی ہے جس کی بدولت وہ عوام کی زندگیوں کے قریب تر ہو جاتا/ جاتی ہے۔ سماجی کام اس نوعیت کا ہونا چاہیے جو عوام کی زندگی میں نمایاں تبدیلی لائے۔ سماجی کام میں عوام کے فائدے کے لیے ترقیاتی پروگرام بھی شامل ہے۔ تبدیلی کا ہدف (جامع مفہوم میں) بہتر طور پر اس وقت حاصل ہوگا جب اہل علاقہ سماجی کاموں میں بھرپور شرکت کریں گے۔ عوام کی شرکت بہت ضروری ہے۔ عوام کی شرکت سے ہی ان کے نقطہ نظر اور سماجی رویوں میں تبدیلی آئے گی۔ وہ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا سیکھیں گے اور ان میں اعتماد اُجاگر ہوگا کہ وہ جس معاشرے میں رہتے ہیں اسے غیرمنصفانہ معاشرے سے منصفانہ معاشرے میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ لیڈر جو عوام کی شرکت کے بغیر اس نوع کی تبدیلی لائے وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے گا۔
خالص سماجی کارکن بمشکل ہی سماجی سیاست دان بن سکتا ہے چاہے وہ کتنا ہی نیک نیت ہو۔ البتہ ایسا شخص جو سیاست دان بننے کا جذبہ رکھتا ہو وہ سماجی کاموں کے ساتھ سیاست میں عملی کام شروع کر سکتا ہے۔ ہمیں ایسے ہی سیاست دان کی ضرورت ہے۔ سماجی سیاست دان کو آئندہ آنے والی سماجی و معاشی تبدیلی کا طویل المعیادی اور ارتقائی فہم حاصل کرنا چاہیے۔ وہی شخص سچی تبدیلی میں کردار ادا کر سکتا/سکتی ہے۔ اگر کوئی لیڈر صرف ’’رویہ جاتی تبدیلی‘‘ یا ’’ انتظامی اصلاح‘‘ کا پرچار کرتا/کرتی ہے تو وہ حقیقی تبدیلی ساز نہیں۔
پاکستان کے لیے فلاحی نظام: مستقبل کا تصور
اب ہم کنکریٹ تجاویز کی طرف بڑھتے ہیں۔ یہ تجاویز پاکستان کے سیاسی و معاشی نظام میں تبدیلی کے خطوط پیش کرتی ہیں۔ مجوزہ تبدیلیاں (i) مخلوط معیشت کا حامل جمہوری معاشرہ قائم کریں گی (ii) یہ معاشرہ پیداواری وسائل کی وسیع تر ملکیت اور قومی دولت کی منصفانہ تقسیم پر مبنی ہوگا (iii)جبکہ سیاسی اختیارات سماجی سیاست دانوں کے پاس ہوں گے۔
I۔معاشرے کی ساخت میں مندرجہ ذیل خطوط پر تبدیلی ہوگی:
(الف)ریڈیکل زرعی اصلاحات
(ب)قبائلی سرداری نظام کا خاتمہ
(ج)بااختیار مقامی جمہوری حکومتوں کا قیام
II۔Human Development کے لیے زیادہ رقوم وقف کی جائیں۔
مجوزہ سیاسی معیشت کا نظام مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہوگا:
(i)قومی پیداوار میں ممکنہ حد تک اضافہ
(الف)معاشی سرگرمی ممکنہ حد تک جدید علم پر مبنی ہونی چاہیے تاہم ابتدائی مرحلے پر اس کا مقصد لیبر فورس میں کمی نہیں ہونا چاہیے۔
(ب)عام لوگوں کے زیر استعمال اشیاء کی پیداوار اور خدمات کی فراہمی کو ترجیح دی جائے۔
(ج)دولت کی پیداوار میں توسیع کے لیے چھوٹے کسانوں اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے صنعتی اداروں کی ترقی کے لیے خاطرخواہ سہولیات اور وسائل فراہم کیے جائیں۔
افرادی قوت کی مہارت اور قدرتی وسائل کو فروغ دیتے ہوئے ہر ٹاؤن میں specialized چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیا جائے مثلاً سیالکوٹ کو کھیلوں کے سامان، کٹلری اور آسان سرجیکل اوزار میں مہارت حاصل ہے۔
ایک جامد/ زوال پذیر معیشت فلاحی نظام کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
(ii)بدعنوانی کو چیک کیا جائے، غیر ترقیاتی اخراجات پر قابو پایا جائے اور قومی پیداوار کی شرح میں اضافہ کرتے ہوئے ٹیکس ریونیو اور مالیاتی وسائل بڑھائے جائیں۔ ان وسائل کو فلاحی مقاصد کے لیے مختص کیا جائے۔
(iii)پالیسی فریم ورک
*ایسے اقدامات کیے جائیں جو پیداواری روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد دیں۔
* اصراف کی حوصلہ شکنی اور بچت اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
*زندگی کے تمام شعبوں میں پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے اور تعلیم، صحت اور ماحولیات وغیرہ پر خصوصی توجہ دی جائے۔
*پسماندہ علاقوں کی ترقی اور ان علاقوں کے لوگوں کی تعلیم اور مہارت میں اضافے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
*غیر منقولہ جائیداد، سٹاکس اور حصص میں سٹے بازی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ پیسہ کمانے کے دیگر ’’آسان ذرائع‘‘ کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے۔
استحکام کیسے حاصل کیا جائے:
(i)قوم کے استحکام کے لیے کیے جانے والے اقدامات
(الف)روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔
(ب)جتنا جلدی ممکن ہو سکے غربت اور اس کی وجوہ کا خاتمہ کیا جائے۔
(ii)جس حد تک ممکن ہو سکے معاشرے میں دولت کی تقسیم میں فرق کو کم کیا جائے۔
یہ اقدامات کرنے کے بعد ملکی سالمیت کو لاحق خطرہ اور معیشت میں باربار پیدا ہونے والے بحران کا سلسلہ کم ہو جائے گا۔
جامع (Holistic) طریقہ کار
معیشت کو عدمِ استحکام سے بچانے اور قیمتوں کی سطح کو مستحکم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ادائیگیوں کے توازن (Balance of Payment) اور بجٹ میں بڑا خسارہ نہ ہو۔ بہتر ہے کہ معیشت میں ایسی اشیاء اور سروسز کو ترقی ملے جو زرِمبادلہ کمائیں۔ مزید برآں دولت کی پیداوار، اس کی تقسیم اور سروسز پر عاید ٹیکسوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا رہے۔
یہ اقدامات نئے معاشی نظام کا ایک جامع پروگرام تشکیل دیتے ہیں۔ اگر یہ پروگرام بے ربط ٹکڑوں میں کیا جائے تو لوگوں کی پسماندگی سے جلد نجات نہ ہوگی اور نہ ہی منصفانہ خطوط پر بلند شرح نمو حاصل ہوگی۔
کیا حکمران طبقے آسانی سے جامع اصلاحات کی اجازت دیں گے؟ نہیں۔ اسی لیے ہمارے مسائل کا بنیادی منبع معاشی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے۔
سنگین بحران سے بچاؤ
جدید ٹیکنالوجی کے دور میں نیولبرل (Neoliberal) فریم ورک میں دولت کی افزائش اس کے ارتکاز کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں اور وسائل سے مالامال اور وسائل سے محروم طبقات کے درمیان فرق بڑھ جاتا ہے۔
بلا روک ٹوک بڑھتے فرق نے معاشی بحران اور سماجی اتھل پتھل کو جنم دیا۔ ترقی یافتہ ممالک بحران پر قابو پانے کے لیے فلاحی منصوبوں میں تخفیف پر مجبور ہوئے۔
ترقی پذیر معیشتیں جنہوں نے جدید علوم اور ٹیکنالوجی کو معاشی عمل کے لیے اختیار کیا اور ہیومن ڈویلپمنٹ کی راہ اپنائی انہوں نے معاشی لحاظ سے کافی ترقی کی۔ البتہ انہوں نے سیاسی نظام اور تمدنی اقدار میں اس رفتار سے ترقی نہیں کی جتنی معیشت نے۔ وقت کے اس فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس مسئلے کی فوری تلافی کی جاسکتی ہے۔
دنیا کو یہ سبق حاصل ہوا ہے کہ دولت کی طبقاتی اور علاقائی تقسیم کا بڑھتا ہوا فرق (جو کسی بھی وجہ سے ہو) معاشی اور سماجی بحران کو جنم دیتا ہے۔
سماجی آجروں نے شدید غربت کو کم کرنے میں مفید کردار ادا کیا ہے۔ بنگلہ دیش کے گرامین بینک کے ڈاکٹر محمد یونس اور پاکستان میں ’’اخوت‘‘ کے ڈاکٹر امجد ثاقب سماجی آجروں کی مثال ہیں۔ لیکن دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کو دُور کرنے کے لیے ہمیں چنیدہ پیداواری اثاثوں کی ملکیت کے بارے میں سیاسی فیصلہ کرنا ہوگا، جیسا کہ زرعی اصلاحات۔ یہ فیصلہ صرف معاشی نہیں سماجی پسماندگی سے نجات کے لیے ضروری ہے۔
جب تک ہمارے معاشرے میں دولت کی تقسیم کا وسیع فرق موجود رہے گا، اس وقت تک آئینی مدآت میں مساوی مواقع کی یکساں فراہمی زیادہ معنی نہیں رکھتی۔
جب سماجی سیاست دان معاشرے میں ثقافتی تبدیلی لے آئیں گے تودولت کی افزائش کے لیے ہمارے سامنے مشترک ملکیت(جیسا کہ کو آپریٹو) کے وسیع نمونے موجود ہوں گے۔ ہم بنکوں اور مالیاتی اداروں کو بلا خوف و خطر قومی تحویل میں لے سکیں گے۔ اسی صورت میں ریاست قرضہ جات پر موثر ضبط قائم رکھنے اور ایسی سرگرمیوں (مثلاً سٹہ بازی) پر قابو پانے کے قابل ہوگی جو معاشی بحران کو جنم دیتی ہیں۔
Status Quo کے ڈھانچے میں کس نوع کی ترقی ممکن ہے
اہم سوال یہ ہے کہ آیا موجودہ نظام برقرار رکھ کر ہم ترقی کر سکتے ہیں؟ ہاں، ہم پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ سماجی ترقی بھی ہوگی۔ مگر معاشرہ بحیثیت مجموعی ارتقا (ڈویلپ) نہیں کرے گا۔ موجودہ نظام امیر کو امیر تر بنا دے گا۔ متوسط طبقے کا آگے دیکھنے والا حصہ کسی حد تک وسیع ہو جائے لیکن پسماندہ طبقے کے حالات میں نمایاں بہتری نہیں آئے گی۔ اس نوعیت کی ترقی کے باوجود ملک ایک سے دوسرے بحران کی جانب بڑھتا رہے گا۔
ہائی ٹیکنالوجی کے روز افزوں رفاہی پہلو
قبل ازیں معاشی اور سیاسی نظاموں کا جو خاکہ پیش کیا گیا وہ پاکستان کی نیم فیوڈل نیم صنعتی خصوصیات کے حوالے سے تھا۔ مگر ہمارا ملک ہائی ٹیکنالوجی کی پیش رفت کا اثر بھی قبول کر رہا ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں ہو رہی ہیں۔ ہم نے اس بحران کا ذکر بھی کیا جو ہائی ٹیکنالوجی کی بیش بہا دولت اور Neoliberal پالیسی نے عالمی معیشت میں پیدا کیا۔ ہم نے بیان کیا کہ جن مغربی ممالک میں سوشل ڈیموکریسی رائج تھی وہاں مالیات کے بحران کی وجہ سے ریاست اُن ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے مشکلات میں گرفتار ہو گئی جو سوشل ڈیموکریسی کے تقاضے تھے۔ یہ تصویر کا گھناؤنا پہلو ہے مگر اس کے رفاہی پہلو بھی ہیں۔
ہائی ٹیکنالوجی سے متعدد سروسز کی لاگت کم ہو گئی ہے اور وہ فری دستیاب ہونے لگی ہیں۔ پاکستان بھی اس ٹیکنالوجی سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ نے جدید تعلیم کی سہولیات فراہم کیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے بے شمار معلومات، لیکچرز، کتابوں اور لائبریریوں تک مفت یا سستی رسائی ہو چکی ہے۔ موبائل فون سے ہم فری ریڈیو سن سکتے ہیں، فری تصویریں بنا سکتے ہیں اور سستے SMS بھیج سکتے ہیں۔ سمارٹ فون نے موبائیل ٹیلی فون اور کمپیوٹر کے بہت سے فیچرز یکجا کر دیئے ہیں۔ Skype کے ذریعے فری کالز کر سکتے ہیں۔ YouTube کے ذریعے ہم ایجوکیشن، ہیلتھ اور تفریح کے سامان فری دیکھ اور سن سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے استعمال نے کئی اشیاء کی ایجاد اور پیداوار کی سہولتیں میسر کر دی ہیں۔ امریکہ اور بعض ممالک میں لوگ کاروں، رہائشی مکانوں اور دفاتر وغیرہ کی مشترک سہولیات حاصل کرتے ہیں۔ کچھ مثالیں ایسی ہیں کہ کاروباری صلاحیت کے بہرہ ور نوجوانوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے ماہرین سے نئی ایجاد کے بارے میں مشورہ حاصل کیا پھر مستقبل کے خریداروں میں معلومات تقسیم کیں۔ اس طریقِ کار سے اشیاء کا پیداواری اور تقسیم کا ڈھانچہ قائم ہو گیا۔ یہ طریقہ اختیار کرنے والوں نے کاروبار کے بارے میں مشورہ دینے والے ماہرین کو منافع میں شریک کیا اور خریداروں کو ان کی پسند کی اشیاء فراہم کیں۔ اس طرح سوشل پروڈکشن کا ایک نیا طریق قائم ہو گیا۔ یوں سرمایہ داری نظام میں مشترک مفاد پر قائم معاشی عمل کا نیا شعبہ پروان چڑھ رہا ہے۔
ہائی ٹیکنالوجی نے بہت سے صارفین (Consumers) کے لیے متعدد اشیاء مل جل کر استعمال کرنے کا سامان کر دیا ہے۔ اسے Sharing Economy کہتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پندرہ بیس سالوں میں Sharing Economy کا دائرہ بہت وسیع ہو جائے گا۔ یہ وسعت ایک نئے انتظامی ڈھانچے کی ضرورت اُجاگر کرے گی۔ یہ ڈھانچہ بلا منافع آرگنائزیشن کا ہو گا۔ جو نجی شعبے میں واقع ہو گا۔ گویا عوام کو آسودگی فراہم کرنے والے ایسے ادارے ریاستی شعبے سے باہر ہوں گے۔
مستقبل قریب میں ہر فرد اور ہر مقام اور علمی ادارہ ایک دوسرے سے Internet of Things کے ذریعہ منسلک ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں معلومات، نئی ایجادات اور سوشل پروڈکشن کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ یوں Sharing Economy کا حجم بڑا ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان جدید تہذیب کے اُس طویل سفر سے نہیں گزرا جو معاشرے کو اتنا بالغ بنا دیتا ہے کہ وہ ہائی ٹیک کی بنیاد پر قائم Sharing Economy کو وجود میں لائے اور بخوبی چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ تاہم ہم نے معیشت کا جو خاکہ پیش کیا وہ حد سے بڑھی خود غرضی کو فروغ نہ دے گا۔ پھر ہم نے سماجی سیاست کو لازمی قرار دیا۔ جس کا تقاضا ہے کہ عوام رضاکارانہ مشترک فلاحی اور ترقیاتی پراجیکٹس قائم کریں اور خود چلائیں۔ یہ فیچر معیشت میں فلاحی رجحانات کی پرورش کرے گا۔ ہمارے مذہبی عقائد میں زکوٰۃ اور خیرات کی تعلیمات Sharing Economy کی کامیابی کے لیے ذہنیت اُجاگر کریں گی بشرطیکہ یہ تعلیمات ثواب کے ساتھ ساتھ سماجی ذمہ داری کا شعور بھی اُجاگر کریں۔
ِْمذکورہ رفاہی پہلو تنگ دستی اور غربت کی وجوہ سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ عالمی آبادی کا تقریباً 50 فیصد 2 ڈالر فی کس آمدن یومیہ سے کم کماتا ہے۔ اتنے بڑے مسئلے کو ہائی ٹیکنالوجی کے رفاہی پہلوؤں اور نجی شعبے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ ریاست اور سیاست بھی اس کے حل میں عملی کردار ادا کریں۔ اس مضمون کا بنیادی پیغام یہی ہے۔