لبارڈ۔۔۔معذور افراد کا سہارا!
وہ میرے پاس آئی تو بُری طرح کانپ رہی تھی، وہ مسلسل ہکلا رہی تھی، اس کی آواز میں لرزش تھی، چہرہ اترا ہوا تھا۔ خوف کے آثاردیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ بہت گہرے صدمے سے دوچار ہو۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنا چہرہ دوسری جانب موڑتی گویا چھپ کر آنسو صاف کر رہی ہو۔ میں صورت حال بھانپ گیااوراسے بیٹھنے کا اشارہ کیا، وہ سنجیدگی سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی، مگر اس کے جذبات اس کا ساتھ نہ دے رہے تھے۔ میں نے اس کی تھوڑی ڈھارس بندھائی اور تسلی دی تو اس کا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ کچھ یوں اگلنے لگی۔۔" آپ کے پاس کوئی آیا تھا۔۔۔۔جس نے آپ کو میرے متعلق کچھ کہا ہے کہ میں۔۔۔۔پاگل۔۔۔" وہ بوکھلاہٹ میں نجانے کیا کیا کہہ رہی تھی۔ میں اس کی بات نہ سمجھ سکا ۔
شائستہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی والدہ کے انتقال کے بعد اسکی کفالت ان چار بھائیوں اور والد کے ذمہ آئی۔ جنہوں نے اس کی شادی فیصل آباد کے ایک رہائشی سے کردی جو بعد میں منشیات کا عادی نکلا، شائستہ کے لئے یہ بات صدمہ سے کم نہ تھی ، گھریلومعاملات حد سے بڑھے تو شائستہ کو واپس اپنے گھر کا رخ کرنا پڑا، حالات نے کچھ یوں پلٹی کھائی کہ کچھ ہی عرصہ بعد بھائیوں کا خون سفید ہو گیا، اور اپنے باپ کو ساتھ ملا کر مینٹل اسپتال سے بہن کا ذہنی معذوری کا جعلی سرٹیفیکیٹ بنوا لیا، شائستہ محنتی لڑکی تھی وہ جہاں بھی ملازمت کرتی اس کا باپ ، بھائی وہاں پہنچے کر اسے ذہنی معذور بتا کر اس کی نوکری چھڑوا دیتے تھے۔خدا جانے یہ کیسا انتقام تھا؟
آہ! اپنوں کی لگائی گئی چوٹ کا زخم ہمیشہ تازہ رہتا ہے۔ وہ یہ سب بتاتے جا رہی تھی اور آنسو کی جھڑی لگی ہوئی تھی اوراس کی مسلسل ہچکی بندھی ہوئی تھی وہ مجھ سے اصرار کے ساتھ پوچھ کر رہی تھی کہ کیا وہ لوگ یہاں بھی آئے ہیں؟ میں اسے یقین دلا رہا تھا کہ ایسا کچھ نہ تھا۔میں اس کی یہ آپ بیتی سن کر حیرت کے بے کراں سمندر میں جا گرا اور غوطے کھانے لگا۔۔ خیر میں نے اسے تسلی دے کر مطمئن تو کر دیا، مگر میرے اندر بے چینی کا تلاطم برقرار رہا۔۔ کیوں؟ اور کیسے؟۔۔۔ مگر؟ ان گنت سوالات نے میری سوچوں کو ساکت کر دیا۔
میں نے 21مارچ 2014, بروز جمعہ المبارک کو معذوروں کی بحالی کے نجی ادارے (لبارڈ) میں اپنے کیرئر کا آغاز کیا۔ جہاں میں نے 2 سال 9 ماہ انسٹرکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ میں نے درجنوں ایسے افراد کو ٹریننگ دی جو جسمانی طور پر معذور تھے اور مفلوک الحال تھے۔لبارڈلاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی زیر سرپرستی اور جناب پرویز ملک ایم این اے کے زیر سایہ گزشتہ سترہ سال سے کام کر رہا ہے۔ اقبالؒ کا یہ مصرعہ یہاں صادق آتا ہے’’دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو‘‘ شاید یہی وہ درد ہے جو مَلک صاحب کو اوران جیسے درد دل رکھنے والے لوگوں کو اس ادارے سے جوڑے رکھے ہوئے ہے، جو بلاشبہ ایک احسن قدم ہے۔ اللہ پاک ان لوگوں کو ہمت دے اور ان کے خدمت کے جذبے کو ہمیشہ زندہ رکھے۔
اس ادارے کا کام معذور افراد کومعاشرے میں دوسرے افراد کے شانہ بشابہ لا کر کھڑا کرناہے۔اور معاشرے میں پیدا شدہ یہ عام تاثر ختم کرنا ہے کہ معذور افراد دوسرے افراد سے کم تر ہیں اور تمام مخلوق رب کائنات کی تخلیق ہے اور اس کے ہاں سب برابر ہیں۔آپ کو یہ جان کر مسرت ہو گی کہ یہ ادارہ ان افراد کو گراس روٹ لیول سے اٹھاکرایک ایسے ہائی کلاس ماحول میں ٹریننگ دیتاہے جو جدید سہولتوں سے آراستہ ہے۔اس میں تجربہ کار اساتذہ کرام ان بچوں کی احسن طریقہ سے تربیت کرتے ہیں اور ان کوفنی تربیت کے دونوں محاذ ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل سے نبرآزما ہونا سکھاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی تراش خراش کے بعدان میں خود اعتمادی کی وہ جہت پیدا کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو اپنی معذوری کو اپنی کامیابی کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے اب ان میں جینے کی ایک لگن پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ یہ حقیقتاََ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ ہمارا تنگ نظر معاشرہ ایسے افراد کو تسلیم نہیں کرتا اور ان کو دھتکارتا ہے، شاید ہم ڈارون کے ارتقاء اس اصول پر زندگی گزار رہے ہیں جو کہ "survivor of the fittest" بہر کیف یہ ایک پستی کا مقام ہے اور بڑا المیہ ہے۔یقیناًہمیں ایسے افراد کے لئے نرمی پیدا کرنی چاہیے۔ میں ان کے لئے عام طور پر استعمال ہونے والے لفظ Disabled سے قدرے اختلاف رکھتا ہوں کہ میری نظر میں ان کو اگر Differently Able People کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ لوگ بہت اچھا اور منفرد طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کو بس تھوڑی توجہ کی ضرورت ہے ۔
ان کے ساتھ گزارے وقت کے دوران میں نے اپنے اندر حیرت انگیز تبدیلیاں محسوس کیں۔ میں نے ان لوگوں سے حوصلہ اور ہمت سیکھی، قوتِ گویائی سے محروم لوگوں سے میں نے دلوں میں گھرکرنے والا نغمہ سیکھا۔۔میں نے ان سے لگن سیکھی، محبت سیکھی،وفاداری سیکھی، جدوجہد سیکھی اور جینا سیکھا۔
شائستہ کی کہانی حقیقت کا ایک بھیانک رخ ہے میرے پاس ایسے درجنوں واقعات موجود ہیں جو ان لوگوں پر گزرتے ہیں جن کی بات ہم سننا گوارا نہیں کرتے،مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ لوگ اپنا غم ڈھانپ کر خاموشی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کا سہارا بننا چاہئے اور اس کارِخیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے، اسی طرح شمع سے شمع روشن ہوگی اور ظلمت کے اندھیرے ختم ہوں گے۔ احمد فراز نے کہا تھا:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے