سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔ ۔ ۔ چھٹی قسط
تحریر۔شاہدنذیرچودھری
عمران خان کے زیر سایہ
نیوزی لینڈ سے واپسی پر وسیم اکرم پاکستانی ٹیم کی ضرورت بن گیا۔اگلے سال منی ورلڈکپ کے لئے ٹیم آسٹریلیا روانہ ہوئی تو وسیم اکرم اس میں شامل تھا۔پاکستان کا پہلا میچ بھی آسٹریلیا کے ساتھ تھا۔ یہاں وسیم کی ملاقات عمران خان سے ہو گئی۔ٹیم کی قیادت جاوید میاں داد ہی کررہا تھا۔عمران بطور کھلاڑی شامل تھا اور اپنی ہی دنیا میں رہتا تھا۔ لیکن اسے وسیم میں نہ جانے کیا نظر آیا کہ اس نے آسٹریلیا کے ساتھ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی وسیم اکرم کو جاوید کے سایہ سے نکال کر اپنی چھتری تلے لے لیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان اور جاوید میاں داد کے درمیان سردجنگ شروع ہو چکی تھی اور میاں داد کو پرانے کھلاڑیوں کے علاوہ نوجوان کھلاڑیوں کی بھی حمایت حاصل تھی۔میانداد بے شمار خوبیوں کا مالک تھا۔ وہ بلے بازی کی طرح گروپ بندی کی سیاست کا بھی داعی تھا اور یہی سوچ کر اس نے نوجوان کھلاڑیوں کو ٹیم سکواڈ میں شامل کیا تھا تاکہ بوقت ضرورت یہ نیا خون احسان مندی کا مظاہرہ دکھا سکے۔ مگر عمران خان نے وسیم اکرم کو اپنی طرف کھینچ لیا تو اس کا یہ عمل جاوید میاں داد کو بہت ناگوار گزرا۔مگر اس وقت چونکہ وہ خود بحیثیت کپتان ایک نازک مرحلہ پر کھڑا تھا اور اس کی سرکردگی میں پاکستانی ٹیم بہتر کارکردگی نہیں دکھا پا رہی تھی لہٰذا اس نے وسیم اکرم اور عمران کی دوستی کو گوارا کرلیا۔
عمران خان کی راہنمائی کی بدولت وسیم اکرم نے باؤلنگ کا حیرت انگیز مظاہرہ دکھایا۔جب آسٹریلیا کے ساتھ رن پڑا تو عمران خان نے مڈ آن فیلڈنگ شروع کر دی۔وہ وسیم اکرم کو ہر بال پھینکنے سے بیشتر بیٹسمین کی کمزوری سے آگاہ کرتا اور پھر مناسب ہدایات دیتا۔ وسیم اکرم نے اس بار اپنی زندگی کی بہترین باؤلنگ کرائی اور آسٹریلیا کے پانچ کھلاڑی آؤٹ کئے۔وسیم اپنی اس کامیابی پر بے حد خوش تھا مگر پھر جب انگلینڈ اور انڈیا کے ساتھ میچ ہوئے تو اس کی کارکردگی کا گراف ایک دم نیچے گر گیا۔ البتہ اس کی جگہ عمران خان نہایت کامیاب رہا تھا۔ پاکستان بہترین باؤلنگ سکواڈ کی وجہ سے فائنل تک پہنچ تو گیا مگر انڈیا کے ہاتھوں ہار گیا۔
1984-85ء میں وسیم اکرم کو شارجہ کپ میں شرکت کرنے کا موقع مل گیا۔پاکستان تو شارجہ میں بری طرح ناکام رہا مگر وسیم اکرم عمدہ باؤلنگ کے بعد پہلی بار منجھے ہوئے بلے باز کے روپ میں سامنے آیا۔ اس نے دنیا کے عظیم باؤلروں کو چوکے چھکے لگائے اور یوں وہ شارجہ کے ون ڈے میچوں کا ہیرو بن کر واپس لوٹا تو اس کی دنیا کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے۔ اس نے آتے ہی کارخریدلی اور پہلی بار اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ لاہور بھر کی سیر کی۔
شارجہ سے واپسی کے بعد وسیم اکرم بے تحاشا مصروف ہو گیا۔وہ گھر والوں کو بھی وقت نہ دے پارہا تھا۔ اگرچہ گھر والے اس کی شہرت و عزت افزائی پر اتر رہے تھے مگر وسیم اکرم کا یوں ہفتوں اور مہینوں کے لئے نظر سے دور رہنا انہیں گوارا نہ تھا۔
****
نیوزی لینڈ،آسٹریلیا اور شارجہ کی بین الاقوامی کرکٹ کا مزہ چھکنے کے بعد وسیم اکرم قدرے سیانا ہو گیا۔ اس کی باؤلنگ میں اعتماد آگیا اور بلے بازی نے اسے آل راؤنڈر کی حیثیت میں نمایاں کردیا۔
1985ء کے آخر میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان آئی تو عمران نے وسیم اکرم کی تربیت کا دورانیہ بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اسے ہدایت کی:
’’وسیم!سری لنکا کی ٹیم چونکہ ابھی نئی ہے اور اس کی تربیت کا بھی ہمیں ہی اعزاز حاصل ہے مگر یہ مت بولنا کہ یہ کالی آندھیاں اناڑی ہوں گی۔ان طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تمہیں اپنی جسمانی صحت بھی بہتر کرنا پڑے گی‘‘۔
عمران خان کی ہدایت پر ہی وسیم اکرم نے اپنے ایک دوست انسٹرکٹر کی زیر نگرانی ورزش شروع کی اور اپنی ٹانگوں اور بازوؤں کے پٹھے مضبوط کرنے کے لئے وزن بڑھانے لگا۔ جب اس کی ورزش کا دور ختم ہوا تو سری لنکن پاکستان آچکے تھے۔ لیکن وسیم اکرم کی یہ محنت رنگ نہ لا سکی اور وہ تین میچوں کے دوران زیادوہ وکٹیں نہ لے سکا۔جب کہ عمران خان نے تین میچوں میں اٹھارہ وکٹیں حاصل کرکے وسیم اکرم کو باؤلنگ کے نئے فنون سکھائے۔
عمران وسیم کی صلاحیتوں کا ادراک رکھتا تھا لہٰذا اس نے سری لنکا کے جوابی دورہ سے پیشتر وسیم اکرم کو چند نئے فنون سکھائے اور سمجھایا:
’’وسیم!ایک بات یادرکھو ون ڈے میچوں میں شارٹ پچ کی بجائے یارکر استعمال کیا کرو۔تمہارے پاس بال کرانے کے کم از کم بارہ طریقے ہونے چاہئیں اور ہربال مختلف انداز میں پھینکنی چاہئے۔مثلاً شارٹ پچ، ان سوئنگ، آؤٹ سوئنگ، یارکر، لیگ بریک جو بھی موثر ہتھیار استعمال کر سکتے ہو کرو‘‘۔
’’مگر عمران بھائی!مجھے تو یہ سارے طریقے نہیں آتے‘‘وسیم نے کہا۔
’’تمہیں آتے ہیں۔مگر دھیان نہیں دے رہے۔تم سے اچھا یار کر کوئی نہیں مار سکتا مگر میں حیران ہوں تمہیں یہ معلوم ہی نہیں یار کر کیا کرتی ہے‘‘۔عمران خان نے اسے سمجھایا’’یارکر کے علاوہ ایک اور مشکل ترین طریقہ ہے ریورس سوئنگ کا۔۔۔یہ میرا خفیہ ہتھیار ہے مگر میں تمہیں سکھانا چاہتا ہوں۔تم یہ طریقہ سری لنکن پر آزماؤ گے‘‘۔
پانچویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
اس روز عمران خان نے وسیم اکرم کو ریورس سوئنگ سے آگاہ کیا تو وسیم اکرم خوشی سے ناچنے لگا۔ اگر حد ادب آڑے نہ آتی تو وہ عمران کے ہاتھ چوم لیتا۔ کیونکہ عمران خان نے یہ فن اسے منتقل کرکے اس کی صلاحیتوں کو بڑھا دیا تھا۔ ریورس سوئنگ پاکستانی باؤلروں کا ایک ایسا خفیہ ہتھیار تھا جب بھی استعمال کیا گیا بڑے بڑے بلے بازوں کو پویلین میں واپس جانا پڑ گیا۔
پاکستانی باؤلروں کی ویورس سوئنگ سے بوکھلا کر ہی انگریزوں نے ان پر بال ٹمپرنگ کا الزام عائد کیا تھا۔ مگر عمران خان نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ یہ بال ٹمپرنگ نہیں بلکہ ریورس سوئنگ باؤلنگ کا ایک انداز ہے،چونکہ انگلینڈ، آسٹریلیا ،ویسٹ انڈیز،ساؤتھ افریقہ، نیوزی لینڈ حتیٰ کہ بھارت کی کرکٹ ٹیمیں بھی ریورس سوئنگ کی تکنیک سے ناواقف تھیں لہٰذا انہوں نے پاکستان پر بال ٹمپرنگ کے الزامات عائد کر دئیے۔بال ٹمپرنگ پر بحث و مباحثہ ہوتا رہا مگر جب حساس کیمروں کی مدد سے انگریز بال ٹمپرنگ کی حقیقت تک پہنچے تو ان پر عقدہ کھلا کہ پاکستانی باؤلر پرانی بال سے ریورس سوئنگ کررہے ہیں تو انہوں نے بھی یہ فن سکیھا شروع کیا۔ جب یورپی ٹیموں نے ریورس سوئنگ سیکھ لی تب پاکستان کی بال ٹمپرنگ کے الزام سے خلاصی ہوئی۔
عمران خان نے وسیم اکرم کو نئے باؤلنگ فنون سکھانے کے علاوہ اس کا رن اپ پچیس قدموں سے گھٹا کر سترہ قدم کر دیا اور پھر خود اسے کئی کئی گھنٹے تک باؤلنگ اور بیٹنگ کی پریکٹس کراتا رہا۔ وسیم نے بھی عمران خان کی کوچنگ کا فائدہ اٹھایا اور اس نے ہر طرح کے موسم اور پچوں پر باؤلنگ کرانے کی تربیت مکمل کرلی۔
1986-87ء کے سیزن میں شارجہ کپ کا انعقاد ہوا تو یہ سیزن پاکستان کو بہت راس آیا۔ میاں داد کے چھکے نے پاکستان کو عظیم فتح دلوائی تو وسیم اکرم نے اس میچ میں چار وکٹیں حاصل کیں۔شارجہ سے واپسی کے بعد ویسٹ انڈیز پاکستان آگئی۔ فیصل آباد میں پہلا ٹیسٹ ہوا جس میں قادر کی تباہ کن باؤلنگ کے باعث ویسٹ انڈیز صرف51سکور بنا کر آؤٹ ہوئے۔مگر مین آف دی میچ وسیم اکرم کو ملا۔ اس نے پہلی اننگ میں چھ وکٹیں لیں اور دوسری اننگ میں 66جارحانہ رنز بنائے۔ اگلے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو ہرا دیا۔ اس میچ میں وسیم اکرم فیلڈنگ کرتے ہوئے زخمی ہو گیا اور اسے اگلے ٹیسٹ کے لئے باہر کر دیا گیا۔وسیم اکرم پہلی بار زخمی ہوا تھا اور پھر تو اس کے زخموں کے گویا ٹانکے ہی کھل گئے۔آنے والے دنوں میں وہ ان فٹ ہوتا رہا۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
(دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے)۔