اہل حلب , امت مسلمہ اور ہماری حالت زار ۔۔۔اے میری بہن میں شرمندہ ہوں ۔۔۔۔

اہل حلب , امت مسلمہ اور ہماری حالت زار ۔۔۔اے میری بہن میں شرمندہ ہوں ۔۔۔۔
اہل حلب , امت مسلمہ اور ہماری حالت زار ۔۔۔اے میری بہن میں شرمندہ ہوں ۔۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت اِبن زبیر رضی اللہ عنہ اپنی ضعیف والدہ سیدہ  اسماء بنت صدیق اکبررضی اللہ عنھما سے مخاطب ہیں !!! اماں جان! مجھے موت کا خوف نہیں !! مجھے خدشہ ہے کہ دشمن میری موت کے بعد میری لاش کا مثلہ کرے گا اور وہ منظر آپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا !!!صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی بیٹی کا اپنے بیٹے کو جواب جو عربی زبان میں ضرب المثل کے درجے پر فائز ہو چکا !!!

فرمایا !!! بیٹا جب بکری ذبح ہو جاتی ہے تو اسے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کی کھال کھینچی جا رہی ہے یا اس کی بوٹی بنائی جا رہی ہے !! اللہ پر بھروسہ رکھ !! حق اور سچ کی راہ میں تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا گمراہوں کی غلامی سے ہزار درجہ بہتر ہے !!حضرت سیدہ  اسماء بنت صدیق اکبررضی اللہ عنھما  کے اس ضرب المثل مقولے پر بعد میں بات کرتے ہیں اس سے پہلے میں اپنے ساتھ پیش آیا  واقعہ شیئر کرنا چاہتا ہوں ،وہ پڑھیں ۔۔۔۔
چند روز قبل میں آفس سے شفٹ ختم ہونے کے بعد گھر کے لئے روانہ ہوا تو راستے میں اپنے دیرینہ دوستوں کی محفل میں جانا اور گپیں ہانکنا نہیں بھولا۔۔۔3بجے کے بعد دوستوں کی محفل برخاست ہوئی تو گھر کے لئے روانہ ہوا ،گھر کا جیسے ہی دروازہ کھولا تو بیگم صاحبہ کا غصے سے سرخ چہرہ دیکھ کر ہی سمجھ گیا کہ موصوفہ آج بھی حسب روائت پھر سے میرے دیر گئے گھر آنے پر خفا ہیں لیکن کمرے میں داخل ہونے پر پتا چلا کہ میرے بیٹے عبداللہ کے پیٹ میں شدید درد ہے اور وہ شام سے مسلسل کراہ رہا اور درد سے رو رہا ہے ،میں نے بھی دبے لفظوں میں بیوی پر رعب جھاڑتے ہوئے کہا کہ اگر عبداللہ کی طبیعت اتنی خراب تھی تو مجھے فون کر دیتی ؟بیگم صاحبہ نے ترنت جواب دیا کئی بار فون کرنے کے باوجود آپ کا نمبر ہی نہیں مل رہا تھا ۔۔۔۔

خیر فورا عبداللہ کو گود میں اٹھایا اور ہسپتال کی جانب دوڑ لگا دی ۔۔۔۔رکشہ باہر مارکیٹ سے ملا تو پھولے سانس کے ساتھ اسے سروسز ہسپتال چلنے کے لئے کہا اور کوئی’’ بھاؤ تاؤ‘‘ کئے بغیر ہی آٹو میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔ہسپتال جا کر بھی عبداللہ میری گود میں ہی تھا ۔۔۔میں پھولی سانسوں سے اسے اٹھائے ایمرجنسی کی طرف بھاگا ۔۔۔وہاں پہنچا تو ڈاکٹر نے کہا پر چی بنوا کے لائیں ۔۔۔۔پھر باہر آ کر پر چی بنوائی ۔۔۔پھر ڈاکٹر کے پاس جا کر مسئلہ بتایا ۔۔۔۔۔۔اس نے دوا لکھ کر دی اور کہا کہ الٹرا ساؤنڈ کروا لیں ۔۔۔۔۔۔۔وہاں سے عبد اللہ کو اٹھائے الٹرا ساؤنڈ کے لئے بھاگا ۔۔۔۔لمبی لائن اور عبداللہ کی درد سے کراہنے کی آواز سے ہی کلیجہ پھٹاجا رہا تھا۔۔۔۔خیر یہ مرحلہ بھی سر کیا اور ڈاکٹر کے پاس دوبارہ پہنچا ،اس نے دوا لکھ کر دی ،انجیکشن لگایا اور اگلے روز او پی ڈی میں سپیشلسٹ ڈاکٹر کو چیک کرانے کا حکم دیا ۔۔۔۔

اس ساری ایکسرسائز میں کم و بیش 3گھنٹے لگ گئے ۔۔۔۔ان 3گھنٹوں میں عبد اللہ کو ہونے والی تکلیف نے میری روح بھی زخمی کی اور میرے اپنے بلڈ پریشر کو بھی ہائی کیا ۔۔۔ ان 3گھنٹوں میں کوئی 6بار ہسپتال کے عملے اور ینگ ڈاکٹرز سے تلخی ہوئی اور ایک مرتبہ تو نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی تھی ۔۔۔۔یہ کوئی کہانی یا افسانہ نہیں ہے، اس سے ملتا جلتا اور اپنے پیاروں کو تکلیف میں دیکھ کر کئی ایک کے ساتھ ایسا ہی واقعہ رونما ہوا ہو گا ۔۔۔۔میرے ساتھ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ۔۔۔2سال قبل میری بیٹی مسفرہ جب 4سال کی تھی تو میں نے اسی کرب،اذیت اور تکلیف کا مزہ چکھا تھا ۔۔۔۔۔اللہ کی پناہ ۔۔۔اپنے معصوم بچوں کے ہلکے سے درد کی اتنی تکلیف ۔۔۔لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ ہمیں اتنی تکلیف ا ور اذیت صرف اس وقت ہی کیوں محسوس ہوتی ہے کہ جب اس میں ہمارے اپنے بچے اور اپنے پیارے ’’مبتلا ‘‘ ہوں؟؟؟ ہمیں تو سکھایا گیا ہے کہ
’’اخوت اسکو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں۔۔۔
تو ہندوستان کا ہر پیرو جوان بے تاب ہو جائے ۔۔۔
لیکن کانٹا تو بہت دور کی بات ہے ،اب تو صرف خون مسلم بہایا ہی نہیں جا رہا بلکہ مسلمانوں کے جسموں کو ’’کاٹا ‘‘ بھی جا رہا ہے ۔۔۔معصوم بچوں کے جسموں کا’’ مثلہ ‘‘بنایا جا رہا ہے ۔۔۔باپردہ خواتین کی عصمت دری کی جا رہی ہے ۔۔۔۔نوجوان مسلمان لڑکیوں کو دن دیہاڑے ان کے اہل خانہ کے سامنے درندے نوچ رہے ہیں ۔۔۔کئی باحجاب اور عفت ماب بہنیں اپنی عصمتیں اور عزت و آبرو بچانے کے لئے ’’خود کشی ‘‘ پر مجبور ہیں ۔۔۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب ظلم و ستم دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے ۔۔۔۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا کے52اسلامی ملکوں میں سے کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جو ان مظالم کو روکنے کی سکت یا طاقت نہ رکھتا ہو ۔۔۔اور تو اور حلب سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر امت کی بہترین فوج (ترک فوج) بھی موجود ہے  جو ایک دن میں دشمنان اسلام کو نیست و نابود کر نے کی طاقت رکھتی ہے  مگر وہ بھی حرکت میں نہ آئی۔۔۔

پاکستانی فوج کی تو بات ہی نہ کریں کیونکہ مجھے اپنے بہادر کمانڈوز سے اس کی توقع بھی نہیں ہے ۔۔۔رہ گئی بات پاکستانی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی تو ایسا بھی نہیں ہے کہ ذرا  ذرا سی بات پر ’’ملین مارچ ‘‘ کرنے والے’’ مذہبی جغادری‘‘اس مسلم کشی سے بے خبر ہیں۔۔۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا بھر میں جہاد کے نام پر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے کانوں میں حلب کے مسلمانوں کی چیخیں سنائی نہ دیتی ہوں ۔۔۔ قومی اسمبلی کو’’ مچھلی منڈی ‘‘ بنانے والی تحریک انصاف اور حکمران جماعت بھی حلب کی گلیوں میں بہنے والے خون سے واقف ہے ،لیکن ان کے پاس بھی خون مسلم کے پانی کی طرح بہنے کا نہ صرف  کوئی تدارک نہیں بلکہ  ٹائم بھی نہیں ہے ۔۔۔۔ جماعت اسلامی ،جماعت الدعواۃ،جمعیت علمائے اسلام ،جمعیت علمائے پاکستان ،اہلسنت والجماعت اورپاکستان بھر کی مذہبی جماعتیں دیگر ’’مشاغل اور ایجنڈوں ‘‘ میں مصروف ہیں،ان کے پاس اتنا وقت کہاں کہ حلب کے تڑپتے لاشے دیکھ کر اپنے ’’منہ کامزا ‘‘ کرکرا کریں ۔۔۔۔
آج نجانے کیوں مجھے سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیقؓ کے یہ تاریخی جملے مسلسل ’’کچوچکے ‘‘ لگا رہے ہیں ؟؟؟مسلسل جھنجوڑ رہے ہیں ،لیکن دوسرے ہی لمحے میں بھی حکمرانوں اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کی طرح پھر سے ان’’ کچوکوں ‘‘اور جھنجلاہٹ سے باہر نکل آتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ حلب میں مرنے والا میرا بیٹا ’’عبد اللہ فاروقی ‘‘ تو نہیں ہے ۔۔۔۔ٹکڑوں میں بٹا ہوا معصوم جسم میری ایک سالہ بیٹی ’’حاجرہ ‘‘کا تھوڑی ہے جو آنکھوں میں نمی کا سبب بنے ۔۔۔سوشل میڈیا پر حلب میں ہونے والی بمباری اور سڑکوں پر بکھرےمعصوم لاشے دیکھ کر ایک لمحے کے لئے ’’بھٹک ‘‘ گیا تو فورا کمرے میں جھانک کر دیکھا، میری 7سالہ معصوم بیٹی اور دل کا ٹکڑا رحما فاروقی چشمہ لگائے اور 6سالہ مسفرہ اپنے ٹوٹے پھوٹے کھلونوں کے ساتھ اچھل کود میں مصروف تھیں،ان معصوم کلیوں کو کھیلتا دیکھ کر یکلخت میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور حلب میں اپنے معصوم بچوں کے ٹکڑے دیکھ کر بین کرتی اور دہائی دیتی ’’ماں ‘‘ کی چیخیں میری بھی سماعتوں سے ٹکرا کر دور کہیں کھو گئیں۔۔۔۔

سڑکوں پر بہتا لہو ،ملبے تلے دبی سسکیاں اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچوں کی ناقابل شناخت لاشیں بھی میرے ’’مردہ ضمیر ‘‘ کو بیدار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔۔۔ کچھ لمحوں کے لئے سوشل میڈیا پر اس ’’بوڑھے باپ‘‘کی وہ تصویر دیکھ کرتو ایک ساعت کے لئے میں بھی کانپ گیا تھا جس میں ’’حلب ‘‘ کا وہ مظلوم باپ اپنی ننھی بیٹی یا معصوم بیٹے کے 2ٹکڑے دونوں ہاتھوں میں اٹھائے بڑی بے بسی سے آسمان کی طرف تک رہا تھا اور آنسو اُس کی آنکھوں سے مسلسل رواں تھے ۔۔۔اس مظلومیت بھری تصویر کو دیکھ کر ہو سکتا ہے کہ میں بھی ’’بہک ‘‘ جاتا اورقلم تھام کر اپنی بے بسی کا نوحہ لکھنا شروع کر دیتا ،لیکن دوسرے ہی لمحے ’’گمراہی ‘‘ کے یہ لمحات بھی فورا گزر گئے ۔۔۔گذشتہ کئی دنوں سے مسلمانوں پر حلب میں ہونے والے مظالم دیکھ دیکھ کر بھی میرا دل نہیں پگھلا ۔۔۔۔ شائد میری طرح حکمران طبقہ،اپوزیشن جماعتیں ،مذہبی تنظیمیں اور جہاد کے نام پر اپنی دوکانیں چمکانے والے بھی حلب کی چیخوں کو سننے سے عاری ہیں؟؟؟ ۔۔۔۔ شائدمیری طرح ان کی بصارتیں بھی اقتدار کی چکا چوند اور دنیا کی رنگینیوں میں کھو چکی ہیں ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیقؓ کے اپنے بیٹے کو کہے ہوئے وہ تاریخی جملے حلب میں موجود مائیں، بہنیں اور بے بس باپ ہر گھر کے دروازے سے جھانک جھانک کر دہرائے چلے جا رہے ہیں !!!لیکن حلب سے باہر ان جملوں کو سننے والا کوئی نہیں ۔۔۔۔

سوشل میڈیا پر حلب میں عصمت دری کے خوف اور اپنی عزت و آبرو بچانے کے لئے خود کشی کرنے والی ایک ’’بہن ‘‘ نے خود کشی سے قبل مسلم امہ کے نام خط لکھا ۔۔۔۔لیکن حرام ہے کہ اس خط کے ’’تیروں جیسے الفاظ‘‘ بھی ہمارے سینے میں پیوست ہو سکے ہوں یا ان خون سے لتھڑے لفظوں کی کاٹ سے ہمارے سوئے ہوئے ضمیر بے دار یا خواب غفلت سے جاگ سکے ہوں  ۔۔۔میں حلب میں  گاجر مولی کی طرح کٹنے ،بمباری سے لتھڑوں میں تقسیم ہونے والے بچوں ، اپنی آبرو بچانے اور پاک دامنی کے ساتھ  خود کشی جیسا ’’گناہ ‘‘ کر کے  اللہ کے حضور پیش ہونے والی بہن سے شرمندہ ہوں ۔۔۔۔اپنی اس بہن کا خون آلود خط پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ صرف حلب میں ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ میں کوئی ایک بھی ’’مرد ‘‘ نہیں بچا ۔۔۔اس لئے میری بہن ۔۔۔تم نے تو اپنی آبرو بچانے کے لئے جان دے دی لیکن تمہیں اندازہ نہیں کہ ہم نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنی آبرو بیچ دی ۔۔۔۔تم نے اپنی عصمت دری کے خوف سے ہنستے ہوئے موت کو گلے لگا لیا لیکن ہم نے موت کے خوف سے اپنی عسمتیں اپنے ہاتھوں سے تار تار کر دیں ۔۔۔میری بہن تم نے ٹھیک کہا کہ ایک عورت ماں ،بہن اور بیٹی ہوتی ہے ۔۔۔۔لیکن میری بہن کیا تیرے علم میں نہیں کہ ہم ان مقدس رشتوں کو کب کے بھلا چکے ہیں۔۔۔

ہم ان رشتوں کی قدر و منزلت کھو چکے ہیں ۔۔۔اسی لئے تو ہمیں اپنی بہنوں کی چیخیں سناٹوں میں بھی سنائی نہیں دیتیں اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک کبھی ہمیں خوابوں میں بھی نہیں ڈرا سکا ۔۔۔۔اے میری بہن ۔۔۔کوئی جو مرضی کہے ۔۔۔جن حالات میں تم نے موت کو اپنے گلے لگایا ہے اس کے ذمہ دار ہم ہیں ’’تو ‘‘ نہیں ۔۔۔تمہیں پورا اختیار ہے کہ تو کل قیامت کے روز ہمارے گریبان پکڑ کر ہم سے اپنی موت کا حساب لے ۔۔۔۔

اے میری بہن میں تم سے شرمندہ ہو ں۔۔۔میں تمہارے لئے اور کچھ نہیں کر سکتا لیکن تمہارے الفاظ پوری مسلم امہ تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔ہو سکتا ہے کہ ہمیں نہ سہی کسی اور کے دل پر تمارے الفاظ نشتر کا کام کر جائیں اور حلب کی باقی ماندہ بہنیں خود کشی سے بچ جائیں ۔۔۔۔حلب کی اس بہن کے خود کشی سے قبل کے الفاظ پڑھیں وہ لکھتی ہے کہ۔۔۔۔ میں ان خواتین میں سے ایک ہوں جنھیں چند لمحوں بعد بدکاری و زیادتی کا نشانہ بنایا جائے گا کیوں کہ اب ہمارے اور ان درندوں کے بیچ (جنھیں ملک کی فوج کہا جاتا ہے) کوئی ہتھیار یا مرد نہیں رہے۔۔۔۔مجھے آپ لوگوں سے کچھ بھی نہیں چاہیے، حتی کہ میں آپ سے دعا بھی نہیں چاہتی کیوں کہ میں ابھی اس قابل ہوں کہ بول سکوں اور میرے خیال میں میری دعا۔۔۔ آپ کے الفاظ سے زیادہ سچی ہے۔۔۔۔۔میں خودکشی کرنے جا رہی ہوں اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تم مجھے جہنمی کہو۔۔۔۔میں خود کشی کر رہی ہوں کیوں کہ میں اپنے مرحوم باپ کے گھر میں ثانت قدم نا رہ سکی، جو لوگ حلب چھوڑ گئے ان سب کو دیکھ کر میرے باپ کا دل جل گیا تھا۔۔۔۔میں بغیر کسی وجہ کے خود کشی نہیں کر رہی، بلکہ اس لیے اپنی جان دے رہی ہوں کہ بشاری فوج کے درندے میری عصمت سے کھلواڑ نا کر سکیں، جبکہ کل ہی کی تو بات ہے کہ وہ حلب کا نام لیتے ہوئے ڈرتے تھے۔۔۔میں خود کشی کر رہی ہوں کہ یومِ حساب، یومِ قیامت حلب میں برپا ہو چکا ہے اور میرا نہیں خیال کہ جہنم کی آگ اس سے بڑھ کر ہو گی۔۔۔میں خود کشی کر رہی ہوں، اور میں جانتی ہوں کہ آپ سب میرے جہنم میں داخلہ بارے متفق ہوں گے اور یہ وہ واحد چیز ہو گی جس پر آپ سب متفق ہوں گے۔۔۔ ایک عورت کی خودکشی پر۔۔۔ وہ عورت جو آپ کی ماں، بہن یا بیٹی نہیں بلکہ ایک ایسی عورت جس سے آپ کا کوئی رشتہ ناطہ نہیں۔۔۔میں اس بات پر اختتام کروں گی کہ آپ کے فتاوی میرے لیے لا یعنی ہیں، لہذا انھیں اپنے لیے اور اپنے خاندانوں کے لئے سنبھال کر رکھیئے۔۔میں خود کشی کر رہی ہوں۔۔۔اور جب آپ یہ سب پڑھ رہے ہوں گے، میں پاکدامنی کیساتھ مر چکی ہوں گی۔۔۔۔۔

سیدہ  اسماء بنت صدیق اکبررضی اللہ عنھما  نے شائد  حلب والوں کے لئے ہی کہا تھا کہ  !!! جب بکری ذبح ہو جاتی ہے تو اسے کیا فرق پڑتا ہے کہ اُس کی کھال کھینچی جا رہی ہے یا اُس کی بوٹی بنائی جا رہی ہے !!  لہذا حلب والو اللہ پر بھروسہ رکھو !! حق اور سچ کی راہ میں بموں اور گولوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا گمراہوں کی غلامی سے ہزار درجہ بہتر ہے !!!

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

(خالد شہزاد فاروقی کل وقتی صحافی اور نجی ادارے میں بطور نیوز ایڈیٹر وابستہ ہیں ،آپ ان سے ksfarooqi@gmail.com پر رابطہ کر سکتے ہیں)

مزید :

بلاگ -