ضیا شاہد کی ایک دلچسپ اور کارآمد کتاب
ضیا شاہد ہماری قومی صحافت کا ایک ممتاز نام ہے۔ موصوف روزنامہ ’’خبریں‘‘ کے چیف ایڈیٹر اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے صدر ہیں۔
ان کی علمی و صحافتی خدمات کے اعتراف میں صدر پرویز مشرف کے دور میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھوں ’’لائف اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔
وہ پاکستان کی تاریخ و سیاست پر قریباً ایک درجن کتابیں لکھ چکے ہیں۔
ان میں سے ’’عقابوں کا نشمین‘‘۔۔۔’’گاندھی کے چیلے‘‘۔۔۔ پاکستان کے خلاف سازش اور قائداعظمؒ کی زندگی کے سبق آموز واقعات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
زیر نظر کتاب ’’باتیں سیاست دانوں کی‘‘ ان کے قلم سے نکلی ہوئی بارہویں تصنیف ہے، جس میں انہوں نے پاکستان کے21مشہور و ممتاز سیاست دانوں، جرنیلوں اور حکمرانوں سے متعلق دلچسپ واقعات و مشاہدات بیان کئے ہیں
اِن ممتاز شخصیات میں نوابزادہ نصراللہ خان، ایئر مارشل اصغر خاں، مولانا مودودیؒ ، قاضی حسین احمد، صدر ایوب خاں، جنرل یحییٰ خان،جنرل ضیاء الحق، صدر غلام اسحاق خان،قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور سردار عبدالرب نشتراور عمران خان شامل ہیں۔ کتاب میں عمران خان کے حوالے سے جو باب قلم بندکیا گیا ہے، شاید وہ سب سے زیادہ طویل اور دلچسپ ہے۔
اِس طوالت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ مصنف عمران خان کے معدودے چند دوستوں میں شامل تھے، جنہوں نے عمران خان کی پارٹی ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ کا نام تجویز کیا۔ اِس کا منشور تیار کرنے میں مدد دی اور تحریک کو عوام میں مقبول عام بنانے میں کردار ادا کیا۔
دوسری وجہ یہ لگتی ہے کہ عمران خان ہماری موجودہ سیاست کے پہلوان ہیں۔ انہوں نے کرکٹ کے میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی، پھر شوکت خانم ہسپتال قائم کر کے فلاح عام کی دُنیا میں ممتاز مقام حاصل کیا، نیز برطانیہ کے ایک انتہائی دولت مند یہودی خاندان کی دوشیزہ جمائما خان سے شادی رچا کر جو شہرت کمائی، مصنف ان سے بہت زیادہ متاثر لگتے ہیں، تاہم 80صفحات (صفحہ نمبر 341 تا صفحہ420) پر پھیلی ہوئی طویل داستان دلچسپ ہونے کے باوجود قاری کو بور کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس ہماری قومی سیاست کے ایک ممتاز و مقبول رہنما نوابزادہ نصر اللہ خاں کا تذکرہ محض چند صفحات پر مشتمل ہے،اِسی طرح مولانا مودودیؒ ، سردار عبدالرب نشتر اور جنرل ایوب خاں کی بابت بھی بہت مختصر لکھا گیا ہے۔
حد یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے ان تین کارناموں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے جن کا مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں۔۔۔ ہماری مراد 1973ء میں آئین کے نفاذ، مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے اور قوم کے بے مثال ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو لندن سے پاکستان لا کر ان سے ایٹم کا منصوبہ بنانے میں بھٹو نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، نامعلوم کیوں مصنف ان ساری باتوں کو گول کر گئے اور قائد عوام کی پھانسی کے واقعہ کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے۔
کتاب کے مطالعہ کے دوران مصنف کی یہ خامی بڑی کھٹکتی ہے کہ وہ اہم واقعات کا ذکر کرتے ہوئے اس واقعہ کے رونما ہونے کی تاریخ اور سال چھوڑ جاتے ہیں اور اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ انہیں تاریخ اور دن یاد نہیں رہتے۔
ایسی صورت میں انہیں اہم واقعات اپنی ڈائری میں نوٹ کرنے چاہئیں اور اپنے مشاہدات و تاثرات کو قلمبند کرتے وقت ڈائری سے استفادہ کرنا چاہئے تاکہ قارئین تک سن اور تاریخ سمیت مکمل حالات پہنچ سکیں۔
ان دو تین چھوٹی موٹی خامیوں کے باوجود یہ ایک دلچسپ اور کارآمد کتاب ہے،جس میں سیاست دانوں کے اندرون خانہ حالات، تاریخ پاکستان کے اہم واقعات اور بعض سیاست دانوں کے گھناؤنے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
وطن عزیز آج کل جس بحران سے دوچار اور جن مسائل کا شکار ہے، مصنف نے اس کا تجزیہ بڑے معنی خیز الفاظ میں کیا ہے۔عمران خان کے زیر عنوان صفحہ383 سے386 تک جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ بطور خاص پڑھنے کے لائق ہے۔
یہاں مصنف نے قوم و ملک کو درپیش مسائل کی دُکھ بھرے دِل کے ساتھ نشاندہی کی ہے اور حکمرانوں کی توجہ ان کی طرف مبذول کرانے کی زبردست کوشش کی ہے۔۔۔دیدہ زیب گیٹ اور مضبوط جلد کے ساتھ420 صفحات پر پھیلی ہوئی اور عمدہ کاغذ پر بڑے حروف میں چھپی ہوئی اِس کتاب کی قیمت 1200روپے ہے جو مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں اور اپنی الماریاں خوبصورت کتابوں سے سجانے والوں کے لئے گراں نہیں، جو قارئین ملک کی سیاست اور تاریخ کے مطالعہ سے دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔اس کے مطالعہ سے ان کی معلومات میں بہت سا اضافہ ہو گا۔