دلبرداشتہ سپیکر۔۔۔۔۔سیکرٹری سیفران!

دلبرداشتہ سپیکر۔۔۔۔۔سیکرٹری سیفران!
 دلبرداشتہ سپیکر۔۔۔۔۔سیکرٹری سیفران!

  

’’ہاتھوں میں پکڑے طوطے اور منڈیر پر بیٹھے کبوتر کہیں سب سے ہی ہاتھ دھونا نہ پڑ جائیں، حالات تو اسی طرف جارہے ہیں ، سپیکر قومی اسمبلی کے بیان سے تو یہی تاثر ملتاہے ‘‘پارلیمنٹ کی غلام گردشوں میں ایک صاحب سر راہ باآواز بلند اپنے دوسرے ساتھی سے محو گفتگو تھے دوسرے شخص نے جواباًکہا کہ ’’یہ کیا ماجرا ہے سپیکر ایاز صادق تو شریف خاندان بالخصوص میاں صاحب کے انتہائی اعتماد کے شخص گردانے جاتے ہیں ، اس لئے ایاز صادق نے یہ بیان ضرور انہی کے کہنے پر داغا ہوگاکہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو جن حالات کا سامنا ہے اسے آشکار کرکے ہمدردیاں حاصل کی جائیں اور اسمبلیوں کی مدت کے حوالے سے بے یقینی میں اضافہ کرکے پارلیمنٹ میں ناراض سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کی جاسکے ‘‘اس نے اسی بات کا وزن بڑھانے کیلئے وضاحتی انداز میں کہا کہ ’’سپیکر کی بات کو ہر شخص سنجیدگی سے لے رہاہے کیونکہ بلحاظ عہدہ نہ صرف با خبر ہوسکتے ہیں بلکہ ایسے وقت میں جب حکومتی زعماء کو عوام شائد سیاسی لحاظ سے اس طرح سنجیدگی سے نہ لیتے جس طرح سپیکر کو لے رہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن رہنماء خورشید شاہ نے بھی سپیکر ایاز صادق کے سر میں ہی سر ملا یا ہے‘‘دارالحکومت میں سپیکر کے بیان پر مختلف سازشی تھیوریاں اور اس طرح کے تبصرے جاری ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن اپنے آغاز سے ہی پارلیمنٹ کے اندر جوڑ توڑ اور سیاسی مینجمنٹ کے حوالے سے قدرے کمزور رہی، لیڈر آف دی ہاؤس اور لیڈر آف اپوزیشن میں مطلوبہ تال میل کا فقدان رہا، چیف وہیپ شیخ آفتاب کا بھی ان کی ہومیو پیتھک شخصیت کی بدولت پارلیمنٹ میں کوئی موثر کردار کبھی نہیں رہا ، تاہم سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی مضبوط قیادت اور شخصیت نے ان تمام کمزوریوں کا احاطہ کر رکھا تھا ، لیکن اقتدار سے انکی رخصتی سے ’’زیر عتاب ‘‘پاکستان مسلم لیگ ن کو پارلیمنٹ میں غیر معمولی پر خطر حالات کا سامناہے ،یہاں یہ امر سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ جب ن لیگ کی حکومت اپنے پورے زوروں اور جوبن پر تھی تو اس وقت بھی اس کے رہنماؤں نے اپنے مخصوص رویہ کی بدولت پارلیمنٹ میں کوئی بہت عمدہ جمہوری اقدار کی افزائش نہیں کی تو ایک ایسے وقت میں جب پوری ن لیگ ’’پل صراط‘‘ سے گزر رہی ہو اور اسے ایک شدید’’ اعصابی حملے ‘‘ کا سامنا ہو تو پارلیمنٹ میں اس کیلئے چیلنجز میں بے پناہ اضافہ یقینی تھا ، ن لیگ کے پارلیمانی جمہوریت کے قدرے کمزور ماضی اور حالیہ عتاب ‘‘کے بعد پارلیمنٹ میں نظر دوڑائیں تو سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی ہی ایک ایسی شخصیت نظر آتی ہے جس نے ن لیگ کو قومی اسمبلی میں بارہا منجدہار سے نکالا قومی اسمبلی کی بساط پر بسا اوقات حکومت تو بہت حد تک بے بس نظر آئی لیکن حلقہ بندیوں جیسا اہم اور حساس معاملہ قومی اسمبلی میں آیا تو اپوزیشن پکڑائی نہیں دے رہی تھی ، اس میں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کلیدی کردار ادا کیا سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی نااہلی کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے نہ صرف ایوان کو چلایا بلکہ ایوان کے اندر ن لیگ کو بھی مکمل طورپر اپنا کندھا فراہم کررہے ہیں ،لیڈر آف دی ہاؤس اور چیف وہپ کے بالواسطہ فرائض انجام دیتے ہوئے دیگر جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں سے بھی تمام معاملات انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں ۔

سپیکر قومی اسمبلی ہاؤس اور پارلیمانی جمہوریت کسٹوڈین کا بھی درجہ رکھتے ہیں اس حوالے سے انہوں نے بلاشبہ خطرے کی گھنٹی بجاکر سب کو خبردارتوکردیا ہے سپیکر ایا ز صادق کو ایک طرف تو ایوان کے اندر اور باہر چو مکھی لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے ،وہیں کچھ اشارے ایسے ملتے ہیں کہ سپیکرکو وزیرا عظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی حکومت کی جانب سے وہ حمایت میسر نہیں جس کے نہ صرف وہ حقدار ہیں بلکہ یہ پارٹی کے مفاد میں بھی ہے ، اگرقومی اسمبلی میں گزشتہ کچھ عرصہ سے ہونے والے واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ حکومت کی جانب سے ایوان کے بعض انتہائی حساس معاملات کو بھی غیر سنجیدہ اندا زمیں لیا جارہاہے ، کورم کے عمومی معاملات سے لے کر اہم ترین قانون سازی کے مواقع پر بھی حکومت کی جانب سے معنی خیز خاموشی نے سپیکر کو دلبرداشتہ کیا ہے ، تازہ ترین معاملہ فاٹا ریفارمز کا ہے جس کے بارے میں سپیکر نے قبل از وقت انتباہ کیا تھا جبکہ حلقہ بندیوں کے معاملہ پر بھی سپیکر نے قومی اسمبلی میں معاملے کو جس انداز میں نمٹایا اس کا فالو اپ سینٹ میں نظر نہیں آیا، حتیٰ کہ سپیکر ایاز صادق کی جانب سے حکومتی گورننس پر بھی تحفظات کے اشارے ملتے ہیں ۔

اس کی سب سے سنگین مثال سپیکر کی جانب سے طلب کیئے جانے کے باوجود وفاقی سیکرٹری سیفران کا ایوان میں نہ آنا ہے ، جس پر جب سپیکر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں تین روز کیلئے معطل کرنے کی سفارش کی تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ان کی سفارش ہوا میں اڑادی ، کیونکہ سیکرٹری سیفران ملک کی’’ اعلیٰ ترین شخصیت ‘‘کے قریبی رشتہ دار ہیں۔سپیکر اس حکومتی رویہ سے اس قدر نالاں ہیں کہ وہ دوروز سے ایوان میں نہیں گئے،ان کے بیان میں ان کی یہ فرسٹریشن بھی شاید پنہاں ہے ۔

مزید :

کالم -