علامہ اقبال ٹاؤن کے قبرستانوں میں قبضے کی اندرونی کہانی!

علامہ اقبال ٹاؤن کے قبرستانوں میں قبضے کی اندرونی کہانی!
 علامہ اقبال ٹاؤن کے قبرستانوں میں قبضے کی اندرونی کہانی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

علامہ اقبال ٹاؤن کریم بلاک کا قبرستان لاہور کے میانی صاحب کے بعد سب سے بڑا قبرستان ہے۔نشتر بلاک کا قبرستان متصل تو نہیں، البتہ کریم بلاک اور نشتر بلاک ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے قریب ضرور ہیں، بھیکے وال، سکندر بلاک عمر بلاک کے قبرستان علیحدہ ہیں۔چند ماہ سے کریم بلاک کے قبرستان میں ہاؤس فل کا بورڈ لگا دیا گیا تھا۔ بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کے یونین کونسل ناظم منتخب ہونے کے بعد یو سی کے دفتر کے قبضے کا معاملہ ہوا تو قبرستان کمیٹیاں خودبخود زد میں آتی چلی گئیں گزشتہ 14سال سے مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے دوست قبرستان کمیٹی کے روح رواں تھے۔ یونین کونسل کا چیئرمین قبرستان کمیٹی کا چیئرمین بھی چلا آ رہا تھا۔ حلقہ بندیوں کی تبدیلی کی وجہ سے قبرستان کمیٹی کے چیئرمین کی یو سی بدل گئی۔ بھیکے وال اور کریم بلاک کی یونین کونسل علیحدہ ہونے کے بعد یونین کونسل کے دفتر کے حصول کا تنازعہ ایسا چلا کہ قبرستان کمیٹی کا پنڈورا بکس کھلتا چلا گیا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کریم بلاک قبرستان کمیٹی کے دفتر کے اندر یونین کونسل کا دفتر بھی موجود ہے اس طرح قبرستان کمیٹی اور یوسی 215 کا دفتر لازم ملزوم ہیں۔ یونین کونسل کا دفتر لیتے ہوئے قبرستان کمیٹی پر قبضہ کی گونج لاہور ہائیکورٹ تک جا پہنچی میں صحافت کے ساتھ قانون کا طالب علم ہونے کے ناطے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی اکبر قریشی کو سلام پیش کرتا ہوں انہوں نے علامہ اقبال ٹاؤن کے دو قبرستانوں کا بالعموم اور میانی صاحب اور دیگر قبرستانوں کا کیس بالخصوص اس دلچسپی سے سنا۔قبرستانوں میں سرگرم مافیا کو نہ صرف ہلا کر رکھ دیا۔ نشتر بلاک اور کریم بلاک قبرستانوں کی کمیٹی ایک ہے۔ اس لئے گزشتہ 6ماہ سے سب سے زیادہ شکایات نشتر بلاک کے حوالے سے یہ آ رہی تھیں۔ اگر کوئی اپنی والدہ محترمہ کو دفن کرنے کے لئے میت لے کر آتا ہے تو ان کو گورکن یا چوکیدار پوچھتا ہے۔ آپ کے والد محترم زندہ ہیں تو ان کی قبر بھی ساتھ ہی بک کروا لیں۔20 ہزار سے 60ہزار روپے تک درجنوں قبروں کی ایڈوانس بکنگ کے کیس سامنے آئے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے نڈر اور بے باک جسٹس علی اکبر قریشی کو جب نشتر بلاک اور کریم بلاک پر قبضے کی اندرونی کہانی معلوم ہوئی تو ان کی دلچسپی بھی بڑھتی چلی گئی۔


مسلم لیگی رہنما عبدالمجید منہاس اور چیئرمین یونین کونسل و صدر قبرستان کمیٹی عظمت چودھری کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے مشکل حالات میں، مرنے مارنے کی دھمکیوں کے باوجود میدان نہیں چھوڑا۔ لاہور ہائیکورٹ کے نشتر بلاک قبرستان سب سے بڑی شخصیت کے زیر استعمال جگہ خالی کرانے کا حکم SHO کو دیا۔ پہلی دفعہ SHOبھی خوفزدہ ہو گیا۔ اگلی سماعت میں جسٹس علی اکبر قریشی نے SHO کو بلا کر کہا اگر تم نہیں کرو گے تو آئی جی کو بلاؤں گا۔LDA،ٹاؤن انتظامیہ سب کو جب ایک ساتھ آپریشن کا حکم دے کر 8دن میں دیوار بنانے کی ہدایت کی تو میرے سمیت تمام ممبران مصروفیت کا بہانہ بنا کر منظر سے غائب رہے۔نفیس نامی SHO کو بھی سلام ٹاؤن انتظامیہ ایل ڈی اے کے عملے نے بٹ نامی شخص جو خود ساختہ قبرستان کمیٹی کا صدر بنا ہوا تھا۔اس نے قبرستان میں درجنوں بھینس، گائے سینکڑوں کبوتر، مور، تیتر، بٹیر ، بکرے بکریاں اور شیر تک رکھے ہوئے تھے۔ خوفناک چہروں والے پہرے دار رکھے ہوئے تھے۔ ہر طرف جنگل کا قانون تھا قبرستان علاقہ غیر بنا ہوا تھا۔ عظمت چودھری کی عظمت کو سلام ، مسلم لیگی عبدالمجید منہاس کو اللہ لمبی صحت والی زندگی عطا فرمائے۔ پہلے نشتر بلاک قبرستان سے 13کنال 7مرلے زمین واگزار کرائی اور ایک ہفتے میں چار دیواری مکمل کرائی۔ چوکیدار گورکن فارغ کئے اور نیا عملہ بھرتی کیا۔ کریم بلاک میں بھی قبروں کی امانت زمین کو ذاتی جاگیر بنانے کا عمل لنگر خانے مزارات کی آڑ میں جاری تھا اس پر بھی لاہور ہائی کورٹ نے دبنگ فیصلہ دیا۔ زمین خالی کروائی گئی تو اہل علاقہ کی خوش دیدنی تھی مگر وہ مافیا سکتے میں تھا جن کے خلاف پندرہ پندرہ ہزار میں قبریں فروخت کرکے رسیدیں 3سے 4ہزار کی جاری کرنے اور نہ کرنے کے ثبوت سامنے آ رہے تھے۔ نشتر بلاک قبرستان میں ایک ایک فیملی کی دس دس قبریں ایڈوانس بک کروانے اور احاطے بنا کر قبضے کی کہانی سامنے آئی ہے۔
علامہ اقبال ٹاؤن کے رہائشی خوش تھے اب ان کو اپنے علاقے میں قبر مل سکے گی۔قبرستان کمیٹی جو عظمت چودھری کی صدارت اور مجید منہاس کی چیئرمین شپ اور منصور امین کی وائس چیئرمین شپ میں دیگر تقریباً 14ممبران پر مشتمل ہے۔ اس میں بیشتر چیئرمین اور وائس چیئرمین ہیں۔ آدھے ممبران کا تعلق(ن) لیگ سے ہے ،کیونکہ سہیل بٹ سے لے کر عابد ارائیں تک سب ن لیگ کے منتخب ہیں۔ اجلاس میں میری درخواست پر متفقہ فیصلہ ہوا قبرستان کمیٹی غیر سیاسی ہوگی۔ ممبران کسی پارٹی یا جماعت یا گروپ کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ نشتر اور کریم بلاک کے قبرستانوں کو مثالی بنائیں گے۔ قبر 4ہزار میں ملے گی اس میں گورکن کی فیس اور سیمنٹ کی سیلیں شامل ہوں گی اگلے مرحلے میں عرصہ سے موجود ایمبولینس جو ناکارہ کھڑی ہے اس کے پرزے غائب ہیں نئی ایمبولینس خریدی جائے گی۔ غریب افراد کے لئے قبرستان کمیٹی فنڈ ریزنگ کرے گی۔ فوتگی کی اطلاع ملنے پر میت کو گھر سے قبرستان لانے کے لئے مفت ایمبولینس کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ اگر کوئی قبر کے پیسے نہ دے سکے تو مخیر حضرات سے جمع کئے گئے فنڈ سے دفنایا جائے گا۔ لاہور ہائیکورت نے واضح حکم دیتے ہوئے کہا تھا قبرستانوں کے تمام گیٹ پر چسپاں کر دیا جائے ان قبرستانوں میں صرف انہی علاقوں کے رہائشی دفنائے جا سکیں گے۔ قبضہ مافیا جو بظاہر پس پردہ چلا گیا تھا اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ علامہ اقبال ٹاؤن کے رہائشیوں کو بھیکے وال کے فوت ہونے والے رہائشیوں کو علامہ اقبال ٹاؤن میں دفنانے کی اجازت نہیں ہے۔ سبزہ زار قبرستان، ہنجروال قبرستان میں دفنانے کی اجازت نہیں ہے۔


اقبال ٹاؤن کا رہائشی ماڈل ٹاؤن، کلفٹن کالونی میں دفن نہیں ہو سکتا۔ لاہور ہائیکورٹ کے دوٹوک احکامات کو اس مافیا نے غنیمت جانا اور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ۔وارث کالونی کے ایک فوت ہونے والے کی میت چوک میں رکھ کر عظمت چودھری اور میاں محمود الرشید پی ٹی آئی کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور پولیس کی موجودگی میں قبرستان کمیٹی کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور زبردستی میت دفنائی گئی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی وارث کالونی اور ملحقہ علاقوں میں قبروں کی سیاست کرنے والوں نے باقاعدہ مہم چلائی کہ فلاں کی والدہ کی قبر میاں اشفاق انجم نے کریم بلاک میں نہیں بنانے دی حالانکہ نہ میرا استحقاق ہے کسی کی قبر بنانے کا یا روکنے کا عظمت چودھری جو گزشتہ 14سال کا ریکارڈ حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں بتا رہے تھے کہ وارث کالونی کی ایک شخصیت نے فارغ کئے جانے والے چوکیدار کم گوگن سے سازباز کر رکھی تھی دو ہزار روپے کی رسید کاٹی جاتی تھی ایسے ایسے خوفناک انکشاف ہو رہے ہیں بہت سے قبر فروشوں کی سیاست منطقی انجام تک پہنچنے والی ہے۔ مصطفی ٹاؤن میں ایل ڈی اے حکام نے اگر قبرستان نہیں بنایا تو اس کے خلاف جلوس اور مظاہرہ ہونا چاہیے۔ منصورہ وارث کالونی مصطفی ٹاؤن کے رجسٹرڈ قبرستان ہنجر پیر میں اگر مردے دفنانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تو ان کے خلاف سڑکوں پر آنا چاہیے نہ کہ ہائیکورٹ کے احکامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے کریم بلاک قبرستان کی نئی کمیٹی کو صرف اس لئے نشانہ بنایا جائے ۔وارث کالونی اور مصطفی ٹاؤن کی مساجد میں سپیکرز پر اعلانات کی دھمکی دے کر مردے دفنائے جائیں اور 15ہزار لے کر دو اور تین تین ہزار روپیہ جمع کرایا جائے۔ خدارا اس غلیظ سیاست سے تائب ہو جائیں ورنہ عذاب الٰہی دنیا اور آخرت میں ہمارا منتظر ہے۔آخر میں مصطفی ٹاؤن ،وارث کالونی منصورہ کے رہائشیوں سے درخواست ہے معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کی جائے قبروں کی سیاست کرنے والوں کے شر سے بچنا چاہیے۔

مزید :

کالم -