سانحہ مشرقی پاکستان اور موجودہ کے حالات
نریندر مودی جب سے بھارتی وزیر اعظم بنے ہیں اُنھوں نے پاکستانیوں کو نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کا بھولا ہو اسبق خود یاد کروادیا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد پاکستان دشمنی میں جل بھن رہی ہیں۔ یوں یہ دونوں آپس میں شیر و شکر ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی مودی سے دوستی کے لیے آخری حد تک گئے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر موددی نے بنگلہ دیش میں اپنے دورے کے دوران یہ زہر اُگلا کہ ہاں ہم نے ہی مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ خود بھی پاکستان توڑنے میں شامل تھا۔ اِسی طرح بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد پاکستان کے خلاف ایک ایسی نفرت کا اظہار کررہی ہیں کہ جس کی مثال آج کل کی مہذب دنیا میں نہیں ملتی۔ حسینہ واجد اپنے ہی ہم وطنوں کو پھانسی پر لٹکا رہی ہے جنہوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت پاکستان بننے کی جد وجہد کی تھی، اُس وقت ظاہرہے اُن کا ملک پاکستان تھا اُنھوں نے اپنے وطن سے وفاداری نبھائی تھی۔ بعد میں وہی سیاسی رہنماء بنگلہ دیش کی سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ حتی کہ وہ بنگلہ دیش کی حکومت میں بھی شامل رہے اب اُن سیاسی رہنماؤں کو جو اِس وقت بزرگی کی عمر کو پہنچے ہوئے ہیں اُن کو اُس وقت پاکستان سے محبت کرنے کی سزا دی جارہی ہے اور اُن کو ایک نام نہاد عدالتی ٹریبیونل کے ذریعے سے پھانسی دی جارہی ہے۔ پاکستان سے دشمنی کی بدترین مثال قائم کرکے شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی بھاری وزیراعظم نریندری مودی کی ہم رکاب بنی ہوئی ہے۔ اب جو ذرا پاکستان کے موجودہ منظر نامے کی طرف نظر دوڑائیں۔ کہ وہ ملک جو نبی پاکﷺ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا وہاں پر حکمران ہی نبی پاکﷺ کی عزت و ناموس اور اُن کی ختم نبوت کے دُشمن بنے بیٹھے ہیں۔ اِس کا صاف مطلب ہے کہ حکمران اشرافیہ کو چونکہ صرف حکومت کرنے سے غرض ہے اُنھیں ایمان سے غرض نہیں۔ اِس لیے اُن کے نزدیک صرف پاکستان اُن کے لیے حکومت کرنے کی جگہ ہے۔ پاکستان بنانے کا مقصد تو یہ تھا کہ مسلمان اپنے عقائد کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے لیکن موجودہ حالات دیکھ لیں کہ حکمرانوں کی جب اپنی لنکا ڈوبی تو اُنھوں نے اِس معاشرے کے سب سے حساس معاملے نبی پاک ﷺ کی ختم نبوت کے معاملے کو چھیڑ دیا۔ تاکہ عوام آپس ملک میں خوب انتشار پیدا کریں اور اُن کے جو کیسیز نیب اور اعلیٰ عدلیہ میں اِس وقت زیر سماعت ہیں اُن سے ریاستی اداروں کی توجہ ہٹ جائے۔ اِن حالات میں دیکھ لیں کہ پاکستان ستر سال بعد بھی کس طرح کے حکمرانوں کے زیر تسلط ہے کہ جنہیں نہ تو نبی پاکﷺ کی عزت و ناموس کا پاس ہے اور نہ ہی عوام کے جذبات کا احساس ہے۔ اِسی طرح موجودہ اور سابق حکمران ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنا چکے ہیں۔ ہر روز حکمران اعلیٰ عدلیہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔گویا پاکستان کی تخلیق کی قدر نہیں کی گئی۔ حکمران اشرافیہ نے عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ رکھا ہے۔
یہ بات درست کہ ختم نبوت کے حلف کی آئینی شقوں 7بی 7سی کو پارلیمنٹ نے منظور کر لیا ہے۔ ختم نبوت کا قانون پہلے کی طر ح بحال کر دیا گیا۔ لیکن ابھی تک ن لیگ کے وزرا اپنا قصور تسلیم نہیں کررہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ حکمرانوں کے قلب و اذہان عوام کے جذبات سے کوسوں دور ہیں۔عوام ہے کہ دہشت گردی، لاقانونیت بے روزگاری کی چکی میں پس رہی ہے جبکہ حکمران اپنے محلات میں خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہے ہیں۔ عوام بھوک اور افلاس کے گرداب میں پھنس چُکے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکمرانوں نے اپنا وطیرہ بدلہ ہو۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا اور عام لوگوں کا یہ سوال کہ پہلے تو ہندو اور انگریز کی غلامی سے چھُٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اور علیحدہ مسلم ریاست بنانے کے لیے بٹوارا کیا گیا لیکن 1971 میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا کس سے آزادی کے لیے تھا؟مسلمان کو مسلمان سے ہی آزادی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایک ہوں مسلم حرم کے پاسبانی کے لیے کے نظریئے کو کس طرح موت کے گھاٹ اُتارا گیا؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اِس بات کا جواب ہمیں جسٹس حمود الرحمان کی رپورٹ سے بھی ملتا ہے کہ اِس سانحے کے پیچھے غیر ممالک کے علاوہ پاکستانی سول و فوجی اسٹیبلیشمنٹ کا بھی غفلت اور کوتاہیوں سے بھر پور کردار ہے۔ دنیا میں جتنے بھی فتنے فساد پیدا ہوئے اُن کا سبب ہوس ہی ہے۔ غیر ملکی سازشوں کے لیے ان سازشی ممالک کومیر جعفر و میر صادق میسر آ تے رے رہے اور میر جعفروں کی ہوس نے وطن کو پارہ پارہ کردیا۔ باقی ماندہ پاکستان کو بچانا ہے تو سب سے پہلے ان میروں سے نجات کی کوشش کرنی چاہئے۔قانون اور عدالتیں ان کا بہتر احتساب کرکے ایسے غداروں کو سامنے لاسکتی ہیں۔بس عوام کو ان کو پہچان کر اپنے ووٹ کا تقدس بچانا ہوگا۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔