حکمرانی عوام کی خدمت کا نام
سیاست میں اتار چڑھاؤ دیکھتے ہی چلے آ رہے ہیں،لیکن اس طرح کی حکومت اس سے قبل نہیں دیکھی،جس کے وزیراعظم سمیت صوبائی و وفاقی وزراء عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کی بجائے نواز شریف اور زرداری کو چور، لٹیرے اور جیب کترے کہہ کہہ کر اپنا گلہ خشک اور ملکی سیاسی ماحول میں تلخی پیدا کرنے میں دن رات مصروف ہیں،جس کے نتیجے میں اپوزیشن کی گیارہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ، پشاور،ملتان اور لاہور میں جلسوں کا پروگرام مکمل کر چکا ہے۔ حکومت کے خلاف احتجاج کے دوسرے مرحلے کا اعلان بھی لاہور کے جلسے میں کر دیا گیا ہے،جس میں لانگ مارچ اور استعفے کے پروگرام شامل ہیں،ابھی تک سرپرست کردار ادا کرنے کے لئے سامنے نہیں آئے، حالانکہ اب وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں کو اکٹھے بٹھا کر ان کے درمیان مذاکرات کرائے جائیں تاکہ تلخیاں کم اور سیاسی ماحول میں ٹھنڈک پیدا ہو جائے، اڑھائی سال گزر گئے ہیں وزیراعظم عمران خان کو اب سمجھ آئی ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں اور خارجہ پالیسی کے فیصلے وہ خود کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نہتے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں حکومتی بیانات، حکومت کی اپنی خارجہ پالیسی کے فیصلے کے مطابق ہیں۔
گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا فیصلہ بھی حکومت کا اپنا فیصلہ ہے، لیکن عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے وعدہ پر ووٹ لئے تھے، جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی اگر صوبے اور مرکز میں تحریک انصاف کو ووٹ نہ دیتے تو عمران خان کی پارٹی اور وہ خود صوبائی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ہوتے، پنجاب میں تو آج بھی تحریک انصاف کی حکومت، مسلم لیگ(ق)کے ارکان کی مرہون منت ہے، مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ (ق) مل جائیں تو پنجاب سے تحریک انصاف کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا،لیکن پنجاب میں تحریک انصاف کی بات ابھی تک بنی ہوئی ہے، مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے میاں نواز شریف کو اُن کی والدہ ماجدہ کے انتقال پر ایک ٹیلی فون ہی کیا تھا اِدھر اُدھر کی کوئی بات نہیں کی، صرف اظہارِ تعزیت کیا تھا کہ ایوانِ اقتدار میں بھونچال آ گیا اور وزیراعظم عمران خان تیمارداری کے لئے چودھری شجاعت حسین کے گھر لاہور پہنچ گئے، سیاست اسی کا نام ہے، کبھی کبھی سیاسی مخالفین کے دروازے پر بھی دستک دینی پڑتی ہے، اس لئے سیاست دان کو فراخ دِل ہونا چاہئے اس میں برداشت اور تحمل کا مادہ ہونا چاہئے۔ اپوزیشن کے بغیر وزیراعظم کچھ بھی نہیں ہوتا،وزیراعظم کو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔
وزیراعظم کے پاس دوتہائی اکثریت بھی ہو، اپوزیشن اس کے لئے کان اور آنکھ کا کام دیتی ہے، جس کا اعتراف چند روز قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کر چکے ہیں، موجودہ حکومت کا معاملہ یہی ہے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل یہ کہہ کر حکومتی صوفوں سے اُٹھ کر حزبِ اختلاف کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں کہ ”ہم حکومت کے ساتھ ایک معاہدے، وعدے کے ساتھ تھے، جو حکومت نے پورے نہیں کئے۔ وزیراعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں کی دِل جوئی کے لئے عشائیہ دیا،مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے کہا کہ کھانا، اتحاد کے معاہدے کی شرائط میں شامل نہیں تھا اور مسلم لیگ (ق) کے قائدین نے وزیراعظم کے عشائیہ میں شرکت نہیں کی۔ سردار اختر مینگل کے حکومت چھوڑ کر حزبِ اختلاف کے ساتھ کھڑا ہونے سے اپوزیشن کی پوزیشن مضبوط اور حکومت کی عددی اکثریت میں کمی واقع ہوئی ہے۔دوسری جانب سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی موجودہ ملکی و سیاسی صورتِ حال پر گہری نظر ہے وہ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں پر مل جل کر کام کرنے پر زور دیتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب کے کسانوں کی خوشحالی کے لئے ان کے جائز مطالبات پورا کرنا ہوں گے،
کیونکہ تاجر اور کسان ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں یہ بات کھلی حقیقت ہے کہ پنجاب اسمبلی نے چودھری پرویز الٰہی کی زیر صدارت دوسری اسمبلیوں کے مقابلے میں ریکارڈ قانون سازی کی ہے، بطور وزیراعلیٰ انہوں نے پنجاب میں مثالی کام کئے، ریسکیو1122، مفت ادویات کی فراہمی، مفت تعلیم، کتابوں کی فراہمی ان کے تاریخی منصوبے ہیں،ساڑھے بارہ ایکڑ تک زرعی ٹیکس معافی سے کسانوں کی مشکلات میں کمی بھی ان کا ہی فیصلہ تھا۔ یہی بات ان کی عوامی مقبولیت کی وجہ ہے۔وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ عثمان بزدار، چیئرمین سینیٹ مل کر بھی جنوبی پنجاب کو وعدے کے باوجود صوبہ نہیں بنا سکے، کل جب دوبارہ انتخابی حلقوں میں ووٹرز کا سامنا ہوا تو کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا، عوام کو حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو گالیاں دینے اور لعنتیں بھیجنے سے کوئی سروکار نہیں، عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے ان میں اضافہ ہو رہا ہے اور انتخابات قریب آ رہے ہیں،فیصلہ کرنے کا اختیار عوام کے پاس ہو گا، آگے حکومت کی مرضی۔