ریکوڈک منصوبے پر جلد عملدرآمد ملکی مفاد میں ہے 

ریکوڈک منصوبے پر جلد عملدرآمد ملکی مفاد میں ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وفاقی کابینہ نے پیٹرولیم ڈویژن کی سفارش پر ریکوڈک منصوبے کی حتمی ڈیل پر دستخط  کی با ضابطہ منظوری دے دی ہے، طے شدہ منصوبے کے معاہدے پر آج دستخط کیے جائیں گے۔ کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں منظور کئے گئے ریکوڈک پراجیکٹ فنڈنگ پلان کی توثیق کرتے ہوئے چلی کی کمپنی انٹو فاگاسٹا کو واجبات ادا کرنے کی اجازت بھی دیدی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ریکوڈک منصوبے کی تنظیم نو پر تفصیلی بحث کے بعد ریکوڈک کی تنظیم نو کے حوالے سے سٹیٹ اونڈ انٹرپرائز اور اْن کے سپیشل پرپز وہیکلز حکومت بلوچستان کے سپیشل پرپز وہیکلز اور ریکوڈک پراجیکٹ کمپنی کے لیے ریگولیٹری فریم ورک کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ کابینہ اجلاس میں بتایا گیا کہ ریکوڈک پراجیکٹ کی تنظیم نو کے حتمی معاہدوں پر قانونی رائے کے لیے صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا جس پر سپریم کورٹ نے اپنی رائے دیتے ہوئے تنظیم نو کا عمل شفاف ہونے کے ساتھ ساتھ جن معاہدوں پر دستخط کیے جارہے ہیں اْنہیں قانون کے عین مطابق قرار دیا تھا۔ وزیراعظم نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ حکومت پاکستان ریکوڈک منصوبے سمیت سرمایہ کاری کے دیگر تمام منصوبوں میں سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی اور اْن سے کیے گئے تمام وعدے پورے کیے جائیں گے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ریکوڈک سے متعلق قانون سازی پر اعتماد میں نہ لیے جانے پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔ اخباری خبروں کے مطابق کابینہ اجلاس میں ر یکوڈک کے معاملے پر جے یو آئی بلوچستان اور بی این پی مینگل کے وزراء نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کرایا، پھر بائیکاٹ کرتے ہوئے کابینہ اجلاس سے اُٹھ کر باہر چلے گئے۔ اُس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کی ملاقات ہوئی جس میں غیرملکی سرمایہ کاری تحفظ و فروغ بل کو اٹھارویں ترمیم کے خلاف قرار دیتے ہوئے ریکوڈک سے متعلق قانون سازی کے بعد مشترکہ سیاسی حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا گیا۔ سردار اختر مینگل نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی پر بھی غور اور مشاورت شروع کر دی اور اِس حوالے سے پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس بھی آج طلب کر رکھا ہے۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ اتحادی جماعتوں سے طے پایا تھا کہ یہ قانون سازی ریکوڈک منصوبے کی حد تک ہے، کابینہ نے اتحادی جماعتوں کی ناراضی کے باوجود ریکوڈک کی حتمی ڈیل کی منظوری دی۔ وزیراعظم میاں شہباز نے اتحادی جماعتوں کو منانے کے لیے کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی جس میں وزیر قانون، وزیر خزانہ، وزیر کامرس اور اقتصادی امور ڈویژن کے وزیر شامل ہیں۔یہ کمیٹی اتحادی جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمان  اور اختر جان مینگل سے ملاقات کرکے اتحادیوں کو اعتماد لیتے ہوئے اْن کے تحفظات دور کرے گی۔ یہ طے پا چکا ہے کہ متعلقہ فریقین کی مشاورت سے غیرملکی سرمایہ کاری تحفظ و فروغ بل میں ترمیم کی جائے گی۔ واضح رہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری و تحفظ بل 2022ء قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے پاس کرانے کے بعد سینیٹ سے بھی پاس ہو چکا ہے جبکہ صدر مملکت بھی اْس پر دستخط کر چکے ہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بِل  سے متعلق اراکین اسمبلی کو بتایا تھا کہ ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے نو ارب ڈالرز کی سیٹلمنٹ ہے جس کے لیے قانون سازی ضروری ہے جو نہ ہونے کی صورت میں ڈیل بریک ہوجائے گی۔ اْنہوں نے مزید بتایا کہ اِس معاہدے سے 30 سال میں 120 ارب ڈالرز ملیں گے جن میں بلوچستان کا شیئر دو ارب ڈالرز سالانہ ہوگا۔ بِل کی مخالفت کرتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کو اعتماد میں لاتے ہوئے قانون سازی ہونی چاہیے تھی مگر اعتماد میں نہیں لیا گیا، اپنے مفادات کی خاطر راتوں رات یہاں قانون سازیاں کی جاتی ہیں۔ جے یو آئی ف کے مولانا عبدالواسع نے بِل کو سیاہ ترین قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ریکوڈک معاہدے کی آڑ میں تمام اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔وزیر قانون نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ دراصل حکومت نے نو ارب ڈالر اور ڈیل بچانے کے لیے قانون سازی کی،ڈیل بچانے کے لیے ہی وفاقی کابینہ سے سرکولیشن کے ذریعے انٹوفاگاسٹا کو واجبات کی ادائیگی کی ہنگامی منظوری لی گئی، قابلِ ادا سود میں سے بلوچستان کے حصے کے شیئر کے لیے وزارت خزانہ قابل ادائیگی سود کا بندوبست کر رہی ہے اِس لیے وزارت خزانہ کو 85 لاکھ 19 ہزار ڈالر سے زائد رقم کا بندوبست کرنا ہے جبکہ گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ نے حکومتی گارنٹی کے ساتھ 65 ارب روپے جمع کیے ہیں۔ 
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ معاملات کو درست سمت میں رکھنے کے لیے ہی کیا گیا کیونکہ ملک مزید مالی نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا، ایسے میں جے یو آئی اور بی این پی مینگل سخت رویہ اپنائے ہوئے ہے، یہاں تک کہ اختر مینگل نے تو حکومت سے علیحدگی پر غور شروع کر دیا ہے۔ ریکوڈک کے معاملات بہت عرصے سے التوا کا شکار ہیں، اب عدالتی فیصلے کے بعد بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں، ایسے میں کسی بھی قسم کا تناؤ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی فریق کو تحفظات ہیں تو حکومت کو اْن تحفظات پر غور کرنا چاہئے اور اُنہیں رفع کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کرنی چاہئے، اتحادی جماعتوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معاملات کو بگاڑ کی طرف لے کر جانے کی بجائے معاملہ فہمی کا ثبوت دیں۔وزیراعظم کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کے ساتھ بات چیت کر کے مطلوبہ جائز ترامیم پر توجہ دیں۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن اِن وسائل سے استفادہ نہیں کیا جا رہا، ملک کو ترقی کی راہ پر چلانے والے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے، ترقیاتی منصوبوں کو سیاست سے پاک رکھنا چاہئے۔ ہر پاکستانی کو ملک کا مفاد عزیز ہے، اگر وہ اِسے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں دیکھنا چاہتا ہے تو مثبت کردار ادا کرے، راستے میں کانٹے بچھانے کی بجائے اْنہیں چننے میں مدد کرے۔

مزید :

رائے -اداریہ -