مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:19
اللہ انکل کو صحت والی عمر دے آمین اور وہ ہم سب کے لئے ایسے ہی دعائیں کرتے رہیں۔ ان کی دعائیں ہی ہم سب کا سرمایہ ہیں۔
انکل کی بیگم اور میری چاچی بھی شاندار پرانے رکھ رکھاؤ والی خاتون ہیں۔ ہنس مکھ اور مہمان نواز۔ میری یادوں کے دھند لکے میں وہ جیسی کل تھیں آج بھی ویسی ہی ہیں۔ انکل کے طنز ومزاح کی ساتھی۔ ہر اچھے برے وقت میں انکل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑی رہیں۔ میری والدہ کی وہ بہت اچھی دوست تھیں اور ابا جی کی بہن۔ یہ سب ایک ایسے بندھن میں پروئے تھے کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔اللہ آنٹی کو بھی صحت والی لمبی زندگی دے۔آمین۔ ان کی دعائیں ہمارا بڑا سرمایہ ہیں۔
رشید سے صاحب رشید؛
میرے دادا ملک محمد رشید پاکستان بننے سے قبل انگریز سرکاری افسر کے دفتر میں نچلے درجے کے ملازم تھے۔ ان کی کہانی عزت، غیرت اور خودداری جیسے الفاظ کے گرد گھومتی ہے۔ان الفاظ کے سائے میں ڈھلے کردار کی شخصیت بے خوف، نڈر، صرف اللہ سے ڈرتی اور اسی پر بھروسہ کرتی ہے۔ میرے خاندان کی کہانی بھی وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے ان کی زندگی میں آنے والے ایک معمولی واقعہ نے ان کی اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد کی زندگی بدل دی اور اللہ نے عام سے خاص کر کے کامیابیوں سے نواز دیا۔ بیشک اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے۔
یہ 1926ء کی گرمی کے موسم کی بات ہے کہ اس روز انگریز صاحب بہادر کسی بات پر میرے دادا سے ناراض ہوا، سخت الفاظ کہے۔دادا کو ناگوارا گزرے ہوں گے کہ ایک خوددار شخص کے لئے عزت ہی سب کچھ ہے۔ شاید ہر شخص کی زندگی میں ایسا لمحہ ضرور آتا ہے کہ اگر اس لمحہ کی سمجھ آجائے تو زندگی بدل جاتی ہے۔کہتے ہیں قدرت ہر شخص کو زندگی بدلنے کا کم از کم ایک موقعہ ضرو دیتی ہے جو اس موقع کا فائدہ اٹھا لے وہ سکندر بن جاتا ہے۔ شاید ملک محمد رشید کی زندگی میں بھی وہ ایسا ہی لمحہ تھا۔ میٹرک پاس ملک محمد رشید نے نوکری سے استعفیٰ دیا، گھر آئے، بیوی(حمیدہ بیگم جو اس وقت پانچویں بچے کی پیدائش کے لئے امید سے تھیں۔)کو آواز دی؛”بلقیس کی ماں“(بلقیس میری سب سے بڑی پھوپھی تھیں) اورپیش آنے والا ماجرا بیان کرتے ہوئے کہا؛”بچیوں کے زیور جو تمھارے پاس ہیں مجھے دو۔ گھر میں جو پیسے ہیں وہ بھی دو۔ میں ولایت پڑھنے جا رہا ہوں۔ گھر کا اور بچیوں کا خیال رکھنا۔“زیور بیچا، ضرورت کی چند اشیاء ساتھ لیں۔ امید کی شمع دل میں جلائے،سہانا مستقبل آنکھوں میں سجائے، اپنے تایازاد بھائی”غلام مصطفی(جن کو سبھی بابا جی کہہ کر پکارتے تھے۔ میں بھی جہاں ان کا ذکر ہو گا بابا جی ہی لکھوں گا۔)کے ہمراہ کلکتہ پہنچے، بحری جہاز پر سوار ہوئے اور جہازبحیرہ عرب کے پانیوں سے گزرتاولایت کی بندرگاہ ”لیور پول“ کو چل دیا جبکہ بابا جی ریل سے واپس ضلع پٹھانکوٹ کے چھوٹے سے قصبے ”سجان پور“ کو روانہ ہو گئے۔دادا کا جہازچند دن کے سفر کے بعد مغربی انگلینڈ کی کاؤنٹی ”لنکاشائر“ کی ”بحیرہ ائریش“ اور ”دریائے میزوری“ کے سنگم پر واقع مغربی انگلینڈ کی اہم اور مشہور بندرگاہ لیور پول پر جا لگا۔دادا لیورپول سے”شیفیلڈ یونیورسٹی“ پہنچے۔جو اس زمانے میں انجینئرنگ کے شعبہ میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ایک تھی۔دادا ریاضی میں مہارت رکھتے تھے بلکہ ان کا درجہ استاد کا سا تھے۔ لہٰذا اس مہارت کی وجہ سے انہیں کورس کے ایک سال کی چھوٹ ملی۔ 2سالہ ڈگری ایک سال میں اعزاز کے ساتھ مکمل کی۔ رول آف آنر کے حق دار قرار پائے۔ ”اونر بورڈ“ پر لکھا گیا؛”Malik Mohammad Rasheed Roll of Honour, The Mathematcian.
میں کبھی بھی انگلینڈ گیا توجانے کی وجہ صرف یہی ہوگی کہ میں شیفیلڈ یونیورسٹی کا وہ اونر بورڈ دیکھنا چاھوں گا جس پر میرے دادا کانام لکھا ہے۔ یقیناً اس کے پاس کھڑا ہو کر میں بڑا فخر سے قریب سے گزرتے طالب علموں کو بتاؤں گا ”یہ نام میرے دادا کا ہے اور میں پاکستان سے صرف یہ نام پڑھنے ہی یہاں آیا ہوں۔“مجھے ابا جی نے بتایا تھا؛”بیٹا! ایک بار میں نے تمھارے دادا سے پوچھا تھا؛”ابا جان! آپ نے شیفیلڈ کے علاوہ انگلستان کے اور کون سے علاقے دیکھے۔“ تمھارے دادا کا جواب تھا؛”بیٹا! میں پڑھنے گیا تھا۔ مجھ پر بڑی ذمہ داریاں تھیں۔ میں نے تو شیفیلڈ بھی پورا نہیں دیکھا۔“ میرے دادا کی اپنے خاندان اور اپنی ذمہ داریوں سے commitment کی انتہا تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔