اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ووٹ ڈالنے کے حق کویقینی بنایاجائے ،سپریم کورٹ کی تجویز
اسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان و دیگر کی درخواستوں پر اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے حوالے سے کیس کی سماعت 22 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے پاکستانی سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو پولنگ سٹیشنوں کا درجہ دیا جاسکتا ہے اوورسےز پاکستانےوں کےلئے ووٹ ڈالنے کے حق کو ےقےنی بناےا جائے نادرا کے ڈیٹا بیس کی مدد سے تمام کام شفاف طریقے سے کیا جاسکتا ہے‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین و قانون میں رہتے ہوئے نئے میکنزم کے حوالے سے قانون سازی کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے اس حوالے سے اٹارنی جنرل عرفان قادر الیکشن کمیشن اور وزارت قانون کیساتھ مشترکہ میٹنگ کریں اور اس حوالے سے تفصیلات عدالت میں پیش کریں جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے اسلئے ان کو ووٹ دینے کیلئے تمام تر جدید سہولتیں فراہم کی جائیں‘ پوسٹل بیلٹ پیپرز سے دھاندلی کا احتمال ہے‘ نادرا پاکستانیوں کے اندراج کو جلداز جلد ممکن بنائے‘ اوورسیز پاکستانیوں کا کاسٹ کردہ ووٹ سیل لفافے میں سفارتی بیگ کے ذریعے الیکشن کمیشن بھجوائے گا اور الیکشن کمیشن ان ووٹوں کو ان کے متعلقہ حلقوں کے پریذائیڈنگ افسران کو بھجوائیں گے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جمعرات کو کیس کی سماعت کی۔ اس دوران عمران خان کی جانب سے حامد خان‘ الیکشن کمیشن کی جانب سے منیر پراچہ و دیگر پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس حوالے سے ایک بڑا پولنگ سٹیشن بن سکتا ہے۔ جسٹس عظمت سعےد نے کہا کہ نیت ہو تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کا دور ہے اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن سر پر کھڑے ہیں کوئی نہ کوئی ثبوت ہو تو اس پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ رولز میں تھوڑی بہت ترمیم کی جاسکتی ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ سفارتی عملہ کا ڈیٹا بیس بنانا پڑے گا جہاں سب معلومات موجود ہیں۔ تکنیکی معلومات کے ذریعے ووٹ ڈالا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ووٹر فہرست مرتب کرلیں یہ کیا ووٹنگ قرار دی جاتی ہے۔ اگر اب یہ نہ ہوا تو الیکشن کے دوران کیسے کریں گے۔ منیر پراچہ نے کہا کہ پوسٹل بیلٹ پیپرز کے ذریعے ایسا ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے دھاندلی کا احتمال ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ہارا ہوا تھا دوسرے دن 500 پوسٹل بیلٹ پیپرز نے اسے جتوادیا۔ بیلٹ پیپر دیا جاسکتا ہے باقی معاملات تو سب معلوم ہوں گے۔ جس نے این اے 48 میں ووٹ ڈالنا ہے وہ اس کا متعلقہ بیلٹ پیپر حاصل کرکے رسید حاصل کرے گا اور ووٹ ڈالے گا۔ 100 فیصد لوگ اب بھی ووٹ ڈالنے نہیں جائیں گے تاہم وقت گزرنے کیساتھ ساتھ معاملات بہتر ہوجائیں گے۔ یہ پاکستانی شہریوں کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش اس کی سہولیات دے رہے ہیں۔ ان کی حد تک معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل آن بورڈ ہیں اس حوالے سے مسئلہ حل کریں گے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ اس طرح کا کام پروفیشنل لوگ آسانی سے کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو بھی آئے گا اس کا نام فہرست میں دیکھ کر جس حلقے سے تعلق ہے اس کا بیلٹ پیپر دیا جائے گا اور جس پر نشان لگانا ہے‘ سیل کرکے آپ کے حوالے کردے گا۔ لفافے کے اوپر حلقہ نمبر لکھا ہوگا۔ ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعے پاکستان بھجوائیں گے جو الیکشن کمیشن کے حوالے کرے گا اور یوں اس کو گنتی میں لے آئیں گے۔ بعدازاں آرڈر لکھوانے ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اوورسیز پاکستانیز کے حوالے سے درخواست دائر کی گئی تھی جبکہ عمران خان نے بھی اس حوالے سے درخواست دائر کی تھی جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جبکہ دوسری درخواست ناصر اقبال نے دائر کی تھی۔ الیکشن کمیشن ایک میکنزم قائم کرے جس سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا صحیح طور پر حق مل سکے۔ سپریم کورٹ وقت کیساتھ ساتھ احکامات جاری کرتی رہی مگر ابھی تک اس حوالے سے کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوسکا۔ درخواست گزاروں کے وکلاءمختلف تجاویز دیتے رہے ہیں کہ ووٹوں کے حق کیلئے کوئی میکنزم ضرور بنایا جائے تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں اور جسے وہ ووٹ دینا چاہتے ہیں دے سکیں۔ اس حوالے سے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ وہ اس حوالے سے عدالت کی معاونت کریں۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ سابق اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے بیان دیا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے قانون سازی کی جائے گی تاہم اس پر ابھی عمل نہیں ہوسکا۔ یہ بھی پوائنٹ آﺅٹ کیا گیا کہ گذشتہ سماعت پر تاثر دیا گیا کہ ایک بل منظور کرلیا گیا ہے اور کابینہ اس حوالے سے کام کررہی ہے۔ ندیم اشرف سیکرٹری اوورسیز پاکستانیز پیش ہوئے اور کہا کہ ان کی وزارت پہلے ہی قانون سازی کی تجویز دے چکی ہے لیکن اس میں کوئی پراگرس نہیں ہوسکی۔ حامد خان نے کہا کہ ہمسایہ ممالک میں قانون سازی رولز 1986ءمرتب کئے گئے ہیں جس کے تحت بھارت سے باہر جو لوگ بھی مقیم ہیں وہ رجسٹرڈ ہیں۔ ان کے مطابق مختلف ممالک میں مختلف طریقے اختیار کئے گئے ہیں۔ ہمیں بھی اس حوالے سے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ اوورسیز پاکستانی بھی ووٹ کے معاملے میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں۔ ڈپلومیٹک مشنز میں پوسٹل بیلٹ پیپرز اور ای ووٹنگ کا نظام اختیار کیا جاسکتا ہے مگر اس کیلئے دھاندلی کے احتمال کو روکنا ہوگا۔ منیر پراچہ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش ہوکر کہا کہ ڈیٹا بیس کے مطابق جو نادرا مہیاءکرے گا اس کی بنیاد پر نائیکوپ رولز‘ آئی ڈی کارڈز اور 40 لاقکھ پاکستانی رجسٹرڈ ہیں۔ سیکرٹری اوورسیز نے بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق 75 لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں۔ 52 لاکھ کو نائیکوپ کارڈ مل چکے ہیں جبکہ بقیہ کو ابھی تک نہیں مل سکے اور درج بالا سب نادرا کے پاس رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ تمام فریقین کو سننے کے بعد ہماری رائے یہ ہے کہ الیکشن کمیشن یقینی بنائے کہ تمام اوورسیز پاکستانی شہری ووٹ کے حوالے سے رجسٹرڈ ہونے کا الیکٹورل ایکٹ 1976ءکے تحت حق رکھتے ہیں۔ ان کا جلداز جلد اندراج کیا جائے اور نادرا اور وزارت اوورسیز پاکستانی اس معاملے میں الیکشن کمیشن سے معاونت کریں اور پاکستانیوں کا ووٹ درج کیا جائے۔ نادران ان سب لوگوں کو کارڈ جاری کرے۔ ان کا یہ کام ووٹوں کے اندراج میں بہتر ثابت ہوسکتا ہے اور رہ جانے والوں کے نام بھی درج ہوجائیں گے۔ وزارت اوورسیز‘ وزارت قانون اور الیکشن کمیشن ایک مشترکہ اجلا سبلائیں اور ایک میکنزم مرتب کریں چاہے وہ اس کیلئے ای ووٹنگ سسٹم رائج کریں جس کیلئے قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کیلئے بیرونی قونصل جنرلز اور سفارتخانوں کو پولنگ سٹیشن قرار دیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے تعاون سے وہاں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ جس کا دل ہو وہ آئے اور اپنا ووٹ کاسٹ کرے اور بیلٹ پیپر اپنے متعلقہ حلقے کا طلب کرے اور ووٹ ڈال دے۔ تمام معلومات کا بھی پہلے سے اندراج موجود ہو اس کے بعد وہ اپنا ووٹ سیل کور میں ڈال کر الیکشن کمیشن کو بھجوادے اور یہ سب سفارتی بیگ کے ذریعے کیا جائے۔ الیکشن کمیشن متعلقہ حلقوں کے ریٹرننگ افسران کو بیلٹ پیپر بھجوادئیے جائیں۔ بیرون ملک پریذائیڈنگ افسران مقرر کئے جائیں جو اس حوالے سے معاونت کریں تاہم اگر کوئی اور طریقہ کار جو آئین کے مطابق ہو اس کیلئے قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ ادارے انتظام اٹارنی جنرل کے تعاون سے الیکشن سے قبل مکمل کرالیں۔ اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کیساتھ معاونت کریں یہ ہمارا حکم نہیں تجویز ہے۔ اس پر عمل کیسے ہوگا آپ خود دیکھ لیں۔ اگلی بدھ کو اجلاس کرکے عدالت کو رپورٹ پیش کریں۔ اٹارنی جنرل وزات قانون اور الیکشن کمیشن سے میٹنگ کرکے قانون سازی کے حوالے سے عدالت کو بتائیں۔ 22 فروری تک سماعت ملتوی کی جاتی ہے