نواز شریف کی مثبت سوچ
سترھویں صدی کے آخری عشروں میں فرانس بدترین اقتصادی و معاشی بدحالی کا شکار تھا اور نوبت بھوک سے گھاس کھانے تک آن پہنچی تھی ، غربت و افلاس کے ستائے ہوئے کسانوں کا ایک جم غفیر شاہی محل کے باہر جمع ہوکر نعرے بازی کرنے لگا۔ اُس وقت کی فرانسیسی ملکہ میری نے اپنے ملازم سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں، اُس نے کہا کہ ان کے پاس کھانے کو روٹی نہیں اس لئے یہ احتجاج کررہے ہیں۔ ملکہ نے ہونٹ سکوڑتے ہوئے یہ تاریخی جواب دیا کہ "اگر روٹی نہیں ہے تو انہیں کہو کہ کیک کھائیں۔" بعد میں لوگوں نے عوامی مسائل و مشکلات سے ناآشنا ملکہ کا جو حال کیا اُس کی داستان خاصی عبرتناک ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو بھی ایسے حکمران میسر آچکے ہیں جن کی سوچ فرانسیسی ملکہ سے مختلف نہیں تھی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ماضی قریب میں ملک کی ایک اعلیٰ شخصیت کو جب ایک صحافی نے کہا کہ جناب آپ کے دور میں دال کی قیمت بڑھ کر مرغی کی قیمت کے برابر ہوگئی ہے تو بجائے نادم ہونے کے انہوں نے جواب دیا کہ کیا یہ اچھا نہیں کہ اب عوام دال کی قیمت میں مرغی کھاسکتے ہیں۔
یہ غنیمت ہے کہ وہ بُرا دور کسی نہ کسی طرح گزر گیا اور اب ملک کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو فرانسیسی ملکہ یا پھر ماضی میں ملک پر نازل ہونے والے حکمرانوں کی طرح ماورائی دنیا میں نہیں رہتے بلکہ انہیں زمینی حقائق کا پوری طرح سے ادراک ہے جس کا مظاہرہ وزیراعظم میاں نواز شریف عملی طور پر کر رہے ہیں۔ ایک طرف تو وہ ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے چھٹکارا دلانے اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے پُرعزم ہیں اور دوسری طرف صنعت و تجارت کے سنگین مسائل حل کرنے کے لیے بھی عملی اقدامات اٹھارہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف حکومت اور کاروباری برادری کے درمیان مستحکم تعلقات قائم کرکے معاشی اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کا ثبوت انہوں نے گوناں گوں مصروفیات کے باوجود گذشتہ دنوں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایکسپورٹ ٹرافی 2014ءکی تقریب میں شریک ہوکر دیا۔ اس تقریب میں راقم الحروف، وزیرمملکت برائے تجارت خرم دستگیر ، فیڈریشن کے سابق صدر زبیر ملک ، اظہر سعید بٹ اور بڑی تعداد میں صنعتکار و تاجر شریک تھے۔
نواز شریف ایک طرف تو امن و امان کی صورتحال، توانائی کے بحران اور سنگین معاشی مسائل اور اُن کے حل کے بارے میں بڑی سیر حاصل گفتگو کرتے رہے اور دوسری طرف برجستہ جملوں سے محفل کو کشت زعفران بنائے رکھا۔ نواز شریف نے مجھے بھی کم از کم چار مرتبہ مخاطب کیا اور ایک مرتبہ ازراہِ مذاق پوچھا کہ افتخار ملک صاحب آپ کس کے ساتھ ہیں حالانکہ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ میں دل و جان سے اِس پیارے وطن کے ساتھ ہوں جس کے قیام کے لیے میرے والد ستارہ امتیاز محمد شفیع ملک مرحوم کو قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے سنگ جدوجہد کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور جس کی پاکیزہ مٹی میں میری نال گڑی ہے۔اپنے تمام دوستوں کو انہوں نے فرداً فرداً مخاطب کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ اُن لوگوں میں سے نہیں جو اقتدار حاصل ہونے کے بعد ساتھیوں کو بھول جاتے ہیں۔ دورانِ تقریب نواز شریف نے توانائی کے بحران اور صنعت و تجارت و معیشت کے متعلق اپنے جن عزائم کا اظہار کیا اُن سے کاروباری برادری کو بڑا حوصلہ ملا ہے جو ابھی تک ماضی قریب کی حکومتوں کی ستم ظریفی سے نالاں اور پریشان ہے۔ پچھلی ایک دہائی پاکستانی قوم نے جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے ۔ خدا خدا کر کے وہ دور ختم ہوا اور نواز شریف حکومت برسرِاقتدار آئی جس پر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔
بدقسمتی سے میاں نواز شریف کو پہلے دو مرتبہ اقتدار کی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن اُس قلیل عرصے میں بھی انہوں نے ملک کے مفادات کو مدّنظر بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جن میں موٹروے کی تعمیر، حکومت اور نجی شعبے کے تعاون سے صنعتی شعبے کو مضبوط کرنے کے لئے ٹھوس کوششیں کرنا، گوادربندرگاہ جیسے اہم منصوبوں کا آغاز ، سندھ کے بے زمین ہاریوں میں زمینوں کی تقسیم، وسطیٰ ایشیائی مسلم ممالک سے تعلقات کا استحکام، افغانستان بحران کو حل کرانے کی کوششیں اور مختلف افغان دھڑوں کو اسلام آباد میں اکٹھا کرنا، پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان پر امریکی پابندیوں کے باوجود معاشی ترقی کے حصول میں پیش رفت، ییلوکیب سکیم کا آغاز اور قرض اُتارو ملک سنوار سکیم نمایاں ہیں۔ اس مرتبہ وزیراعظم بنتے ہی انہوں نے سرکلرڈیبٹ کے خاتمے، توانائی کے بحران پر قابو پانے ، امن و امان کے حالات بہتر بنانے اور ملک بھر میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے لیے تیز تر اقدامات اٹھانے شروع کردئیے ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جو کام انہیں پہلے مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا وہ ان پانچ سال کے دوران مکمل کردینا چاہتے ہیں۔
گوکہ نواز شریف حکومت برسرِاقتدار آنے کے بعد معاملات خاصے درست ہوئے ہیں لیکن کرپشن کا ناسور ابھی تک ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے جو سابق حکومت کے دور میں کسی اہم ضرورت کی طرح پروان چڑھا لہذا نواز شریف کو کرپشن کے ناسور کے خاتمے کے لیے انتہائی سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ بجلی کے بحران کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ کرپشن کا ناسور ہی ہے جسے جڑ سے اکھاڑ کر ملک کے بہت سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ بیوروکریسی اور سرکاری اہلکاروں کو کرپشن کی غلاظت سے پاک کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں کیونکہ دنیا کے بہت سے ممالک نے انتہائی سخت اقدامات اٹھاکر کرپشن کی نحوست کو کم کیا ہے ۔پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی بدحالی پاکستانی معیشت کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ، ان پر سالانہ 600ارب روپے کے لگ بھگ رقم خرچ ہورہی ہے جو قومی وسائل کو ضائع کرنے کے مترادف ہے اور اس کی وجہ سے بجٹ غیر مستحکم اور غیرملکی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک کسی بھی صورت ان اداروں پر اتنی بھاری رقم خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ ابتدائی دور میں پبلک سیکٹر انٹرپرائزز نے سرمایہ سازی، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور منافع کماکر ٹیکس ادا کرکے ملک کی معاشی ترقی میں موثر کردار ادا کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نااہلی ، بدانتظامی اور کرپشن کے ناسور نے ان اداروں کو جکڑ لیا جس کی وجہ سے آج یہ بے حد نقصان دہ اور قومی خزانے پر بہت بھاری بوجھ بن چکے ہیں ۔
پاکستان کی موجودہ معاشی حالت ایسی نہیں کہ وہ ان بھاری نقصان دہ اداروں کو مزید امداد دے سکے، پاکستانی عوام کو صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی، بجلی و گیس، سڑکوں کی تعمیر اور سکیورٹی کی فراہمی کے لیے وسائل کی ضرورت ہے جو یہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز ہڑپ کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم بنتے ہی نواز شریف نے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی تنظیم نو کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے مرض کو جڑ سے اکھاڑنے کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ ضروری ہے کہ ان اداروں کی تنظیم نو اور خسارے سے نکالنے کا عمل جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ اس سلسلے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ جہاں تک امن و امان کی صورتحال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مذاکرات کے ذریعے پہلے ہی بڑی نمایاں پیش رفت ہورہی ہے ، البتہ کچھ نادیدہ قوتیں ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے دہشت گردی کروارہی ہیں جسے روکنے کے لیے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لیکر انتہائی سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ صنعتکار اور تاجر برادری ہی نہیں بلکہ ساری قوم توقع کرتی ہے کہ نواز شریف قومی و معاشی ترقی اور امن و امان کے تمام اہداف یقینا حاصل کرلیں گے جس کے بعد خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ جہاں تک اپنے دیرینہ دوست وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی بات ہے تو اُن کے بارے میں صرف یہی کہوں گا کہ "لگے رہو شہباز شریف۔"(افتخار علی ملک سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر ہیں)۔ ٭