آہ ! ڈاکٹر احسن اختر ناز
بے شمار صحافیوں کا استاد،علومِ صحافت کے آسمان کا درخشندہ ستارہ، ماحول میں امن وسلامتی اورمسکراہٹوں کا نقیب، مشکل ترین سوالات کو سدا بہارسمائل سے چٹکیوں میں حل کرنے والا دانش اور، میٹھی بیماری کا شکا ہونے والا میٹھا انسان، اپنے سینکڑوں چاہنے والوں کی دعاؤں،آہوں، سسکیوں میں اپنی محبوب فضا (سرزمینِ جامعہ پنجاب ) میں محترم لیاقت بلوچ کی امامت میں شہادتوں، دعاؤں و سفارشوں کی سوغات لے کر منوں مٹی تلے آرام کی نیند سوگیا۔’’جانے والے تیرے قدموں کے نشاں باقی ہیں ‘‘کے مصداق ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ جامعہ پنجاب کے ہر دلعزیز استاد اپنی تدریسی و سماجی یادوں کی داستانیں چھوڑ کر اپنی ابدی منزل کی جانب رواں دواں ہوگئے۔ان کے شاگردوں کی دنیا میں آج ان کے لیکچرزان کے فی البدیہہ جملوں اورریمارکس کے تذکرے و تبصرے جاری ہوں گے ۔ ان کے جنازے کے شرکاء کی باڈی لینگوئج جانے والے چارپائی پردراز انسان کی محبتوں اورغم خواریوں کی عکاسی کررہی تھی ۔ آج کے مادہ پرست دور میں ایسے جنازے یوں ہی نہیں بن جاتے، ایسی رخصتی تو اُن خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے جو زندگی کی تاریکیوں کو بھگانے میں روشنی کے چراغ اورجگنو بن کرجیتے ہیں۔
ستر سالہ یہ قلم کار بھی اپنے آپ کو ان کے شاگردوں میں شمار کرتا ہے، حالانکہ بظاہر ایک دن بھی ان کا باقاعدہ طالب علم نہیں رہا ، مگر اس بیان کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں اساتذہ کی ایک ایسی تعلیمی و تربیتی پیشہ ورانہ تحریک گزشتہ نصف صدی سے جاری ہے، جس میں پرائمری کے استاد سے لے کر یونیورسٹی استاد تک برابر اہمیت کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اورنام اس کا تنظیم اساتذہ پاکستان ہے۔ راقم اپنی گزشتہ سینتالیس سالہ تعلیمی وتدریسی زندگی میں اس سے منسلک ہے اوریہیں پر کئی بار پروفیسر احسن اختر ناز ہمیں صحافت کے رموز اوراہم عملی ہدایات سے آگاہی بخشنے تشریف لایا کرتے تھے۔ یوں وہ ہمارے اطلاعاتی ر ہنما کے طورپر جانے پہچانے محبوب انسان تھے ۔ ان کے مزاج کی شگفتگی اوراپنے مضمون پر کمال مہارت اورفنِ ابلاغ میں امامت و اجتہاد کی صفات نے ان کی شخصیت کا عکس ہمارے دل ودماغ پر نقش کردیا تھا اوریوں اس نوعیت اورکیٹیگری کے ا ن کے غیر روایتی شاگرد اساتذہ کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔ یوں سمجھئے کہ ہم اُن کے جزووقتی ایسے طالب علم تھے، جنہیں وہ سال میں چند خصوصی لیکچرز کے ذریعے عملی صحافت کا علم بانٹا کرتے تھے اورآج ہم اپنے اس محسن و مشفق دوست، بھائی اوراستاد کی جدائی کا غم اپنے دل میں پاتے ہیں ۔
راقم کے تو وہ ’’شوگر فیلو‘‘بھی تھے اوراس لحاظ سے خصوصی مہربان کہ جب بھی ہمیں تربیت دینے آتے تو میرے کسی کالم کا ذکرضرورفرماتے،یوں ہمیں اپنے استاد گرامی کی جانب سے زبانی ڈگری کی صورت میں حوصلہ افزائی نصیب ہوجاتی اورایک نیا جذبہ اورعزم ان کے ارشادات سے پیدا ہوجاتا۔اچھی طرح یاد ہے کہ وہ اخباری تحریروں کے لئے آسان ترین زبان کے استعمال کی اہمیت بتاتے، نیز یہ کہ موضوعات ایسے ہوں جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہوں ۔ وہ اپنے نام کے بالکل صحیح مصداق تھے ۔’’ احسن ‘اُن کی شخصیت کا بہترین تعارف تھا اور’’اختر‘ ‘کے معنی ستارے کے ہیں اوروہ یقیناًعلومِ صحافت کے ایک روشن ستارے تھے ۔اپنے شاگردوں و رفقاء اورجامعہ پنجاب کے لئے باعثِ فخروناز تھے ۔ وہ اپنے وقت پر سربراہِ ادارہ بھی بنے اوراپنے دور کے عصری مسائل و آلام اوررقابتوں و رفاقتوں کا سامنا کرتے آگے بڑھتے رہے اوروہ پاؤں جن میں کوئی لرزہ نہ آسکا تھا اورکبھی ڈگمگا نہ سکے تھے، آخر شوگر کے سرجن کے سامنے ہار گئے ۔
یہ ان کی زندگی کا ایک نیا دور تھا جس سے بہت سے ’’میٹھے ‘‘لوگوں کو گزرنا پڑتا ہے ۔ امید کی جاتی ہے کہ مرحوم ڈاکٹر احسن اختر ناز کے رفقا اورشاگردانِ عزیز طلبہ و طالبات اپنے اس عظیم استاد سے وابستہ یادیں اورمشاہدات سپردِ قلم کرتے رہیں گے ۔ ہم کہ خود بھی شاہراہِ حیات کے دوسرے سرے پر آگے پیچھے جانے والوں کی لائن میں ہیں، مگر اللہ کریم کے اس اوّلین فرمان پر پختہ ایمان اورعقیدہ ہے کہ’’اللہ نے قلم کے ذریعے تعلیم دی اورانسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ڈاکٹر احسن اختر ناز نے جن سینکڑوں ہزاروں طلبائے صحافت کو درس دیا، دراصل یہ ان کا صدقہ جاریہ ہے ۔ان کے فیض یافتگان کے قلم انسانیت کی خدمت اورمعاشرے کے اندھیرے دور کرنے میں جتنا چلتے رہیں گے ٗتمام اساتذہ اُن کی برکات سے مستفیض ہوتے رہیں گے ، فرمانِ رسالت ماٰ بؐ کی روشنی میں ’’ایک عالم کی موت تو ایک جہان کی موت ہوتی ہے‘‘۔ایک صاحب علم تدریس اپنے فیض یافتگان کا ایک جہان آباد کرتا ہے اورجاتے ہوئے اسے غم زدہ کرجاتا ہے ۔ ہم اس تحریر کے ذریعے ان کے تمام نئے و پرانے طلبہ وطالبات، نیز ان کے جملہ اعزا واقربا سے دلی تعزیت کرتے ہوئے ان کی بلندی کے درجات کے لئے دعاگو ہیں ۔ اللہ کریم ان کی بشری خطاؤں سے درگزر فرما کر انہیں اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائے،آمین