زینب اورجنسی تشدد کے محرکات

زینب اورجنسی تشدد کے محرکات
زینب اورجنسی تشدد کے محرکات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نام زینب ہو،اسما ہو یا کوئی ہو۔بچے سانجھے ہوتے ہیں۔بچے معصوم ہوتے ہیں۔بچے کُلی طور پر معاشرتی رشتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔اُن کو دھوکہ دینا آسان ہے۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ وہ شخص کیسا ہو گا جو ایسے بھولے بھالے بچے کے ساتھ ریپ کرنے کیلئے اپنے آپ کو تیار کر لیتا ہے۔

اگر زینب انسانی زندگی کے ایک خاص مرحلے کی نمائندہ ہے تو اُس کے ساتھ ایسا ظلم کرنے والا بھی ایک جداگانہ قسم کے گروہ کا نمائندہ ہے۔اس خاص شخص کے مخصوص روّیو ں کے پس منظر میں ایک ایسی کریہہ ذہنیت موجود ہے جسے معاشرتی کجی نے مرتب کیا ہے۔

مجرم کی گرفتاری کیلئے ہم جوشور و غوغا بپا کرتے ہیں اور اُس کی گرفتاری کے بعد اس ایشو پر ہر بار مجرمانہ خاموشی طاری ہو جاتی ہے ۔نئے طوفان سے پہلے کی خاموشی۔ ایک نئی واردات کے انتظار میں خاموشی۔اس جرم کا تسلسل اہل دانش کو دعوت فکر دیتا ہے کہ معاشرتی اقدار کا گھونگٹ اٹھائیں اور حسن و قبح کے معیاروں پر نظر ثانی کریں،ہمارے معاشرے میں کوئی گڑبڑ تو ہے کہ زیر سطح آب ایسے کلبلاتے جرائم پروان چڑھ رہے ہیں۔ہمارا معاشرہ اپنے اجتماعی چہرے پر منافقت کا مقبول ماسک چڑھائے رکھتا ہے۔منافقت بزدلی کی پیدا وار ہے۔جرأ ت مند معاشرہ حقائق کو تسلیم کرتا ہے اور ناپسندیدہ آکاس بیل کو خود تنقیدی کی قینچی سے کاٹ پھینکتا ہے۔


مریم اورنگزیب کہتی ہے کہ بچوں کو نصاب میں اس خطرے سے آگاہ کرنا چاہیے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نصابوں سے تبدیلی نہیں آتی،بلکہ تبدیلی نصاب کو مرتب کرتی ہے۔

چونکہ نصاب نصب کیا جاتا ہے اور ہر نصب چیز تبدیلی کی مزاحمت کرتی ہے اس لیے نصاب کے ذریعے بچوں کو خود خوفزدہ کر نے کی بجائے والدین کی تعلیم و تربیت کا محلہ واری انتظام کرنا چاہئے اور تبدیلی کو سمجھنا چا ہئے۔

معاشرہ کافی تبدیل ہو چکا ہے۔قبائلی اور موجودہ مخلوط معاشرہ کی اخلاقیات میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی اشتہار بازی ،ہماری قدروں سے متصادم ہے۔

انٹر نیٹ اور موبائل کی دخل اندازی نے عام آدمی کے جنسی امیج کی تشکیل نو کر دی ہے۔جدید فیشن کی صنعت ،سائنسی بنیادوں پر انسانی جسم کو ابھارنے میں دن رات کوشاں ہے۔

جبکہ مذھب انسانی جسم کو چھپانے کی تلقین کرتا ہے اور آج کے موثر مواصلاتی اوزار ،قدامت اور جدت کی دو مختلف دنیائیں تعمیر کر چکے ہیں۔"جو بھی آج موجود ہے" اور جو"ہونا چاہیے" کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔جسے پاٹنا ناممکن ہے۔اس لیے منافقت کی بیساکھیاں استعمال کرنے کے علاوہ اور کوئی راہ فرار نہیں ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ منافقت ناسور کو چھپاتی تو ہے علاج نہیں کرتی۔

منافقت تسلیم شدہ اخلاقی معیاروں سے فرار کے راستے فراہم کرتی ہے اور مکروہ اور مردود اکسائے گئے جذبات کو ڈھانپنے کے ہتھکنڈے مہیا کرتی ہے۔

سماجی ارتقاء کے اس مرحلے پر زینب بے چارگی سے چاروں طرف دیکھتی ہے اور مدد طلب کرتی دکھائی دیتی ہے۔ کسی ایسی واردات کے مجرم کو گرفتار کر کے سزا دے بھی دیں پھر بھی زینب اکیلا ہونا اور غیر محفوظ ہونا ریاست کی سمجھ سے باہر ہے۔

جنسی جرائم کی سزا خارجی ہے جبکہ جنسی وحشیانہ پن کی بیماری داخلی ہے۔انسان کی غیر انسانی استطاعت اتنی زیادہ ہے کہ خوف پیدا ہو تا ہے۔ ہر صورتحال میں ہر انسان کیچھپی ہوئی طاقت ایک ناقابل یقین نئی صورت حال کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس صلاحیت کو اظہار کے نئے پسندیدہ اور قابل قبول ذرائع مہیا کرتے ہیں۔


ثقافتی نفاست،تہذیبی سجاوٹ یا سماجی جمالیا تی ترقی انسان کی وحشت اور درندگی کو کم نہ کر سکی۔کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ آج کا انسان کہیں وہ دیومالائی خیالی جانورتونہیں جس کا آدھا دھڑ انسان کا اور آدھا درندے کاجسم تھا۔۔۔آج کا انسان دکھائی تو انسان دیتا ہے لیکن تہذیب نے اُس کی درندگی کو خوبصورت لباس میں چھپادیا ہے۔

جب تک ہم اس چھپی ہوئی درندگی کو مان نہیں لیتے اس وقت تک اسے سمجھ نہیں سکتے۔ اِسے سمجھے بغیر اس درندگی کو انسانیت میں بدلنا مشکل ہے۔

ریپ کی وارداتوں کی کثرت اسی چھپی ہوئی درندگی کا شاخسانہ ہے۔ جارحانہ جنسی عمل کی وڈیوز بازار میں عام ملتی ہیں۔مخرب اخلاق وڈیوز تھیوری ہیں جبکہ کونوں کھدروں میں، گلی کوچوں میں، کھیتوں کھلیانوں میں ریپ کی وارداتیں اِس تھیوری کی پریکٹیکل ہیں۔ جنسی جارحیت اگر فرحت بخش تفریح بن جائے تو ریپ کو ،کرکٹ فٹبال کی طرح کھیل ہی سمجھا جائے گا

۔دنیا بھر میں ریپ کے کیس زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ جہاں پورنوگرافی پر پابندیاں عائدکی گئیں۔

وہاں ریپ کے کیسوں کی رپورٹنگ میں واضح کمی دیکھی گئی۔ لیکن اس کی وضاحت ضروری ہے کہ وارداتوں کی رپورٹ شاذونادر ہی ہوتی ہے۔ریپ تشدد کا حیوانی اظہار ہے۔

انسانی تہذیب نے شعوری سطح پر جنسی عمل کو ایک نظم و ضبط میں ڈھالنے کی بڑی کوشش کی ہے۔نکاح شادی،طلاق کے ڈسپلن اسی کوشش کے اہم باب ہیں۔مگر جنسی عمل سے جارحیت کے عمل دخل کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔اس بات کی ایک مثال سے وضاحت ہو سکتی ہے۔فلسفے اور نفسیات میں انسان اور حیوان میں امتیازکرنے کی کئی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔

اُن میں سے ایک یہ ہے کہ انسان ہنسنے والا جانور ہے۔اگر ہنسنا انسان ہونے کی علامت ہے تو جنسی عمل کے عروج کے وقت انسان کیوں ہنس نہیں سکتا اور اگر اس خاص لمحے میں ہنس دے تو جنسی خواہش ختم ہو جاتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جنسی عمل کی شدت کے مرحلے میں اُس پر ایک مخصوص حیوانیت طاری ہوتی ہے۔

اگر غیر جانبداری سے تجزیہ کریں تومردانگی کا تصور کلی طور پر جارحانہ ہے۔جنسیت میں مرد کی فاعلیت اور عورت کی مفعولیت تسلیم شدہ ہے۔یہی فاعلیت انتہائی صورت میں جارحیت میں بدل جاتی ہے اور اُس میں تشدد کا عنصر شامل ہو جائے تو اسی کو ریپ کہتے ہیں۔باہمی رضا مندی کسی بھی عمل کو مستحسن کر دیتی ہے۔

جس عمل میں رضا مندی شامل نہیں ہو گی انسانی تہذیب اسے قبول نہیں کرتی۔پوری انسانی معاشرت خود مختار رضا مندی کی قائل ہے۔نابالغ یا پاگل کی رضا مندی، رضامندی نہیں سمجھی جاتی۔ رضا مندی بلوغت سے جڑی ہوئی ہے۔ بالغ ہونے کیلئے قانون میں اٹھارہ سال کی عمر مقرر ہے۔

قانون قرار دیتا ہے کہ 18سال سے کم نابالغ کی رضا مندی قانون کی نگاہ میں رضا مندی نہیں ہے ۔اسے انتخاب کرنے کی آزادی نہیں دی جا سکتی کیو نکہ اُس میں اپنے اچھے بُرے کا تعین کرنے اور اپنے عمل کے نتائج کا مکمل احاطہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ایسا نابالغ معاشرے کی نگرانی چاھتا ہے۔ایسا ہی نابالغ جنسی تشدّد کا ہدف ہوتا ہے۔

معاشرے کے جنسی ڈسپلن کا باغی ، معاشرتی ضوابط کا منحرف اپنی جنسی تسکین "باہمیت" سے حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ بالغیت فیصلہ کرتی ہے۔

بلوغت اپنی پسند ناپسند نافذ کرتی ہے۔لیکن چھوٹے بچوں کو اپنی ہوس کا شکار کرنے والا شخص بالغ فریق کا سامنا نہیں کر سکتا۔ جنسِ مخالف کے جنسی چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

وہ شخص یکطرفہ جنسی عمل میں یقین رکھتا ہے۔جبکہ صحت مند جنسی عمل شراکت سے تکمیل پذیر ہوتا ہے۔شرکت جس اعتماد، اپنائیت ، حوصلہ اور جرأت کی متقاضی ہوتی ہے،ایسا مجرم ان صفات سے عاری ہوتا ہے۔ وہ بزدل، کمزور اور ایک خول میں قید ی ہوتا ہے۔ عام زندگی میں تفاخر سے محروم ہوتا ہے۔

سب سے بڑھ کر وہ اپنی عزت نہیں کرتا۔ جو شخص خوداپنی عزت نہیں کرتا اس کیلئے کوئی اخلاقی اور قانونی رکاوٹ نہیں رہتی۔وہ تو خود غرضی سے اکیلا جنسی لذت سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اور اپنے بے بس جنسی ہدف کو مسخر کرنا اور اس کو اذیت میں مبتلا کرنا اسے کیف و مسرت دیتا ہے۔دوسروں کو اذیت دینے سے مسرت حاصل کرنا خاص ذہنیت کی غمازی کرتی ہے۔

دراصل جنسی طور پر کمزور شخص ہی جعلی قوت کا مظاہرہ کرنے کیلئے تشدد کرتا ہے۔اپنی برتری ثابت کرنے سے خوش ہوتا ہے۔ تشدّ د کیلئے کمزور کو اِس لئے چنا جاتا ہے کہ تشدّ د کرنے والا مزاحمت سے ڈرتا ہے ایسے اشخاص ہی اپنی بیویوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنی مرادنگی کو ثابت کرتے ہیں۔

چھوٹے بچوں کی بے بسی سے جنسی آسودگی حاصل کرنے والے اذیت پسندی کے شکار ہوتے ہیں۔۔مغربی دنیا میں ایسے کلب موجود ہیں جہاں اذیت کے ساتھ جنسی عمل کرنے سے حظ اٹھایا جاتا ہے۔مگر متشدّ د معاشرے میں تشدد قابل ستائش سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے ایسے معاشرے کا ہیرو مہذب معاشروں میں ولن گردانا جاتا ہے۔ یہ بات جنسی معاملات کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی سچ ہے۔


موجودہ حالات میں جنسی تشدّد کے واقعات کو روکنے کے لئے پورے معاشرے کو مشترکہ کوشش کرنی ہے۔ اپنے معاشرے کی کجی دور کر نے کے لئے بنیادی تبدیلیا ں کرنی ہیں۔۔۔ مندرجہ ذیل امور قابلِ غور ہیں:
-1 اس ایشو پر قانون واضح اور انصاف فوری ہونا چاہئے۔


-2تفتیش میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی جائے۔


-3میڈیا خبر کا کاروبار بے شک کرتا رہے لیکن لاشوں پر اپنے کاروبار کی عمارت استوار نہ کرے۔


-4چھوٹے بچوں کو خوفزدہ کیے بغیر، انہیں احساس دلائے بغیر ان کی نگرانی کی جائے۔


-5بچہ جتنا چھوٹا کیوں نہ ہو اسے چھوٹا نہ سمجھا جائے۔بچہ اپنے لا شعور میں ہر انوکھی بات کو محفوظ رکھتا ہے۔ ان سے باتوں کوچھپانا بھی بچے کے ذہن میں تجسس پیدا کرتا ہے۔ بچوں کے سامنے جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔ بچوں کے سوالوں کا صحیح جواب دینا چاہئے۔


-6ماں باپ کو بچوں کے مشاغل میں شریک ہونا چاہئے۔


-7معاشرے میں مکالمے کے کلچرکو فروغ دے کر استدلال کا تقدس قائم کرنا چاہئے۔


-8معاشرے میں جبر کو اصول کا درجہ حاصل ہوگا تو گھٹن مسلط ہو جاتی ہے۔ گھٹن میں معاشرتی تدریجی عمل مفلوج ہو جاتا ہے۔


-9یادرکھیئے سچ پر کسی کو اجارہ داری حاصل نہیں ہے۔ جو لوگ اپنی رائے نہیں بدلتے وہ سچائی سے زیادہ اپنے آپ سے محبت کر تے ہیں۔ اور اپنے آپ سے شدید محبت کرنے والا فرعون ہی بچوں کو قتل کر سکتا ہے۔


-10قومی ادارہ قائم کیا جائے۔ جو جرم اور سزا پر تحقیق کرے اور موجودہ معاشرے کی کمزوریوں اور نئے ماحول کی روشنی میں ایسی سفارشات پیش کرے جو اس نظامِ انصاف کا حصہ بنادی جائیں۔ تا کہ انصاف ایک خیالی اور تصوراتی سرگرمی نہ ہو بلکہ تبدیل شدہ معاشرتی اقدار کا ساتھ دے سکے۔


یہ سب کچھ کیوں لازمی طور پر کرنا ہے، کیونکہ ہر ’’زینب‘‘ بہت اہم ہے۔ زینب ہمارا مستقبل ہے۔ کوئی زندہ اور مہذب قوم اپنے مستقبل کے ساتھ ریپ برداشت نہیں کر سکتی تحفظ فراہم کرنا ہر ریاست کا اولین فریضہ ہے اور بچوں کو مستقبل کی ضمانت دینا ہر معاشرے کی شناخت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -