جو پارلیمنٹ کارکن نہیں بن سکتا وہ پارٹی سبراہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ مدت کا تعین نہ ہوتو نااہلی تاحیات ہو تی ہے : چیف جسٹس ، کیس کا فیصلہ محفوظ
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک ،نیوز ایجنسیاں)سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں پر سماعت کے دوران فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔مذکورہ کیس کی 12 فروری کو ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے غیر حاضری پر اٹارنی جنرل پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔آج سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل دیئے۔اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ 'آئین نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی معیاد کا تعین نہیں کیا'۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 'نااہلی کا داغ بعض اوقات کسی کے مرنے کے بعد بھی رہتا ہے'۔جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 'اگر کوئی کسی جرم میں سزا پائے تو وہ بھی داغ ہوتا ہے'۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیئے کہ 'سوال نااہلی کی مدت کے تعین کا ہے، آئین میں 62 ون ایف کے تحت مدت کا تعین نہیں'۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'جب مدت کا تعین نہیں تو نااہلی تاحیات ہوتی ہے'۔جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ 'نااہلی کا داغ مجاز فورم یا مجاز عدالت ہی ختم کرسکتی ہے اور نااہلی کا داغ ختم کیے بغیر نااہلی تاحیات رہے گی'۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا نااہل شخص ضمنی یا آئندہ الیکشن لڑ سکتا ہے؟'جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'عدالت کو کیس ٹو کیس مدت کا تعین کرنا ہوگا'۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ 'کیا ڈکلیریشن وقت کے ساتھ ازخود ختم ہوسکتا ہے'۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 'ڈکلیریشن ازخود ختم نہیں ہوسکتا'۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ 'کیا اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں'۔جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ 'نااہلی کی مدت کا معاملہ پارلیمنٹ ہی قانون سازی کے ذریعے کرسکتی ہے، جب تک پارلیمان قانون سازی نہیں کرتی تو ڈکلیریشن موجود رہے گا'۔اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو 'آگاہ کیا کہ آئین میں نااہلی ڈکلیریشن کو ری وزٹ یعنی (ختم) کرنے کا میکنزم بھی نہیں'۔اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جو بعد میں سنایا جائے گا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔دوسری جانب گذشتہ برس 15 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے تاہم واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔6 فروری کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا تھا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں، وہ ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔
نااہلی مدت کیس
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر ،آئی این پی )سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کوئی چوری کرتے پکڑا جائے تو کیا پارٹی سربراہ بن سکتا ہے؟ پارٹی سربراہ کیلئے کوئی اخلاقیات نہیں ہیں کیا، پارٹی سربراہ پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے، پارلیمانی سیاست میں پارٹی سربراہ کا کردار نہایت اہم ہے، پارٹی سربراہ براہ راست گورننس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، اگر کوئی شخص رکن اسمبلی نہیں بن سکتا تو سربراہ کیسے بن سکتا ہے، اگر ڈیکلیئر کردہ نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا تو سینیٹ الیکشن کا کیا ہو گا؟کیا متفقہ طور پر تیار کیا گیا قانون آئین سے متصادم نہیں ہو سکتا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعت سربراہ کے گرد گھومتی ہے، سیاسی جماعت کا سربراہ پارلیمنٹیرینز کو براہ راست کنٹرول کرتا ہے، پارٹی ارکان اپنی پارٹی سربراہ کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں۔، چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ اگر قانون کالعدم ہو گیا تو سینیٹ امیدواروں کا کیا ہو گا؟کیا سینیٹ الیکشن دوباہ ہو گا؟اگر ڈیکلیئر کردہ نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا تو سینیٹ الیکشن کا کیا ہو گا؟کیا قانون کالعدم ہونے پر واک اوورہو گا؟جب بنیاد ختم ہو جاتی ہے تو اس پر کھڑا ڈھانچہ گر جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002کا سیکشن 5نرالاتھا، سیکشن 5کے ذریعے پارٹی سربراہ کیلئے قدغن لگائی گئی، سیکشن 5آرٹیکل 17اور 19کی خلاف ورزی تھا، سیاسی جماعت کو اپنے لیڈر کے انتخاب کا حق ہے، آرٹیکل 62ون ایف کا اطلاق اراکین پارلیمنٹ پر ہوتا ہے، پارٹی سربراہ کیلئے آئینی اہلیت خاص دور میں قانون کا حصہ بنائی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام سوالات کے آپ سے جوابات لینے ہیں، قانون کالعدم ہو تو پارٹی سربراہ کے جاری کردہ ٹکٹ کا کیا ہو گا؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ امید ہے ایسی نوبت نہیں آئے گی، آرٹیکل 62ون ایف کا اثر محدود ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ایک بندہ جو چوری کرتے پکڑا گیا کیا وہ پارٹی سربراہ بن سکتا ہے؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ کی پارلیمانی کمیٹی نے منظوری دی، کمیٹی کے بعد بل کی پارلیمان سے منظوری ہوئی، کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیز کی نمائندگی تھی، عدالت نے الیکشن کمیشن سے (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پارٹی ٹکٹ کے فارم طلب کرلئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہمیں بتائیں سینیٹ کیلئے پارٹی ٹکٹ کس نے جاری کئے؟عدالت نے 1997میں کی گئی 14ویں ترمیم کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 14ویں ترمیم کتنے وقت میں منظور ہوئی تھی؟14ویں ترمیم پر کیا بحث ہوئی؟اٹارنی جنرل ریکارڈ پیش کریں۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ انتخابی اصلاحات پر پارلیمنٹ نے انتخابی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی، پارلیمانی کمیٹی نے سب کمیٹی تشکیل دی جس نے تجاویز دیں، ذیلی کمیٹی نے 25دسمبر2016کو قانونی مسودہ تیار کیا جس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں، قانون سے متعلق ذیلی کمیٹی میں بحث ہوئی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ متفقہ طور پرتیار قانون آئین سے متصادم نہیں ہو سکتا؟ پارٹی سربراہ کیلئے کوئی اخلاقیات ہیں یا نہیں؟ پارٹی سربراہ پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے،پارلیمانی سیاست میں پارٹی سربراہ کا کردار نہایت اہم ہے، پارٹی سربراہ راست گورننس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ وکیل سلمان اکرم نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی اپنے کام کا طریقہ کار خود اختیار کرتی ہے، آئین میں نااہل شخص کے حوالے سے قانون موجود ہے، پارلیمانی پارٹی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی پابند نہیں ہوتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارٹی سربراہ نااہلی کا کیس الیکشن کمیشن کو بھیجتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سربراہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارش کا پابند نہیں۔ وکیل نے بتایا کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی سیاسی جماعت کا اندرونی معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصل فیصلہ تو سربراہ نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعت سربراہ کے گرد گھومتی ہے، سیاسی جماعت کا سربراہ پارلیمنٹیرینز کو کنٹرول کرتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ براہ راست کسی رکن کو نااہل نہیں کر سکتا۔الیکشن کمیشن نے نااہلی کا جائزہ میرٹ پر لینا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا موقف احمقانہ اور مضحکہ خیز ہے، کیا پارٹی سربراہ کا حکومت سازی میں اختیار ہے؟ الیکشن کمیشن سے ریکارڈ منگوایا ہے، دیکھنا ہے پارٹی ٹکٹ کون جاری کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 14ویں ترمیم کس سیاسی جماعت کے دور میں ہوئی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارکان پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں؟ کیس کی مزید سماعت (آج) جمعرات تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔