عام انتخابات میں وہی جیتے گا جو لودھراں سے سبق سیکھے گا
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
لودھراں سے قومی اسمبلی کے نومنتخب رُکن پیر اقبال شاہ نے کہا ہے کہ انتخابی مہم اور پورے مراحل میں اُن کے صرف 25 ہزار روپے خرچ ہوئے، باقی سارا الیکشن اُن کے عقیدت مندوں نے لڑا، میرے پاس تو پیسہ بالکل نہیں ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن نہیں لڑنا چاہتے تھے، پارٹی اور دوستوں کے مجبور کرنے پر اُنہوں نے اِس میں حصّہ لیا، اِس حلقے میں پیر صاحب کے حق میں زبردست انتخابی مُہم چلانے والے وزیر مُملکت عبدالرحمن کانجو نے لودھراں کے نتیجے کو ’’2018ء کے الیکشن کا پہلا نتیجہ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اِس حلقے میں 2018ء کے انتخاب میں کامیابی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اِس کے مقابل تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات نے دعویٰ کیا ہے کہ عام انتخابات میں اُن کی پارٹی یہ نشست جیت جائے گی۔ اِس طرح کے دعوے تو سیاسی جماعتیں اور سیاست دان کرتے ہی رہتے ہیں۔ اِس لئے عام انتخابات میں کیا ہونے والا ہے اور کیا نہیں یہ تو ابھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا، البتّہ لودھراں میں جو کچھ ہوا، اِس میں جیتنے والوں اور ہارنے والوں دونوں کے لئے بُہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ اِن اسباق سے جو کوئی بھی سیکھے گا، وہ عام انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے گا۔ غلطیاں جو کوئی بھی دُہرائے گا، اُس کے لئے خسارہ ہے۔ اِس الیکشن کا سب سے بڑا سبق تو یہ ہے کہ سرمایہ ہر وقت اور ہر حالت میں کامیاب نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ فرض کر لینا چاہئے کہ جو کوئی بھی سرمایہ خرچ کرے گا، وہ ضرور کامیاب ہو جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اِس الیکشن میں جہانگیر ترین نے اپنے بیٹے کی خاطر ایک ارب روپے تک خرچ کر ڈالے، بڑی تعداد میں موٹر سائیکلیں بھی تقسیم کیں، انتخابی مہم کے دوران ہیلی کاپٹر بھی ’’سایہ فگن‘‘ رہا، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ 25 ہزار خرچ کرنے والا کیونکر کامیاب ہوا، پیر صاحب کے چاہنے والوں یا اُن کے عقیدت مندوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ضرور کچھ اخراجات کر دیئے ہوں گے، لیکن ایک ارب اور ان اخراجات کا کیا مقابلہ؟ یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ جہانگیر ترین کے اخراجات اُن کے مخالفین بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، یہ بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے لیکن اِس میں تو کوئی مبالغہ نہیں کہ جہانگیر ترین کے اخراجات حلقے میں ہر چشمِ بینا کو نظر آتے تھے، ایک موٹرسائیکل کم و بیش پچاس ہزار میں ملتی ہے۔ پیر صاحب کا کہنا اگر درست ہے تو اُنہوں نے یہ الیکشن موٹرسائیکل کی آدھی قیمت میں جیت لیا۔ ووٹروں کو نقد پیسے دینے یا انتخابی دفاتر کھولنے کے لئے ادائیگیاں تو الیکشن میں ہمیشہ ہی کی جاتی ہیں لیکن ہماری محدود اطلاعات کے مطابق ووٹروں میں موٹرسائیکلیں تقسیم کرنے کے نیک کام کا آغاز لاہور کے حلقہ این اے 122 میں تحریک انصاف کے امیدوار عبدالعلیم خان نے کیا تھا، یہ تو معلوم نہیں کہ اُنہوں نے کتنی موٹرسائیکلیں تقسیم کی تھیں، لیکن اُس وقت لاہور کے الیکشن میں اور اب لودھراں کے الیکشن میں ثابت ہو گیا ہے کہ ووٹروں کو موٹرسائیکل دے کر بھی جیت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا، البتّہ اگر دولت مند امیدوار الیکشن میں زیادہ اخراجات کرتا ہے تو ایک لحاظ سے یہ ایک صحت مند معاشی سرگرمی ہے کیونکہ اِس طرح تجوریوں میں پڑی ہوئی دولت گردش میں آ جاتی ہے اور ہزاروں لوگ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر مُستفید ہوتے ہیں، ویسے تو اِن لوگوں کی کِسی سرمایہ دار تک رسائی نہیں ہو سکتی، غریب کاشتکار اپنے فروخت کئے ہوئے گنے کی قیمت مِل مالکان سے وصول کرنے کے لئے مہینوں خوار ہوتے ہیں، بغیر کِسی مطلب کے سرمایہ کون خرچ کرتا ہے۔ اِس لئے اگر الیکشن کے بہانے ہی جہانگیر ترین کی دولت کا ایک حِصّہ گردش میں آ گیا تو اچھا ہوا، پیر صاحب کا الیکشن تو اُن کے چاہنے والے لڑ رہے تھے، اُنہوں نے کِسی کو کیا دینا تھا؟
تحریک انصاف کے نوجوان رہنما فواد چودھری نے جو براستہ پیپلزپارٹی تحریک میں آئے ہیں اور جہلم میں الیکشن ہار چُکے ہیں، بڑی پتے کی بات کی ہے، اُن کا کہنا ہے کہ علی ترین کی نامزدگی بڑی سوچ بچار کے بعد کی گئی تھی اور وسیع پیمانے پر مشاورت کے بعد اُن کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ علی ترین کو ٹکٹ محض اِس لئے دیا گیا کہ وہ جہانگیر ترین کے بیٹے ہیں اور وہ یہ چاہتے تھے کہ اُن کی خالی کی ہوئی نشست پر اُن کے بیٹے کو ٹکٹ ملے، وہ غلط تھے۔ تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ اِس کے فیصلے تو انقلابی ہوتے ہیں لیکن لوگ خواہ مخواہ اُنہیں نکتہ چینی کا ہدف بنا لیتے ہیں، جب علی ترین کا نام سامنے آیا تو اِس پر سب سے پہلا اعتراض پارٹی کے اندر سے ہوا، نامور وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ پارٹی چونکہ موروثی سیاست کے خلاف ہے اِس لئے جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ نہیں دینا چاہئے۔ لیکن اُن کے نقطہ نظر کو پذیرائی نہیں ملی، یہ کہا گیا کہ علی ترین بے شک جہانگیر ترین کے صاحبزادے ہیں لیکن علاقے کے مخصوص حالات اور حلقے کی سیاست کو اُن سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا، اِس لئے محض اِس بنیاد پر کہ اُن پر موروثی سیاست کا الزام لگے گا، اُنہیں ٹکٹ سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔ نعیم بخاری اگرچہ ناراض ہو گئے لیکن وسیع تر مشاورت کا فیصلہ بہرحال علی ترین کے حق میں تھا، اِس لئے ٹکٹ اُنہی کا حق گردانا گیا، پھر ساری انتخابی مُہم تو جہانگیر ترین نے چلائی، اِس حلقے میں چار لاکھ سے زائد ووٹر ہیں، اِس لئے انتخاب کے روز 338 پولنگ سٹیشن بنانے پڑے، اِتنے وسیع حلقے میں مہم چلانا کوئی آسان کام تھوڑی تھا، یہاں مہم تو وہی چلا سکتا تھا جس کے پاس اپنا ذاتی ہیلی کاپٹر ہو، اتنے وسیع حلقے کے ووٹروں سے رابطہ کرنے کے لئے وسائل تو بہرحال ضروری تھے۔ اگر کوئی بے وسیلہ امیدوار ہوتا تو اِس بات کی کیا ضمانت تھی کہ وہ پیر اقبال شاہ کو ہرا دیتا؟ بہرحال اب تو جو ہونا تھا ہو گیا، دیکھیں عام انتخابات میں یہ نشست کِس کے حصے میں آتی ہے۔ تحریک انصاف کو تو یہ یقین ہے کہ وہ یہ نشست جیت جائے گی۔ یہی کیا اُسے تو یہ بھی یقین ہے کہ پورے ملک میں اُس کی حکومت ہوگی۔
سبق
Back