فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر360
ہماری طرف دیکھ کر وہ مسکرائی۔ رسیّ پر ایک کپڑا پھیلا دیا اور غائب ہوگئی۔ ہم نے انہیں یقین دلانے کی بہتیری کوشش کی کہ ہم نے سامنے والی کھڑکی زندگی میں پہلی بار ہی دیکھی ہے مگر انہیں یقین نہیں آیا۔
وہ کہنے لگے ’’یار‘ میں اتفاق سے شادی شدہ ہوں ورنہ ضرور اس ہوٹل میں یہ کمرا لے لیتا۔‘‘
اسی دورے میں ہم نے پہلی بار ایسٹرن فلم اسٹوڈیو دیکھا۔ اس زمانے میں وہاں بڑی رونق تھی۔ جگدیش چند آنند کی فلم ’’مس 56ء‘‘ کی شوٹنگ جاری تھی جس میں مینا شوری پہلی بار کسی پاکستانی فلم میں کام کرنے کے لیے آئی تھیں۔ سنتوش صاحب اس فلم کے ہیرو تھے۔ سیٹ پر ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ جہانگیر خان بھی ملے۔ جہانگیر خان لاہور کے صحافی تھے۔ انگریزی روزنامہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ میں کام کرتے تھے۔ خوبرو جوان تھے۔ ہماری ان سے لاہور ہی سے یاد اللہ تھی۔ وہ شوکت حسین رضوی کی پنجابی فلم ’’چن وے‘‘ میں بھی کام کرچکے تھے اور اداکاری میں ناکام ہوچکے تھے۔ ان دنوں محکمہ اطلاعات میں افسر تھے اور خام فلم کے لائسنس جاری کرنا ان ہی کے اختیار میں تھا۔ مینا شوری کے ساتھ ان کے رومان کے چرچے بھی ہم نے سنے۔ جب مینا نے اپنے شوہر روپ کے شوری کو چھوڑ کر پاکستان میں رہنے کی خواہش کا اظہار کیا تو یار لوگوں نے کہا‘ مینا نے جہانگیر خاں کی خاطر پاکستان میں بسیرا کیا ہے اور بہت جلد دونوں کی شادی ہوجائے گی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ مینا کی ذاتی زندگی ہمیشہ بے سکون ہی رہی۔ ازدواجی زندگی اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھی۔ جیون ساتھی انہیں کبھی نہ مل سکا یہاں تک کہ زندگی کے آخری دن بھی انہوں نے تنہا‘ کسمپرسی کے عالم میں ہی گزارے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر359 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اقبال شہزاد سے ہماری ملاقات لاہور میں بھی ہوچکی تھی۔ کراچی میں بھی ملے اور پھر یہ ملاقاتیں ایک مخلصانہ دوستی میں تبدیل ہوگئیں۔ وہ کراچی میں تھے تو ہم نے کئی بار ان کے پاس ہی قیام کیا۔ پھر وہ لاہور منتقل ہوگئے۔ ایسٹرن اسٹوڈیو انہوں نے چھوڑ دیا تھا اور فلم سازی کا دھندا کرنے لگے تھے۔ وہ کامیاب فلم ساز اور ہدایتکار تھے۔ لاہور میں انہوں نے ملتان روڈ پر ’’سینے ٹیل‘‘ کے نام سے ایک فلم اسٹوڈیو بھی تعمیر کیا۔ اب غالباً وہاں کسی کمپنی کا اسٹور ہے۔
اقبال شہزاد پہلے‘ کاروبار کے سلسلے میں پاکستان سے باہر آتے جاتے رہتے تھے۔ کچھ عرصے بعد باہر ہی زیادہ وقت گزارنے لگے تھے۔ یہاں تک کہ انتقال سے کئی سال پہلے امریکہ میں سکونت اختیار کرلی تھی اور وہیں آخری دن گزارے۔
اقبال شہزاد ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوب صورت کھرے انسان تھے۔ باتیں بہت دلچسپ کرتے تھے۔ ان کا فلک شگاف قہقہہ مشہور تھا۔ بات بات پر قہقہے لگاتے تھے۔ بہت زندہ دل آدمی تھے۔ وہ انگلینڈ سے ساؤنڈ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرکے آئے تھے اور ایسٹرن اسٹوڈیوز میں ساؤنڈ انچارج تھے۔ بہت مجلسی آدمی تھے۔ کراچی کا کوئی قابل ذکر شخص یا گھرانا ایسا نہ تھا جس سے اقبال شہزاد کے مراسم نہ ہوں۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک‘ ہر ایک سے ان کی یاد اللہ اور بے تکلّفی تھی۔ رہنے والے تو وہ لاہور کے تھے‘ مزنگ میں ان کا آبائی گھر تھا‘ سات بھائی تھے اور اللہ کے فضل سے سبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مختلف شعبوں میں کامیاب و کامران‘ لیکن انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیوز سے کیا تھا۔
معروف کرکٹر وقار حسن ان کے چھوٹے بھائی ہیں جن کا فلمی دنیا سے کبھی براہِ راست تعلق نہیں رہا البتہ وقار نے کراچی کی معروف اداکارہ جمیلہ رزاق سے شادی کی اور خوش و خرّم زندگی گزار رہے ہیں۔
اقبال شہزاد بھی ایسٹرن فلم اسٹوڈیوز میں ہی کام کررہے تھے کہ انہوں نے فلم ساز بننے کا فیصلہ کیا۔ ایس ایم یوسف صاحب بمبئی سے پاکستان آچکے تھے اور کراچی میں مقیم تھے۔ ان کے صاحب زادے اقبال یوسف ان کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ اقبال شہزاد سے ملاقات ہوئی تو وہ ان کے خیالات سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنی پہلی فلم کی ہدایت کاری کے فرائض اقبال یوسف کو سونپ دیئے۔ اقبال شہزاد کی پہلی فلم کا نام ’’رات کے راہی‘‘ تھا۔ اس فلم میں بمبئی کی چلبلی ہیروئن ریحانہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ شمیم آرا اس فلم میں ایک ڈانسر کے طور پر پیش کی گئی تھیں۔ ان کی پہلی فلم ’’کنواری بیوہ‘‘ کئی سال پہلے فلاپ ہوچکی تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ فلمی دنیا میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس کے باوجود شمیم آرا نے ہمت نہ ہاری اور’’ رات کے راہی‘‘ میں انہوں نے بہت محنت اور لگن سے کام کیا۔ الیاس رشیدی صاحب نے انہیں آگے بڑھانے میں نمایاں حصّہ لیا اور جب انور کمال پاشا نے اپنی فلم ’’انارکلی‘‘ کا آغاز کیا تو الیاس صاحب کی سفارش اور اصرار پر شمیم آرا کی نانی اماں نے یہ عقلمندی کی کہ لاہور کی فلموں میں موقع ملتے ہی کراچی سے ترک سکونت کرکے لاہور آگئیں اور لاہور ہی کو اپنا ٹھکانا بنا لیا۔ کراچی میں شمیم آرا کی جائیداد اور رشتے دار موجود تھے اور وہ باقاعدگی سے کراچی جاکر اپنی کوٹھی میں قیام کرتی تھیں مگر اس کے بعد وہ لاہور ہی کی ہو کر رہ گئیں۔
’’رات کے راہی‘‘ کی ہیروئن ریحانہ تھیں۔ اس سے پہلے وہ لاہور میں بنائی جانے والی فلم ’’وحشی‘‘ میں کام کرچکی تھیں جس کے ہدایت کار منوّر ایچ قاسم تھے۔ ’’وحشی‘‘ پاکستان میں ریحانہ کی پہلی فلم بھی جو ہر لحاظ سے ایک فلاپ فلم تھی۔ ریحانہ نے جب بمبئی کی فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوکر پاکستان آنے کا ارادہ کیا تھا تو سب سے پہلے اپنی والدہ اور والد کے ساتھ لاہور آئی تھیں۔ ان سے اپنی ملاقات کا احوال ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔ شباب صاحب کی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ کے لیے بھی ریحانہ کو کاسٹ کرنے کا قصد کیا گیا تھا مگر ان کے معاوضے کی رقم سن کر شباب کیرانوی پسپا ہوگئے تھے۔
ریحانہ بمبئی میں ایک کامیاب ہیروئن تھیں۔ انہوں نے وہاں ممتاز اداکاروں کے ساتھ کام کیا اور شہرت حاصل کی۔ وہ شوخ اور چلبلے کرداروں کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھیں لیکن بدقسمتی سے شہرت اور دولت کے باوجود وہ گھریلو زندگی اور سکون قلب سے ہمیشہ محروم ہی رہیں۔ پاکستان آنے کے بعد بھی ان کے ستاروں کی یہ گردش جاری رہی۔ انہوں نے یہاں اپنی فلمی زندگی کا آغاز ہی ایک ناکام فلم سے کیا تھا۔ اگر انہیں کسی اچھے ہدایت کار کی فلم میں کام کرنے کا موقع مل جاتا تو حالات یکسر مختلف ہوتے مگر قسمت کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی انہیں سکون قلب اور گھریلو زندگی حاصل نہ ہوسکی حالانکہ وہ طبعاً ایک سادہ گھریلو قسم کی خاتون تھیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ فلموں میں اپنے شوخ و چنچل کرداروں کے حوالے سے شہرت رکھتی تھیں مگر عام زندگی میں بے حد سنجیدہ‘ متین اور لیے دیئے رہنے کی قائل تھیں۔ خوش اطواری اور شائستگی ان پر ختم تھی۔ شاید اس لیے کہ لکھنؤ سے ان کا تعلق تھا جو تہذیب و شائستگی کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر361 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں