سعودی ولی عہد کے لئے دیدہ و دِل فرشِ راہ
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، پاکستان کے دو روزہ دورے پر16فروری کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، اُن کے دورے کی تیاریاں زبردست طریقے سے جاری ہیں،اُن کا قیام وزیراعظم ہاؤس میں ہو گا۔ تاہم اُن کے ہمراہ آنے والے بھاری وفد اور عملے کے ارکان کے لئے اسلام آباد کے ہوٹلوں میں انتظامات کئے گئے ہیں۔معزز مہمانوں کی فول پروف سیکیورٹی کے انتظامات پاک فوج کے سپرد کر دیئے گئے ہیں۔سعودی ولی عہد کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔وزیراعظم عمران خان، کابینہ کے ارکان کے ہمراہ ایئر پورٹ پر اُن کا استقبال کریں گے۔ سعودی ولی عہد چار طیاروں کے ساتھ پاکستان میں لینڈ کریں گے، معزز مہمانوں کے طیاروں کے پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہی پاک فضائیہ کے جے ایف17 تھنڈر طیارے اُنہیں سیکیورٹی حصار میں لے لیں گے۔ پاک فضائیہ کے شیر دِل سکواڈرن کی جانب سے اُنہیں سلامی دی جائے گی۔ ائر پورٹ سے اُنہیں وزیراعظم ہاؤس لایا جائے گا، امکان ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی گاڑی وزیراعظم عمران خان خود ڈرائیو کریں گے۔ مہمانوں کی سیکیورٹی کے لئے123شاہی محافظ پہلے ہی پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے اس دورے کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اُن کی آمد سے قبل جنرل (ر) راحیل شریف ایک بڑے فوجی وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ مکمل کر کے واپس جا چکے ہیں، اپنے قیام پاکستان کے دوران انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے خصوصی طور پر ملاقات کی۔ امکان ہے کہ اس ملاقات میں سرزمینِ حرمین شریفین کی سیکیورٹی کے متعلق امور پر تبادل�ۂ خیال کیا گیا۔ یہ دورہ باہمی تعلقات کی مضبوطی کے حوالے سے تو اپنی مثال آپ ہے تاہم اس کے نتیجے میں پاکستان میں سعودی حکومت اور سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو گا۔ گوادر میں آئل سٹی بنایا جائے گا،ان سب منصوبوں پر ایک اندازے کے مطابق15ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ کاری کی جائے گی۔ سعودی حکومت پہلے ہی پاکستان کو تین ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج دے چکی ہے اور یہ رقم ایک ایک ارب ڈالر کی تین اقساط میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں جمع ہو چکی ہے، تین ارب ڈالر اُدھار تیل کے پروگرام پر بھی عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی سعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز کے دور ہی میں دونوں ممالک کے قریبی تعلقات قائم ہو گئے تھے۔1974ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر دُنیا بھر کے اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت کے ساتھ اس وقت کے شاہ فیصل بھی پاکستان آئے تھے۔ پاکستان نے ان سربراہوں کے لئے دیدہ و دِل فرشِ راہ کئے، یہ اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں ہوئی تھی اور پنجاب اسمبلی کے سامنے شاہراہ قائداعظم پر پُرشکوہ’’سمٹ مینار‘‘ اس کی یاد دِلاتا ہے، جو مسلم دُنیا کے اتحاد کی علامت کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کے تعلقات کا طویل سفر رکاوٹوں کے بغیر ہمیشہ جاری رہا ہے اور سعودی حکومت کے سفارتی نمائندے پاکستان کے امور میں گہری دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک سے پیدا شدہ سیاسی بحران کے دوران اُس وقت کے سعودی سفیر ریاض الخطیب نے خصوصی کردار ادا کیا، جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا سعودی عرب نے دامے، درمے، سخنے پاکستان کی ہر ممکن مدد کی۔
1998ء میں جب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے اور اِس سلسلے میں امریکی صدر کلنٹن کے بار بار ٹیلی فون اور اُن کی جانب سے کی جانے والی پیش کشوں کے باوجود اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنا پروگرام تبدیل نہ کیا، تو امریکی قیادت میں یورپی ممالک نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں تو بھی سعودی عرب نے پاکستان کی دِل کھول کرامداد کی تھی۔ پاک سعودی تعلقات کی قربت کی تاریخ تو ستر سال پر محیط ہے،لیکن یمن کی جنگ میں پاک فوج سعودی عرب بھیجنے کے سوال پر شاید شیشے میں بال آ گیا تھا، کیونکہ پارلیمینٹ میں کئی دن کی تفصیلی بحث کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب میں جو پاکستانی فوج مقیم ہے وہ سعودی سیکیورٹی کو لاحق کسی خطرے کا مقابلہ سعودی سرزمین میں رہ کر کرے گی اور سعودی سرحدوں سے باہر جا کر خدمات انجام نہیں دے گی، سعودی حکومت شاید یہ توقع کر رہی تھی کہ پاک فوج کو یمن میں ڈیپلائے کیا جا سکے گا اور جب ایسا نہ ہوا تو قدرتی طور پر تعلقات کو ایک دھچکا لگا،لیکن یہ پارلیمینٹ کا فیصلہ تھا اب بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان یمن تنازعہ کا حصہ نہیں بن رہا تو اسے اس پالیسی کا تسلسل ہی کہنا چاہئے، جو پارلیمینٹ نے طے کر دی تھی۔
سعودی حکومت نے تو وقار کے ساتھ اس صورتِ حال کا سامنا کیا اور سفارتی نزاکتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے برسرعام اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز ہی کیا،لیکن یو اے ای کے ایک وزیر نے پاکستان کو کھلے عام ہدفِ تنقید بنا ڈالا اور ایسی باتیں بھی کہہ ڈالیں،جو یو اے ای کے ایک نمائندے کے شایانِ شان نہ تھیں۔ پاکستان نے اگرچہ اس پر کوئی ردعمل تو نہیں دیا،لیکن اس کے بعد یو اے ای کے ساتھ پہلے والی گرمجوشی نہ رہی۔ البتہ سعودی عرب نے اس کے بعد ہی جنرل (ر)راحیل شریف کو اسلامی اتحاد فورس کا سربراہ بنایا۔ یہ فورس دہشت گردی کے مقابلے کے لئے تیار کی گئی ہے تاہم اس کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ اِس لئے بھی کیا جاتاہے کہ ایران سمیت بہت سے مُلک اِس فورس کے رکن نہیں ہیں۔ایران اور سعودی عرب میں جو سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے وہ پاکستان کی کوششوں کے باوجود آج تک بحال نہیں ہو سکے۔
اِس سارے پس منظر میں سعودی ولی عہد کے دورۂ پاکستان اور اُن کے شاندار استقبال کی تیاریوں سے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی جہت ملی ہے، تو اسے پرانے تعلقات کی ایک گرمجوشانہ توسیع بھی کہا جا سکتا ہے، جس کا اظہار اسلام آباد کی شاندار میزبانی سے بھی ہو گا۔مہمان داری کے تقاضوں کو سامنے رکھا جائے تو اس طرح کا استقبال حالیہ برسوں میں پاکستان میں شاید ہی کسی غیر ملکی مہمان کا کیا گیا ہو۔ مہمانوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جانے کے لئے حکومت نے تین سو گاڑیوں کا انتظام کیا ہے، جو گاڑیوں کے شورومز سے کرائے پر حاصل کی گئی ہیں، کیونکہ اِس وقت وزیراعظم ہاؤس میں ایسی گاڑیاں بڑی تعداد میں موجود نہیں جو مہمانوں کے شایانِ شان ہوں۔ وزیراعظم عمران خا ن نے منصب سنبھالتے ہی بہت سی گاڑیاں نیلام کروا دی تھیں، جن سے حکومت کو16کروڑ روپے حاصل ہوئے۔ اب کرائے پر گاڑیاں حاصل کرنے کے فیصلے سے یہ احساس تو ہوتا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں جلد بازی میں فروخت نہ کی جاتیں تو اچھا تھا، کیونکہ آئندہ بھی غیر ملکی مہمانوں کے لئے اگر گاڑیاں کرائے پر لی جاتی رہیں تو ان پر گاڑیوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے زیادہ اخراجات اُٹھ جائیں گے اور جس بچت کی امید لگائی گئی تھی وہ ہوا میں اُڑ جائے گی۔