بچوں کے کینسر کی بر وقت تشخیص سے جان بچنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں
دنیا بھر میں ہر سا ل پیدائش سے انیس سال کی عمر کے تقریباً تین لاکھ بچوں کو کینسر تشخیص ہوتا ہے اور ان بچوں میں ہر 10میں سے 8کا تعلق کم یا متوسط آمدنی والے ممالک سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے کینسر کے سالانہ تقریباً آٹھ ہزار کیس رپورٹ ہوتے ہیں، لیکن اصل میں یہ تعداد اس دوگنی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے بچے کینسر کے ہسپتال تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت کم ترقی یافتہ ممالک کے بچوں میں کینسر سے صحت یاب ہونے کی شرح بھی کم ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق یہ فرق ترقی یافتہ ممالک کے اسی فیصد کے مقابلے میں غیر ترقی یافتہ ممالک میں صرف بیس فیصد تک کا ہے۔ ان خیالات کا اظہار شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر کی کنسلٹنٹ پیڈیاٹرک اونکالوجسٹ ڈاکٹرحلیمہ سعید نے بچوں کے کینسر کے عالمی دن کے موقع صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر بچوں کے کینسر کی تشخیص صحیح وقت اور ابتدائی مراحل میں ہو جائے توبچوں کے کینسر کے ماہرین کی زیر نگرانی کامیاب علاج ممکن ہے۔ پاکستان میں بچوں میں سب سے زیادہ پایا جانے والا کینسر لیوکیمیا یا خون کا کینسر ہے اگرچہ اس کے کامیاب علاج کے امکانات 95 فیصد ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں اس مرض کے باعث ہونے والی شرح اموات دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ تو بیماری کی دیر سے تشخیص اور دیر سے علاج کا آغاز ہے تو دوسری اہم وجہ غذا کی کمی بھی ہے۔ لیوکیمیا کی علامات پوشیدہ نہیں رہتیں اور زیادہ تر کیسز میں یہ فوراً ظاہرہو جاتی ہیں ان علامات میں خون کی کمی ہونا، رنگ پیلا پڑ جانا، خون کا مسلسل بہنا اور بچے کا ہر وقت تھکا تھکا رہنا شامل ہیں۔ لیوکیمیا کے بعد بچوں میں ہڈیوں اور آنکھ کے کینسر کے کیس بھی بڑی تعداد میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ آنکھ کا کینسر ایک ایسا مرض ہے جو کہ ماں اور باپ کی جین سے بچوں میں آسکتا ہے اس لئے اگر کسی بچے میں یہ مرض تشخیص ہو جائے تو دوسرے فیملی ممبرز کی سکریننگ کرنا بھی ہونی چاہئے۔
ڈاکٹر حلیمہ نے بتایا کہ بچے کی صحت میں متوازن خوراک کا کردار بہت اہم ہے۔ ہمارے ہاں ایک طرف تو بچے غذائی قلت کا شکار ہیں تو دوسری طرف بچوں کو غیر متوازن خوارک دی جاتی ہے اور اس میں پروٹین اور وٹامن کی مناسب مقدار کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ بچوں کی خوراک اورصحت کا خیال رکھنا ایک مسلسل عمل ہے اور ہر چھ ماہ بعد بچوں کا باقاعدہ چیک اپ کرواتے رہنا چاہئے تا کہ جسم میں کسی بھی قسم کی غیر معمولی تبدیلی کا پتہ لگایاجا سکے۔
ڈاکٹر حلیمہ کا کہنا تھا کہ بچوں کی بیماریوں کے علاج کے لئے خصوصی ماہرین کے ساتھ ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹر میں اس حوالے سے بہترین سہولیات دستیاب ہیں۔ یہاں لیو کیمیا کے علاج کے لئے دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی cytogeneticsٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کینسر کی کی مختلف جہتوں اس کی شدت اور بچے میں اس کے علاج کے حوالے سے پائی جانے والی قوتِ مدافعت کے بارے میں درست اندازہ لگانا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ یہاں MRDکی سہولت بھی موجودہ جس کی مدد سے کینسر کے علاج میں ہونے والی پیشرفت کا درست اندازہ لگا کر علاج کی سمت کا تعین کیا جانا ممکن ہے۔ چونکہ بچوں کا کینسر ایک عالمی مسئلہ ہے اس لئے شوکت خانم ہسپتال نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے حال ہی میں سینٹ جوڈ گلوبل الائنس کے ساتھ اشتراک کیا ہے جو کہ دنیا بھر میں کینسر کے مریض بچوں کو سہولیات کی فراہمی اور علاج کے معیار کو بڑھانے کے لئے کام کرتا ہے۔ اس عالمی ادارے کے ساتھ مشترکہ کوششوں کی بدولت پاکستان اور دنیا بھر میں کینسر کے علاج کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
ڈاکٹر حلیمہ نے مزید بتایا کہ بچوں کے کینسر کے علاج میں روایتی طریوں کے علاوہ پلے تھراپی یا میوزک تھراپی بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ اس تھراپی سے بچوں میں بیماری اور علاج کے باعث ہونے والے چڑچڑے اورغصیلے پن پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال لاہور اور پشاور میں بچو ں کے لئے دوستانہ ماحول مہیا کیا گیا ہے تا کہ بچے مختلف کھیلوں کے ذریعے اپنی پریشانی اور تکلیف کو بھلا سکیں۔ پلے تھراپی کے علاوہ یہاں بچوں کے لیے ٹیچرز بھی موجود ہیں جوان کو پڑھائی جاری رکھنے میں مدد کرتی ہیں تاکہ وہ علاج مکمل ہونے پر دوبارہ سے سکول شروع کرنے میں آسانی محسوس کریں۔
ڈاکٹرحلیمہ سعید کا کہنا تھا کہ اس انٹرنیشنل چائلڈہوڈ کینسر ڈے کے موقع پرہم سب کو مل کر اس حوالے سے سہولیات اور آگاہی بڑھانے پر کام کرنا چاہئے تاکہ ہر بچے کو بر وقت تشخیص اور علاج کی سہولت میسر آ سکے۔