خوردنی اشیا میں ملاوٹ کے خلاف ایمرجنسی
وزیراعظم عمران خان نے چاروں صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر اشیائے خوردو نوش میں ملاوٹ کی روک تھام کے لئے تفصیلی حکمت ِ عملی مرتب کریں، جس کے بعد مسئلے سے نبٹنے کے لئے ملکی سطح پر حکمت ِ عملی وضع کی جائے گی، وزیراعظم نے اشیائے خوردو نوش میں ملاوٹ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ دودھ، گوشت اور دالوں جیسی بنیادی ضرورت کی اشیا میں ملاوٹ کسی صورت قابل ِ قبول نہیں، ملاوٹ کرنے والے عوام،خصوصاً ہمارے بچوں،جو ہمارا مستقبل ہیں، کی صحت سے کھیلتے ہیں، جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ملاوٹ ہمارے معاشرے کا ایسا مستقل روگ ہے، جس کا علاج جتنا جلد ہونا چاہئے اتنا ہی اس سے اغماض برتا جا رہا ہے، ملاوٹ روکنے کے ذمہ دار اداروں کی کوشش کے باوجود اب تک ملاوٹ کا دھندہ جاری ہے، دودھ کیمیکل سے تیار ہو رہا ہے،جہاں کہیں ”اصلی دودھ“ میسر ہے وہ بھی پانی اور بعض دوسرے مرکبات کی ملاوٹ سے پاک نہیں۔گوالے اپنے دودھ دینے والے جانوروں کو ایسے ٹیکے برسر عام لگاتے ہیں جن کے ذریعے دودھ تو زیادہ حاصل کر لیا جاتا ہے،لیکن پتہ چلا ہے کہ ٹیکے لگا کر حاصل کردہ دودھ کی وجہ سے کینسر جیسا موذی مرض پھیلتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پانچ پانچ،سات سات سال کے بچے بھی کینسر میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے، جہاں اس کا علاج مہنگا ہے وہاں ہسپتالوں میں سہولتیں بھی کم ہیں،اِس لئے اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مرض کے اسباب تلاش کر کے ان کی روک تھام کی جائے،جو بچے ٹیکوں کے ذریعے حاصل کردہ دودھ اور کیمیکل سے بنا ہوا محلول پئیں گے کیا شُبہ ہے کہ وہ صحت مند طور پر زندگی کی دوڑ میں شریک نہیں ہو سکتے۔مرغیوں کے مردہ گوشت کی فروخت بھی بدستور جاری ہے اور روزانہ ایسی خبریں اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں کہ فلاں جگہ سے اتنے من مردہ مرغیوں کا گوشت پکڑا گیا،گندے انڈے بیکری والے خرید لے جاتے ہیں ایسے لاکھوں گندے انڈے بھی پکڑے جا چکے ہیں،لیکن اس دھندے پر قابو نہیں پایا جا سکا، فارمی انڈوں کو رنگ کر کے دیسی ظاہر کیا جاتا ہے،مسور کی دال میں مویشیوں کی خوراک کے طور پر استعمال ہونے والا ونڈہ ملایا جاتا ہے،جس کا رنگ مسور کی دال سے ملتا جلتا ہے اور یہ مسور کی دال کی نسبت بہت سستا ہے، چائے کی پتی، ہلدی، سرخ مرچ وغیرہ میں ملاوٹ کا تو تذکرہ ہی کیا، یہ کام تو عشروں سے جاری ہے اور کوئی حکومت اس کو نہیں روک سکی۔ گوشت میں پانی کی ملاوٹ البتہ ”نئی فن کاری“ ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ملاوٹ کے دھندے نے وسعت اختیار کر لی ہے اور یہ کام کرنے والے اتنے بڑے ”کاریگر“ ہیں کہ طویل عرصے تک تو اُن کے متعلق گمان ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیمیکل والا دودھ فروخت کرتے ہوں گے،اُن کی شہرت یہ ہوتی ہے کہ یہ خالص دودھ بیچتے ہیں،اُن کی دکان کے باہر خریداروں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں،لیکن ان سادہ لوح گاہکوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ جو دودھ وہ خالص سمجھ کر خرید رہے ہیں اس میں دودھ نام کی کوئی چیز نہیں،ایسے دکاندار سالہا سال تک اپنی ”گڈ ول“ کی بنیاد پر کامیاب کاروبار کرتے ہیں اور جب کبھی اُن کا بھانڈا پھوٹتا ہے تو وہ چند روز تک اِدھر اُدھر ہو کر، یا اگر گرفتار ہو جائیں تو تھوڑے عرصے تک جیل بھگت کر کسی اور علاقے میں یہی کاروبار دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کیمیکل ملا دودھ بدستور فروخت ہو رہا ہے، ملاوٹ کا کاروبار تو اس حد تک پھیل گیا ہے کہ بعض ایسی ملاوٹیں بھی عام ہو گئی ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ خربوزوں کو میٹھا کرنے کے لئے سکرین کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔چینی سے ”خالص شہد“ بنایا جاتا ہے اور بناسپتی گھی میں دیسی گھی کی خوشبو شامل کر کے اسے دیسی ظاہر کیا جاتا ہے۔
وزیراعظم نے صوبائی حکومتوں کو ملاوٹ کی روک تھام کے لئے ہنگامی طور پر اقدامات کر کے حکمت ِ عملی وضع کرنے کی جو ہدایت کی ہے وہ بہت بروقت ہے اور اگر وہ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ روکنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ اُن کی بہت بڑی کامیابی ہو گی، تاہم حکمت ِ عملی بناتے وقت یہ خیال رکھنا ہو گا کہ اس سے پہلے متعلقہ ادارے ملاوٹ روکنے میں کیوں ناکام رہے، جب ملاوٹی اشیا پکڑی جاتی ہیں اور جن جگہوں پر یہ تیار ہوتی ہیں، ان کی نشاندہی بھی کر دی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد ملاوٹ کے دھندے میں گرفتار لوگ دوبارہ نمودار ہو کر یہی کام شروع کر دیتے ہیں، کیا کوئی اُن کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہوتا یا سرکاری اہلکار کسی نہ کسی وجہ سے اُن کے جرم سے چشم پوشی کر لیتے ہیں جو ادارے ملاوٹ روکنے پر مامور ہیں ان سے یہ تو معلوم کرنا چاہئے کہ تمام تر اختیارات کے باوجود وہ اب تک ملاوٹ روکنے میں کیوں ناکام ہیں اور یہ سلسلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کیوں بڑھتا جا رہا ہے۔
جب تک ملاوٹی اشیا کے بارے میں عوام کو آگاہی ہوتی ہے یہ اُن کی صحت کو برباد کر چکی ہوتی ہیں، اِس وقت عالم یہ ہے کہ اشیائے خوراک میں شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو جو ملاوٹ سے بچی ہوئی ہو،بازار میں ایسی اشیا بھی عام فروت ہوتی ہیں جن میں اگر ملاوٹ نہ بھی ہو تو بھی ان کے استعمال کی مدت گزر جانے کی وجہ سے قابل ِ استعمال نہیں رہتیں، لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ اشیا بھی بدستور سٹوروں پر فروخت ہو رہی ہوتی ہیں،بیرون ملک سے کثیر زر مبادلہ خرچ کر کے ایسی اشیا درآمد کر لی جاتی ہیں،جو وہاں نسبتاً کم قیمت پر دستیاب ہو جاتی ہیں، چونکہ بیرون ملک ان اشیا کی فروخت ممکن نہیں ہوتی، اِس لئے ان اشیا کے تیار کنندگان اسے ایسے تاجروں کو فروخت کر دیتے ہیں، جو ہمارے جیسے ممالک میں لا کر برسر عام فروخت کی جاتی ہیں،لیکن اِس طرف ہمارے متعلقہ اداروں کا دھیان نہیں جاتا،ویسے بھی جہاں اشیائے خوردنی میں ملاوٹ جیسا معاشرتی جرم کرتے ہوئے کسی کو پریشانی نہیں ہوتی، وہاں ایکسپائرڈ اشیا فروخت کرنے میں کسی کو کیا ندامت ہوتی ہو گی، اُن کا موقف تو یہ ہوتا ہے کہ چند برس پہلے تک تو اشیائے خوردنی پر ان کے استعمال کی ایکسپائری کی تاریخ درج ہی نہیں ہوتی تھی اور وہ لامحدود مدت کے لئے استعمال کی جا سکتی تھیں تو اب اس میں کیا قباحت ہے، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کی روک تھام کی حکمت ِ عملی بناتے وقت اس جانب بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
صوبائی حکومتوں کو آٹھ دن کے اندر حکمت ِ عملی وضع کرنے کی جو ہدایت کی گئی ہے اس پر بھی سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے، وفاقی حکومت اس کام کو اگر ایمرجنسی بنیادوں پر شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو صوبائی حکومتوں کے ساتھ بہتر رابطے کی ضرورت ہو گی،کیونکہ جو بھی پالیسی بنے گی اس پر عملدرآمد تو صوبائی حکومتوں نے کرانا ہے یہ بات توجہ طلب ہے کہ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کے خلاف قانون تو اب بھی موجود ہے اور گرفتار ہونے والے سزا بھی پاتے ہیں،لیکن یہ سزائیں معمولی ہیں اصل میں کوتاہی یہی ہے کہ معمولی سزاؤں کی وجہ سے یہ جرم کرنے والے قانون کی پروا نہیں کرتے،حالانکہ دیکھا جائے تو ملاوٹ کا جرم قتل سے کم سنگین نہیں ہے،کیونکہ ملاوٹی اشیا استعمال کر کے ایک دو نہیں، دو چار سو نہیں، ہزاروں لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں،کیا ملاوٹ کرنے والوں کو موت کی سزا نہیں ہونی چاہئے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ ناقص اور ملاوٹی خوراک کھا کر بیمار ہونے والے جب ہسپتال پہنچتے ہیں تو وہاں بھی جعلی ادویات سے واسطہ پڑتا ہے اور ایسی شکایات بھی ہیں کہ ہسپتالوں کے میڈیکل سٹوروں سے اصل ادویات غائب کر کے اُن کی جگہ جعلی ادویات رکھ دی جاتی ہیں، خاص طور پر مہنگی ادویات جعل سازی کا خصوصی ہدف ہیں، علاج کرنے والے سینئر ڈاکٹر حیران ہوتے ہیں کہ اُن کا علاج کارگر کیوں نہیں ہوتا، تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ مریض کو جو انجکشن دیا گیا وہ جعلی تھا، ان حالات میں آدمی جائے تو جائے کہاں؟ اِس لئے ملاوٹی اشیا کے خلاف اگر مہم ایمرجنسی میں شروع کی گئی ہے تو پھر اسے منطقی انجام تک پہنچانا بہت ضروری ہے، نیم دلانہ اقدامات ماضی میں بہت ہو چکے، اب ایک فیصلہ کن اور نتیجہ خیز اقدام کی ضرورت ہے۔