وزیراعظم کو گھر بھیجنے کی پھر وہی جلدی
ہماری جمہوریت کا سب سے بڑا خلاء یہ ہے کہ اس میں اپنے منتخب وزیراعظم کو سہارا دینے کی سکت نہیں ہے۔ کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پاتا۔ ہم تو آج تک اس پر بھی اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ڈالیں؟…… دو سال پہلے سابق وزیراعظم نوازشریف نے بڑی شد و مد سے یہ سوال اٹھایا تھا کہ مجھے ”کیوں نکالا“؟……ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا تھا کہ چند جرنیلوں یا چند ججوں کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ بیس کروڑ عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم کو بیک جنبشِ قلم یا بندوق کی نوک پر گھر بھیج دیں؟…… جب وہ یہ سوال اٹھا رہے تھے تو خود ان سے یہ سوالات پوچھے جا رہے تھے کہ وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے میں خود انہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جو کردار ادا کیا، اس کی ذمہ داری بھی کیا وہ لیں گے؟ تاریخ اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اس کا سرا نہیں ملتا۔ صرف جرنیلوں کے بارے میں یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنتی کہ انہوں نے منتخب وزرائے اعظم کو چلنے نہیں دیا…… کندھا تو اس کام کے لئے بار بار سیاستدانوں نے پیش کیا۔
جمہوریت صبر سکھاتی ہے، لیکن یہاں تو بے صبری کی انتہا نظر آتی ہے۔ ماحول تو خود سیاستدان ایسا بنا دیتے ہیں کہ منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔2014ء میں جب تحریک انصاف نے 126 دنوں کا دھرنا دیا تھا تو اسمبلی اور وزیراعظم اس لئے بچ گئے تھے کہ پارلیمنٹ کے اندر موجود سیاسی قوتوں نے یکجہتی اور جمہوریت بچانے کے لئے متحد رہنے کا مظاہرہ کیا تھا، وگرنہ بساط تو اس وقت بھی لپیٹی جا سکتی تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام ہو گئی، سب کچھ آئینی و جمہوری روایات کے مطابق ہوا، کسی غیر آئینی طاقت سے مطالبہ نہیں کیا گیا کہ وہ صدر ٹرمپ کو نکال باہر کرے۔ کوئی دوسرا آپشن رکھا ہی نہیں گیا کہ امریکی صدر کو اس کے سوا بھی کسی طریقے سے گھر بھیجا جا سکے۔ پاکستانی آئین میں بھی وزیراعظم کو ہٹانے کا ایک طریقہ درج ہے…… عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اسے گھر بھیجا جا سکتا ہے، مگر یہاں اس کے ساتھ ساتھ چھڑی گھمانے اور صادق و امین کی عدالتی تلوار چلانے کے طریقے بھی وزیراعظم کو ہٹانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان کے لئے حالات سیاستدان خود پیدا کرتے ہیں اور اپنے اختیار کو اپنے ہاتھوں سے کسی دوسرے کو دے دیتے ہیں۔
اب ذرا غور فرمائیں کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے؟…… جان بوجھ کر ایسی افواہیں اڑائی جا رہی ہیں کہ مارچ میں حکومت ختم ہونے والی ہے۔ دوسری طرف مطالبے پر مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت گھرجائے اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ بھائی یہ بالا بالا کیسے ممکن ہے؟ اس کا تو ایک طریقہ موجود ہے۔ آپ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں،اسے چلتا کریں۔ اس کی جگہ جسے وزیراعظم بنائیں، اس کے ذریعے اسمبلی تڑوا دیں اور نئے انتخابات کرا دیں۔ یہ دوسرا طریقہ کیسے استعمال ہو سکتا ہے؟…… ایک طرف آپ کا موقف ہے کہ وزرائے اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی اور دوسری طرف آپ خود وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دے رہے۔ یہ دو عملی ہے یا منافقت؟…… اس سے عوام کو بے وقوف بنانا مقصود ہے یا جمہوریت کو تماشا بنانا؟…… کیا یہ سہولت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے صرف اپنے لئے رکھی تھی کہ دونوں ایک دوسرے کو مدت پوری کرنے دیں گی؟ کیا عمران خان کو برداشت کرنا اتنا ہی مشکل ہو رہا ہے؟…… پھر یہ مطالبہ آپ کس سے کر رہے ہیں کہ حکومت کو رخصت کیا جائے۔ کیا جمہوریت کا مذاق نہیں اڑایا جا رہا کہ منتخب حکومت کو ختم کرنے کے لئے ریاست کی طاقتور قوتوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ کوئی قدم اٹھائیں؟ تحریک انصاف والوں نے تو دوٹوک کہہ دیا ہے کہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی اور نئے انتخابات بھی 2023ء ہی میں ہوں گے۔ اب آئینی راستہ کون سا رہ جاتا ہے؟ سوائے عدم اعتماد کے……تو پھر اسے چھوڑ کر آئے دن ”حکومت گئی، حکومت جواز کھو بیٹھی، حکومت مستعفی ہو، وزیراعظم عمران خان ناکامی تسلیم کرکے حکومت چھوڑ دیں“ جیسے مطالبات کا کیا جوا زہے؟ یہ کسے سنایا جا رہا ہے کہ حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے دی گئی تو ملک خدانخواستہ ڈوب جائے گا؟ یہ تو وہی گیم ہے جو ماضی میں بھی کھیلی جاتی رہی ہے۔ پھر اس بیانیہ کا کیا جواز ہے کہ ملک میں کسی منتخب وزیراعظم کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا؟
آج جو الزامات لگا کر ایک منتخب وزیراعظم سے استعفا مانگا جا رہا ہے، یہ الزامات تو ہر حکومت اور ہر وزیراعظم پر لگتے رہے ہیں …… ”معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے، ریکارڈ قرضے لئے گئے ہیں، کرپشن عام ہو گئی ہے، مہنگائی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، ملک کی سلامتی خطرے میں ہے، وزیراعظم نااہل ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ کیا ایسے الزامات پر وزیراعظم کو گھر بھیج دیا جانا چاہیے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر یہ شکوہ نہیں کیا جانا چاہیے کہ منتخب وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے گھر کیوں بھیجا جاتا رہا؟ یہ الزامات تو بے نظیر بھٹو پر بھی لگے اور نوازشریف پر بھی، یوسف رضا گیلانی بھی ان کی زد میں رہے اور بطور صدر آصف علی زرداری بھی، گویا ان کے ساتھ جو ہوا وہ ٹھیک تھا؟ یعنی انہیں وقت سے پہلے ہٹایا گیا تو درست فیصلے تھے؟ ظاہر ہے اس کی تائید کوئی نہیں کرے گا…… تو پھر وزیراعظم عمران خان کو ان الزامات کے تحت ہٹانے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ معیشت کو ٹھیک کر رہے ہیں اور انہوں نے پچھلی حکومتوں کے غلط فیصلوں اور لوٹ مار کی وجہ سے پاکستان پر واجب الادا ہزاروں ارب روپے کے قرضے اتارے ہیں۔ بڑی مشکل سے ہم یہ دعویٰ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ہمارے ہاں انتخابات پانچ سال بعد ہوتے ہیں اور انتخابات کے ذریعے بننے والی حکومتیں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرتی ہیں …… اب تک تو حکومتیں پانچ سالہ مدت پوری کرتی ہیں، کل وزیراعظم بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے لگیں گے،
بشرطیکہ اس عمل کو چلنے دیا جائے…… لیکن آج وہی جماعت سب سے آگے ہے، جس کے قائد نوازشریف نے ”ووٹ کو عزت دو“ کی مہم چلائی اور وزرائے اعظم کو آئینی مدت سے پہلے گھر بھیجنے کے عمل پر سب سے بلند آہنگ آواز اٹھائی…… جو بات آپ اپنے لئے غلط سمجھتے ہیں، وہ دوسرے کے لئے صحیح کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر اصولی موقف یہ ہے کہ سوائے آئینی طریقے کے اور کسی بھی طرح منتخب وزیراعظم کو نہیں نکالا جا سکتا تو پھر اس کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے۔ اگر اس میں ”چونکہ، چنانچہ“ کی گنجائش رکھی جائے گی تو پھر یہ شکوہ نہیں بنتا کہ جمہوریت پر شب خون مارا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ موجودہ حکومت کا رہنا ملکی مفاد میں نہیں تو آئینی راستہ اختیار کریں۔ ہماری جمہوریت نے اگر 90کی دہائی ہی میں رہنا ہے تو پھر یہ واویلا فضول ہے کہ یہاں منتخب وزیراعظم کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی۔ اس حوالے سے اعزاز احمد آذر کا ایک شعر یاد آ گیا:
اُجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی
اب اس میں اُگنے لگے اندھیرے تو کیا جی میں ملال رکھنا