آتا ہے یاد مجھ کو……

آتا ہے یاد مجھ کو……
آتا ہے یاد مجھ کو……

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آج کا میڈیا دیکھ کر سکول کا زمانہ یاد آتا ہے۔
سکول کا رزلٹ 31مارچ کو اناؤنس کیا جاتا تھا اور اپریل کے پہلے ہفتے میں تعطیلات ہو جاتی تھیں۔ اس ایک ہفتے میں نیا سکول بیگ، کتابیں، کاپیاں اور دوسرا سامانِ نوشت و خواند بھی اکٹھا کرنا یا بازار سے خریدنا ہوتا تھا۔اس میں جیومیٹری باکس، پنسلیں، قلم دوات، پنسل تراش، سیاہ روشنائی کی پڑیاں، سرخ روشنائی کی ٹکیہ، ہولڈرز، نبیں (Nibs) اور پنسل کی لکھائی مٹانے کے لئے ربڑ وغیرہ…… ایک موٹی سی کاپی بھی ”رف کاپی“ کے نام سے ملا کرتی تھی جس پر چار چھ ماہ کے نوٹس (Notes) وغیرہ لکھ لئے جاتے تھے۔


مجھے بہت کم یاد ہے کہ کسی سال نئی کتابیں خریدنی پڑتی تھیں۔ سیکنڈ ہینڈ کتابیں خریدنے کا عام رواج تھا۔ اپنی کتابیں بیجنے اور اگلے برس کی کتابیں خریدنے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ کتابوں کی یہ ادلا بدلی اور خرید و فروخت رزلٹ آنے سے پہلے مکمل کر لی جاتی تھی۔ ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ سینئر کلاس کا کون سا دوست صفائی پسند اور محنتی ہے اور اس کے فیل ہونے کے چانسز تقریباً معدوم ہیں۔ ہم خود بھی اپنی کتابوں کو بہت ’سنبھال‘ کر رکھتے تھے تاکہ سیکنڈ ہینڈ پرائس کم نہ ہو جائے۔ سکول بیگ کو ہر ہفتے دھویا، سکھایا اور استری کیا جاتا تھا۔ شیشے کا قلمدان گویا ایک ٹریٹ تھی۔ قلم گھڑنے کا فن سیکھنے کے لئے بازار سے کلکانیاں ملتی تھیں۔ آج کل ان کا وجود عنقا ہے۔ ہفتہ بھر کا جیب خرچ صرف ایک چونی (25پیسے) ہوتی تھی جو ’تفریح‘ کے پیریڈ میں ٹک شاپ پر جا کر خرچ کی جاتی تھی اور ہفتے بھر کی کفیل ہوتی تھی۔


اپریل کے دوسرے ہفتے میں سکول شروع ہوتا تھا۔ کلاس انچارج ماسٹر صاحب کا نام اناؤنس ہوتا تھا اور وہ ایک بڑا سا رجسٹر حاضری لے کر پہلے پیریڈ میں سب طلبا کے نام اس میں لکھ لیتے تھے اور سب کو ’رول نمبر‘ بھی دے دیا جاتا تھا۔ ہمارا رول نمبر پہلے سات طلباء میں شامل ہوتا تھا اور یہ سنیارٹی سال کے آخر تک چلتی تھی۔ اسی طائفے میں سے کلاس مانیٹر منتخب ہوتے تھے اور اسی میں سے ایک کو کلاس  انچارج ماسٹر صاحب کی الماری کی چابی بھی حوالے کی جاتی تھی۔


سب سے پہلا کام نئی کلاس میں جا کر ٹائم ٹیبل لکھنے کا ہوتا تھا…… پہلے دو تین پیریڈز حساب اور انگریزی کے ہوتے تھے کہ یہی دو مضامین بہت اہم اور مشکل سمجھے جاتے تھے۔ سکول سلیبس کے 8پیریڈز ہوتے تھے۔ پانچ پیریڈز کے بعد تفریح کا پیریڈ ہوتا تھا۔ اور ہر پیریڈ کے شروع / اختتام کے لئے گھنٹی بجا کرتی تھی۔ ہمارے سکول کے چپڑاسی (Peon) کا نام چاچا شریف تھا۔ اور وہ واقعی اسم بہ مسمیٰ شخص تھا۔اس کی تعظیم و احترام سارا سکول کیا کرتا تھا۔ یہ ایک اتفاق تھا کہ ہمیں سیکشن اے (A) میں داخلہ ملا تھا اور آخری کلاس تک ہم اسی سیکشن میں ترقی پا کر جاتے رہے۔ ہمارے زمانے میں صرف A اور B سیکشن ہوتے تھے۔ (بعد میں تو گویا لائن لگ گئی)


حساب اور انگریزی کے اکثر روزانہ دو دو پیریڈز ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ اردو، تاریخ، جغرافیہ، عربی / فارسی/ ڈرائنگ اور سائنس کے پیریڈز ہوتے تھے۔ ایک پیریڈ ڈرل کا بھی ہوتا تھا جس میں ساری کلاس کھلے میدان میں جا کر مختلف اقسام کی ڈرلیں (Drills) سیکھتی تھی۔ سکول گراؤنڈ ایک وسیع و عریض علاقہ ہوتا تھا۔ سکول شروع ہونے سے پہلے باقاعدہ اسمبلی ہوتی، پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا اور گایاجاتا، اقبال کی نظم ”یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے“ سکول کے دو خوش گلو طلبا اسمبلی میں آکر گاتے اور سارا سکول ان کے ساتھ اس ایکسرسائز میں شریک ہوتا۔ تقریباً ہر روز کسی نہ کسی موضوع پر کوئی استاد ایک مختصر تقریر کرتے اور پھر باقاعدہ ریگولر کلاسیں شروع ہو جاتیں۔


آج زمانہ تبدیل ہو گیا ہے اور یہ ’تبدیلی‘ ہماری دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے سامنے آئی ہے۔ میں ماضی پرست ضرور ہوں لیکن یہ اقرار کرنے میں کچھ تامل نہیں کہ تبدیلی کا یہ سفر خوب سے خوب تر کا سفر ہے…… اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں …… والا مرحلہ گویا ہر روز نئی برقِ تجلی اور نیا طور ہے۔

میں نے کالم کے آغاز میں عرض کی تھا کہ میڈیا کو دیکھ اور سن کر سکول کا زمانہ یاد آتا ہے۔ دونوں میں غضب کی مماثلت ہے۔ اول اول جب نجی ٹی وی چینل نہیں تھے اور صرف پی ٹی وی کا زمانہ تھا تو ٹی وی نشریات شام 5بجے شروع ہوتی تھیں اور رات گیارہ بجے قومی ترانہ سنا کر ختم کر دی جاتی تھیں۔ لیکن آج یہ ٹائم ٹیبل دن رات چلتا ہے۔ اس کا آغاز و انجام کسی دعا اور ترانے کا محتاج نہیں اور نہ کسی کاپی یا کتاب یا سکول بیگ کی ضرورت ہے۔ ہر پروگرام گویا ایک کلاس روم ہے جس کا انچارج اپنے مضمون (Subject) کے ساتھ وقتِ مقررہ پر سکرین پر نمودار ہوتا / ہوتی ہے۔ سکول کے پانچ پیریڈوں کے بعد تفریح کی گھنٹی بجتی تھی لیکن ٹی وی کے اس سکول میں ہر گھنٹی میں تفریح کی کئی گھنٹیاں سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے دور میں خواتین کے سکول اور کالج کم کم ہوتے تھے لیکن آج جہاں ان کی تعداد برابر ہو گئی ہے وہاں ٹی وی سکرینوں پر بھی ان کی شرحِ گویا برابر برابر ہے۔ یہ بات قابلِ صد تحسین ہے کہ پاکستان کی خواتین نے میڈیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ہے اور ہر فیلڈ میں ان کا طوطی بولتا ہے۔

دیکھا جائے تو میڈیا سکول شام چھ سات بجے ’لگتا‘ ہے اور رات بارہ بجے ’بند‘ ہو جاتا ہے۔ اس لگنے اور بند ہونے کے دورانیئے کو پرائم ٹائم کہا جاتا ہے۔ جس طرح سکول کے 8پیریڈز میں مضامین کی تقسیم اوپر درج کی گئی اسی طرح الیکٹرانک میڈیا میں بھی یہی تقسیم کارفرما ہے۔ زیادہ وقت جس طرح سکول میں انگریزی اور ریاضی کے مضامین کو دیا جاتا تھا، اسی طرح اسی ٹی وی سکول میں یہ ’مقام‘ حالاتِ حاضرہ کو حاصل ہے اور اس مضمون کی گردان اور مشق و تمرین اس باقاعدگی سے کی جاتی ہے کہ ہر ناظر اور سامع کو آموختہ یاد ہو جاتا ہے۔ گھامڑ سے گھامڑ ٹی وی ناظر کے بھی سارے چودہ پندرہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ یہاں کلاس ٹیچر کی جگہ اینکر حضرات اور خواتین پائی جاتی ہیں۔ جس طرح سکولوں میں ٹیچروں کی تعیناتی کے لئے جے وی، ایس وی، سی ٹی، بی ٹی، ایم فل اور پی ایچ ڈی وغیرہ کی سندات اور ڈگریاں ہوتی تھیں، ان اینکر حضرات و خواتین کے لئے بھی ایک نصاب ہوتا ہے۔ ماشا اللہ حالاتِ حاضرہ پر ان کی گرفت قابلِ داد اور ان کی طلاقتِ لسانی ’قابلِ فریاد‘ہے۔ بڑے بڑے اور جغادری سیاستدان ان کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اور یہ سب کو ایک سے ایک نیا سوال کرکے بعض اوقات حیران و پریشان اور اکثر ’عاجز‘ کر دیتی ہیں۔ سکولوں میں تو پورا 40منٹ کا پیریڈ استاد (یا استانی) کے بولنے کے لئے وقف ہوتا ہے۔ لیکن ٹی وی اینکر پرسنز کے لئے ہر دس پندرہ منٹ کے بعد تفریح کی گھنٹی بجتی ہے۔ اصطلاح میں اسے کمرشلز کا وقفہ کہا جاتا ہے۔


یہ وقفہ اس قدر جامع الصفات ہے کہ اس پر ایک الگ کالم لکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان بھر کی شہری ماڈل لڑکیاں، گرجدار آواز والے گلوکار اور صداکار اپنے فن کا جادو جگاتے ہیں۔ مکالمہ نویس، موسیقار اور اداکار اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ پرائم ٹائم میں دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ چونکہ ہر 10،15منٹ وقفے کی وہی ریل (Reel) دوبارہ چلتی ہے جو ناظر اور سامع نے پرائم ٹائم دورانیئے میں درجنوں بار سنی ہوتی ہے اس لئے وہ وقفے کے آغاز پر ہی Silent کا بٹن دباتا اور اپنی توجہ کسی اور جانب پھیر لیتا ہے!


سکول کے ٹائم ٹیبل کی طرح ٹی وی کا بھی ایک ہفتہ واری نظام الاوقات ہوتا ہے جس میں پرائم ٹائم کو سنجیدہ اور غیر سنجیدہ پروگراموں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔’غیر سنجیدہ‘ پروگراموں سے میری مراد وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ میں ان پروگراموں کی طرف اشارہ  کر رہا ہوں جو بظاہر سامعین و ناظرین کے لئے ہنسی مزاح کا سامان فراہم کرنے کے لئے ترتیب دیئے اور دکھائے جاتے ہیں لیکن جنہیں سن کر اکثر آپ کو منہ بسورنا آتا ہے۔ ہر روز ایک نیا تفریحی (اور تدریسی) پروگرام آن ائر کرنا خالہ جی کا باڑا نہیں۔ اس کے لئے ’باکمال لوگ‘ درکار ہوتے ہیں جو ’لاجواب پرواز‘ کا باعث بھی بن سکتے ہوں۔ لیکن آج کل وہ سکرپٹ رائٹر، ہدائت کار اور اداکار کہاں جو پاکستان ٹیلی ویژن کے زمانے میں ہوتے تھے۔ آج تو ایک PTV کے مقابلے میں کم از کم بیس نجی TV چینل ٹی وی مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔

اور سب سے بُرا حال تو پرنٹ میڈیا کا ہے۔ اس کے بھی 8پیریڈز ہیں جن میں حالاتِ حاضرہ،مذہبی ایڈیشن، شوبز، سپورٹس، کالم، گیلری، اشتہارات اور چند در چند خصوصی ایڈیشن شامل ہیں۔ اس پریس میڈیا میں ایک بات جو قابلِ تحسین و تقلید ہے وہ یہ ہے کہ اخبار کو چپ چاپ ہو کر پڑھا، سمجھا اور ہضم کیا جا سکتا ہے۔ خاموشی کے ساتھ  کھانا کھانے کا جو مزہ ہے وہ صوت و صدا کی جھنکار بلکہ ڈھول بازی اور ڈرم گدازی میں کہاں!

مزید :

رائے -کالم -