6 ماہ گزر گئے، برآمدگی کے بجائے جھوٹی تسلیاں ملتی رہیں
شیخوپورہ میں ڈکیتی کے شکار سعودیہ پلٹ محمد اقبال پر کیا گزری؟
عوام کی مانیں تو محکمہ پولیس میں اصلاحات کی نہیں محکمہ ہی تحلیل کئے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک طرف حکمران پولیس اصلاحات کے وعدے اور دعوے کرتے نہیں تھکتے تو دوسری طرف محکمہ پولیس کی غیر موثر کارکردگی پر بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں نہ رشوت ستانی کے خاتمہ کا کوئی لائحہ عمل کبھی سود مند ثابت ہوا ہے نہ افسران کی عوام کو تحفظ دینے کے وعدے کی کوئی دلیل میسر آئی ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے متاثرہ افراد کی تعداد غیر معمولی ہے کہ جو پولیس کی کاکردگی سے آگاہ اور مایوس ہونے کے باعث وارداتوں کے مقدمات کے اندراج کی خاطر تھانوں کا رخ ہی نہیں کرتے انکی منطق بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک تو جرائم پیشہ عناصر نے انہیں مالی استحصال کا شکار کیا تو دوسری طر ف انہیں حصول انصاف کیلئے پولیس کی مٹھی گرم کرنا پڑے گی لہذاٰ بہتر ہے دگنے نقصان کی بجائے لٹ جانے کے نقصان تک ہی محدود رہا جائے حالانکہ قطعی ایسا نہیں کہ محکمہ میں فقط کالی بھیڑیں براجمان ہیں بلکہ ایماندار اور فرض شناس افسران بھی موجود ہیں جن کی تعداد بھلے آٹے میں نمک کے برابر ہو مگر وہ نمک کی طرح آٹے میں اپنا ذائقہ برقرار رکھے ہوئے ہیں تاہم بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان افسران تک رسائی ہر گاہ ممکن نہیں کیونکہ ان پر کام اور ذمہ داریوں کو بوجھ ان افسران سے کہیں بڑھ کر ہے جو کیس نمٹانے پر یقین رکھتے میرٹ کی بالادستی انکے نزدیک معنی نہیں رکھتی اور پھر رشوت ستانی کا زہر اس قدر سرائیت کرچکا ہے کہ یہ مثال بھی ناکافی ہے کہ کنویں میں گرا پتھر سوکھا باہر نہیں آسکتا، حالت یہ ہے کہ پولیس کو جن سنگین مقدمات میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ عموماً ایسے باصلاحیت اورایماندار افسران کو سونپے جاتے ہیں جن میں انہیں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے سہارے کڑی محنت کے تحت نمٹانا پڑتا ہے اور وہ کیسز جنہیں تھوڑی بہت توجہ سے عام پولیس آفسیر بھی نمٹا سکتا ہے وہ کیسز عموماً رشوت ستانی کی نظر ہوجاتے ہیں، واقفان حال کا کہنا ہے کہ پولیس گرفتاریوں کے وقت کریڈٹ لیتے ہوئے بتاتی ہے کہ سنگین وارداتوں میں ملوث ملزمان دھر لئے گئے ہیں مگر بعد میں یہ بتایا نہیں جاتاکہ کن کن وارداتوں کا اعتراف ہوا اور ریکوری حقیقی معنوں میں کتنی ہوئی بلکہ وارداتیں اور ریکوری کسی مجبوری کے تحت واضح کربھی دی جائے تو متاثرہ افراد کو نقصان کے مقابلے میں دی جانیوالی ریکوری کی رقم قطعی انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔
اسی قسم کا ایک واقعہ یوں ہے کہ تھانہ سٹی بی ڈویژن شیخوپورہ کے گنجان آباد علاقہ رحمت کالونی کے رہائشی سعودیہ پلٹ شہری محمد اقبال کے ہاں یکم جولائی 2020ء کے روز دن دیہاڑے ڈکیتی کی واردات ہوئی،مسلح ڈاکو اس روپ میں آئے کہ چہروں پر ماسک اورہاتھوں میں پھلوں سے لدے شاپرز اٹھا رکھے تھے جنہوں نے گاڑی محمد اقبال کے گھر کے دروازے کے عین سامنے کھڑی کی اور دروازہ کھٹکٹایا اورجوں ہی محمد اقبال کے پوتے نے دروازہ کھولا ڈاکوؤں نے اسلحہ تان لیا اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے ہوئے اہلخانہ کو ایک کمرہ میں بند کرکے ایک ڈاکو کو انکی پہرہ داری پر لگا دیا تسلی سے لوٹ مار کی اورلاکھوں روپے نقدی، بچیوں کے جہیز کے زیورات اور دیگر قیمتی سامان لیکر باآسانی فرار ہوگئے چونکہ یہ واردات دن دیہاڑے گنجان آباد رہائشی علاقہ میں رونما ہوئی تھی لہذاٰ پولیس نے ایف آئی آر نمبر 487/20 بجرم 392کے تحت مقدمہ تو درج کرلیا مگر زبانی جمع خرچ اور طفل تسلیوں سے بڑھ کر پولیس نے کچھ نہ کیا، محمد اقبال نے روزانہ کی بنیاد پر تھانہ کے چکر کاٹے تاکہ ملزمان تک پولیس کی رسائی اور مال مسروقہ کی برآمدگی کی کوئی امید بندھ سکے مگر کبھی تفتیشی غائب، کبھی دیگر کیسز پر کام کا بہانہ اور کبھی فیلڈ ڈیوٹی کے بہانے بار بار ٹالا گیااور بالآخر کیس کو عدم پتہ قرار دیتے ہوئے ٹھپ کردیا گیا تاہم روزنامہ پاکستان لاہور میں اس واردات کے حوالے سے مفصل سٹوری شائع کی جسکا نتیجہ یہ نکلاکہ اور اعلیٰ پولیس حکام نے نوٹس لے لیا جس نے پولیس کو متاثرہ فیملی سے رابطہ کرنے پر مجبور کردیا جس سے لگا کہ اب داد رسی زیادہ دور نہیں ایس پی انویسٹی گیشن نے وعدہ بھی کیا کہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے اور مجرم پاتال میں بھی ہوئے تو انہیں جلد ڈھونڈ نکالا جائے گا مگر وہ دن اور آج کا دن نہ مجرم پکڑے گئے نہ ریکوری ممکن ہوئی اور متاثرہ شہری محمد اقبال آج بھی حصول انصاف کی خاطر داد رسی کا دامن پھیلائے ہوئے ہے اس نوعیت کا یہ کیس واحد نہیں بلکہ اب بھی عدم پتہ کی بناء پر ڈکیتی و راہزنی کے مقدمات کے اندراج کی درخواستیں کھو ہ کھاتے ڈالی جارہی ہیں، پولیس کی ہرممکن کوشش ہوتی ہے کہ 395کے تحت مقدمات کے اندراج کی بجائے دفعہ 392تک محدود رکھا جائے، ڈکیتی کو چوری اور راہزنی کی وارداتوں کو معمولی چھینا چھپٹی قرار دیا جارہا ہے، 2017 میں تھانہ سٹی بی ڈویژن کے علاقہ جنڈیالہ روڈ سٹی پارک میں گوہر عباس نامی شہری کے ہاں بھی ڈکیتی کی ایک بڑی واردات رونما ہوئی جس کا خدا خدا کرکے پولیس نے مقدمہ نمبر 129-17 تو درج کیا مگراس میں بھی 395 کی بجائے 392درج کی گئی حالانکہ ڈکیت گینگ کے ارکان کی تعداد سات تھی اور سبھی آتشیں اسلحہ سے مسلح تھے جو 22لاکھ 70ہزار روپے نقدی، 35تولے طلائی زیورات اور ایک قیمتی موبائل فون لوٹا مگر تفتیشی آفیسر اے ایس آئی الیاس نے واردات کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا حتیٰ کہ اس واردات کے ملزمان کی مصدقہ تعداد سات تھی جن میں سے دو موٹر سائیکل اور پانچ ملزمان کار پر سوار تھے جن کی تعداد کو ایف آئی آر میں کم درج کرکے دفعات تبدیل کی گئیں اور تفتیش بھی اس قدر غیر موثر رہی کہ اب تک کیس نمٹ نہ پایا ہے اور دیگر متاثرہ شہریوں کی طرح یہ متاثرہ فیملی بھی مایوسی کاشکار ہوتی چلی گئی ہے جبکہ اس ڈکیت گینگ کے ارکان کی طرف سے مربوط پلاننگ کے ساتھ ساتھ دیدہ دلیری کا بھی جس طرح مظاہرہ کیا گیا وہ دلیری کا بھی مظاہرہ کیا جارہا ہے وہ مجرموں کو پولیس کا خوف لاحق نہ ہونے کی قلعی کیلئے کافی ہے اس پر شہریوں کا موقف ہے کہ یا تو پولیس کا جرائم پیشہ عناصر کو کوئی خوف نہیں یا پولیس خود مبینہ طور پر ان کی سہولت کار بنی ہوئی ہے کہ مجرم یوں جرائم کی آزادانہ کاروائیاں کررہے ہیں تاہم متاثرہ فیملی کے مطابق مذکورہ واردات کے ملزمان کی گرفتاری کی بھی بات نکلی جنہوں نے مبینہ طور پر اس واردات کا اعتراف بھی کیامگر پولیس نے موٹی مرغی خیال کرتے ہوئے ملزمان سے مک مکا کر معمولی مقدمات کے تحت چالان مکمل کرکے عدالت کو بھجوادیا اور دفعات ایسی لگائی گئیں کہ مجرموں کاضمانت کی شکل میں باآسانی ریلیف مل سکے جبکہ متاثرہ فیملی کے مطابق اب تو طفل تسلیاں دینا بھی بند کردی گئی ہیں اور تمسخر بھرے انداز میں کہا جارہا ہے کہ ”ڈکیتی ہن کتھوں لبنی اے“ یعنی ملزمان کی گرفتاری یا ریکوری کوبھول جائیں۔
باعث فکر امر یہ ہے کہ بعض کرپٹ اور رشوت خور پولیس ملازمین کو شاید احساس ہی نہیں کہ ڈکیتی کی وارداتیں فقط مالی نقصان کا ہی موجب نہیں بنتیں بلکہ متاثرہ فیملی کو عمر بھر کیلئے عدم تحفظ کا شکار بناکر رکھ دیتی ہیں متاثرہ افراد کو ہمہ وقت یہی فکر ستاتی ہے کہ جرائم پیشہ عناصر اسکے گھر کی راہ دیکھ چکے ہیں کیا پتہ پھر سے کب آن دھمکیں اوربچی کچھی راس بھی لے اڑیں، لہذاٰ حالات کا تقاضا ہے کہ پولیس افسران و ملازمین ڈکیتی چوری و راہزنی اور نقب زنی کی واردارتو ں سمیت ہر طرح کے جرائم کی روک تھام کیلئے ترجیحی بنیادوں پر بھرپور کاوشیں بروئے کار لائیں تاکہ پولیس کی ساکھ بہتر ہوسکے جبکہ یہ امر بھی لازم ہے کہ محکمہ کو کالی بھیڑوں اور نان پروفیشنل اپروچ کے حامل افسران و ملازمین کی جگہ ویژنری افسران و باصلاحیت ملازمین کی بھرتیاں یقینی بنائی جائیں تاکہ کیس نمٹانے سمیت لوٹ لی گئی جمع پونجی شہریوں کو ریکوری کی مد میں فوری واپس دی جائے جو انصاف کا حقیقی تقاضا اور پولیس کی اولین ذمہ داری ہے۔
٭٭٭
”پاکستان“ ممیں سٹوری شائع ہونے کے بعد
امید بندھی، وہ بھی پوری نہ ہو سکی
ڈکیتی کی وارداتیں مالی نقصان کا ہی موجب نہیں بنتیں بلکہ متاثرہ فیملی کو عمر بھر کیلئے عدم تحفظ کا شکار بناکر رکھ دیتی ہیں