کورونا وائرس اور پالتو جانور
میں اس موضوع پر پہلے بھی کالم آرائی کر چکا ہوں کہ کورونا کی جنم بھومی، چین نہیں بلکہ امریکہ، کینیڈا اور مغرب کے تین امیر ترین جمہوری ممالک (برطانیہ، فرانس اور جرمنی) ہیں۔ اس کا سراغ خود مغربی میڈیا نے دیا۔ ان ممالک نے لاکھوں کی تعداد میں ایک ایسا جانور پال رکھا تھا جس کو مِنک (Mink) کہا جاتا ہے۔ اس کے سیاہ، مٹیالے اور سفید جسم پر لمبے لمبے اور ملائم لیکن نہائت مضبوط بال ہوتے ہیں۔ اس کا سائز چھوٹی بلی جتنا ہوتا ہے اور اس کے بالوں کو اوورکوٹوں کے کالروں میں لگا کر سردی سے بچاؤ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تحقیق کرنے پر لاکھوں کی تعداد میں ان جانوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود لاکھوں Minks اب بھی باقی ہیں۔ اس کی تفصیلات گزشتہ ماہ ”دی نیویارک ٹائمز“ میں شائع ہوئی تھیں۔
پاکستان میں درجنوں لوگ اب بھی کورونا کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ اس کا شکار ہونے والوں میں جو لوگ بچ نکلتے ہیں، وہ خوش قسمت تصور کئے جاتے ہیں …… ان خوش نصیبوں میں، میں خود بھی شامل ہوں۔ سی ایم ایچ لاہور میں ڈیڑھ ماہ تک (اپریل، مئی 2021ء) زیر علاج رہا اور موت کو بہت قریب سے دیکھا۔ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد بھی ڈاکٹروں نے کسی عزیز اور دوست کے ہاں آنے جانے اور ملنے ملانے سے منع کر رکھا ہے۔ کورونا وائرس کے مریضوں کی درجہ بندی کرنی ہو تو میں اولین دس مریضوں کی کیٹگری میں شمار ہوں گا۔ اللہ کریم کا کس منہ سے شکر ادا کروں کہ اس نے موت کے منہ سے بال بال بچایا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب جس جگہ اس موذی مرض کے جراثیم وغیرہ کا ذکر پڑھتا ہوں، ٹھٹک کر رہ جاتا ہوں۔ جی چاہتا ہے اپنے قارئین کو اس جان لیوا مرض سے بچنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دوں۔ ویسے زندگی اور موت تو خداوندِ ذوالجلال کے ہاتھ میں ہے لیکن اسی کا فرمان ہے کہ جان کی حفاظت کرنا ہر ذی روح پر فرضِ عین ہے۔ مجھے اس بات پر بھی پورا پورا یقین ہے کہ اگر اللہ نے مجھے شدتِ کورونا سے نجات دی ہے تو وہ مجھ سے کوئی ایسا کام لینا چاہتا ہے جو میری قبیل کے لوگوں کا فریضہ ہے۔ وگرنہ تو پاکستان کے روز و شب میں ہر آن اور ہر ساعت ایسے ’وقوعہ جات‘ دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں کہ جن پر خواہ مخواہ کالم لکھنے کو دل چاہتا ہے۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ان موضوعات پر تو میرے درجنوں دوست صبح و شام تبصرے اور تجزیئے کرتے رہتے ہیں۔ میں ان میں شامل ہو کر کیا تیر مار لوں گا؟…… ہاں ایسے موضوعات جو لکھاری برادری کی نگاہوں سے ’بوجوہ‘ چوک جاتے ہیں لیکن جن کے اثرات بہت دیرپا بلکہ بھیانک کیف و کم کے حامل ہوتے ہیں ان پر قارئین کی توجہ دلانا ثواب دارین سے کم نہیں۔ کچھ ایسا ہی خیال اگلے روز کورونا وائرس کے ضمن میں ایک چونکا دینے والی خبر پڑھ کر دل میں پیدا ہوا۔ یہ خبر بھی اسی اخبار نے دی جس نے Minks کے بالوں میں کورونا کے جرثوموں کی خبر دی تھی۔ میں چند روز پہلے شائع ہونے والے اس اخبار کی ایک خبر کے اولین دوچار پیراگراف آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اخبار لکھتا ہے:
”یہ 2020ء کے آخری ایام تھے کہ کورونا وائرس آئی وا (Iowa) ریاست کے سفید دُم والے ہرنوں کا چوری چھپے تعاقب کر رہا تھا۔ یہ وائرس ان ہرنوں پر حملہ آور تھا جو بھاری بھرکم تھے اور ان کی ٹانگیں پتلی اور خاصی لمبی تھیں۔ یہ وائرس ایک ایسی شکار گاہ میں گھسنے میں کامیاب ہو گیا تھا جو اس ریاست کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے اور اس کے طول و عرض میں سفید دُم والے ہرن عام دیکھے اور پائے جاتے ہیں“۔
یہ ریاست (یعنی IOWA) امریکہ کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اور نقشے پر دیکھیں تو اس کی شکل مستطیل نما ہے اور یہ امریکہ کے دو مشہور دریاؤں (دریائے مسس پی اور دریائے میسوری) کے عین درمیان میں واقع ہے۔ اس کا سارا علاقہ سرسبز و شاداب ہے اور دور دور تک مکئی کے سبز اور سنہرے کھیت لہلہاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ صوبائی / ریاستی دارالحکومت کا نام Des Moinesہے۔ آبادی 32لاکھ ہے اور رقبہ تقریباً 56ہزار مربع میل ہے۔
امریکیوں میں ہزاروں خرابیاں ہوں گی لیکن خوبیوں میں ایک بڑی خوبی ان کی ”صفائی پسندی“ ہے۔ میرے وہ عزیز و اقارب جو امریکہ میں مقیم ہیں وہ شکاگو اور ملواکی سے ہر سال سیر و تفریح کے لئے IOWA جاتے ہیں اور اس کی علاقائی خوبصورتی بالخصوص اس کے دریاؤں کے نیلگوں پانیوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں غزالوں (ہرنوں) کے غول اس طرح گھومتے پھرتے ہیں کہ جیسے یہاں کی وسیع و عریض چراگاہوں کا حصہ ہوں۔ میں پاکستان میں بیٹھا اپنے عزیز و اقربا کی زبانوں سے ان تعریفوں کو سنتا ہوں تو اپنے پاکستانی دریا اور نہریں یاد آتی ہیں جن کے شفاف پانیوں کو ہم ہر روز آلودہ کرنے پر تُلے رہتے ہیں …… اخبار آگے چل کر لکھتا ہے:
”یہاں لوگ ہرنوں کا شکار بھی کرتے ہیں۔ زخمی ہو جانے والے ہرن دور و نزدیک جا کر گر جاتے ہیں اور صفائی کے عملے کو انہیں ڈھونڈ کر اٹھانا پڑتا ہے۔ بہت سے ہرن ٹرکوں اور کاروں سے ٹکرا کر بھی مارے جاتے ہیں۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے جب ان مردہ ہرنوں کے نتھنوں سے نکلنے والے مواد اور لعابِ دہن کا لیبارٹری تجزیہ کیا توان کو معلوم ہوا کہ دسمبر 2020ء میں یہاں کے ہرنوں کی 60فیصد آبادی کورونا وائرس کا شکار تھی!…… ڈاکٹر کپور ریاست کے ایک ماہر مائیکروبیالوجسٹ بھی ہیں اور شفاخانہ حیوانات میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ 4000مردہ ہرنوں کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ کورونا وائرس سے متاثر یہ ہرن ریاست IOWA کے طول و عرض میں کثرت سے پائے جاتے ہیں“۔
”جب یہ کورونا شروع ہوا تھا تو ماہرین کو معلوم تھا کہ اس کا وائرس ایک جانور سے دوسرے میں آسانی سے منتقل ہو جاتا ہے۔ یعنی ہرن سے بھیڑ بکریوں، گائے بھینسوں اور کتے بلیوں میں بھی شفٹ ہو سکتا ہے۔ شمالی امریکہ اور یورپ میں مِنک (Mink) کے فارموں کا تذکرہ تو میڈیا پر آچکا تھا اور ڈاکٹروں کو معلوم تھا کہ لاکھوں Minks کو ہلاک بھی کیا جا چکا ہے۔ لیکن یہ Mink تو فارموں (Farms) میں پالے جاتے تھے جبکہ ریاست IOWA کے سفید دُم والے ہرن تو آزادانہ گھومتے پھرتے اور چوکڑیاں بھرتے دیکھے جاتے ہیں“۔
”کورونا وائرس کے یہ جراثیم جن کا انکشاف اس تحقیق کے دوران ہوا ان کے اثرات فوری طور پر کسی بھی ہرن میں ظاہر نہ ہوئے۔یہ ہرن حسبِ معمول چرنے چگنے اور بھاگنے دوڑنے سے باز نہیں آتے اور بادی النظر میں ان کے بیمار ہونے کے کوئی شواہد بھی نہیں ملتے۔ لیکن لیبارٹری ٹیسٹ تو غلط نہیں ہو سکتے۔یہ ہرن امریکی آبادیوں میں یوں گھل مل کر رہتے ہیں جیسے یہ اور انسان ایک دوسرے کی زندگی کا حصہ ہوں …… امریکہ کے طول و عرض میں 30کروڑ کی تعداد میں یہ سفید دُم والے غزال پائے جاتے ہیں!…… یہ تحقیقاتی نتائج آج کل امریکہ کے لئے سب سے بڑا سر درد بنے ہوئے ہیں۔ یہ جراثیم جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے پھر جانوروں میں منتقل ہو سکتے ہیں اور کیا عجب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب یہی جراثیم ہوں“۔
”انسانوں سے ہرنوں میں یہ وائرس کیسے منتقل ہوا، اس کی ایک وجہ تو وہ پالتو بلیاں ہو سکتی ہیں جو انسانوں کے ہمراہ سفر و حضر میں ان کے ساتھ ہوتی ہیں اور آزادانہ گھومتی پھرتی ہیں …… دوسرے ہرنوں کا فضلہ بھی جو بالعموم کھیتوں کھلیانوں اور میدانوں میں بِکھرا ہوتا اور پایا جاتا ہے وہ بھی اس جرثومے کی حیوان سے انسان کو منتقلی کا سبب بن سکتا ہے“۔
قارئین کرام! اخبار کا یہ مضمون تو خاصا لمبا چوڑا ہے جو دوست اس کا مطالعہ کرنا چاہیں وہ اپنے سمارٹ فون پر Spreading from the back yard لکھ کر گوگل کریں تو یہ سارا مواد سامنے آ جائے گا۔
عین ممکن ہے کہ یہ جراثیم پاکستان میں بھی آ چکے ہوں۔ ہمارے ہاں آوارہ کتے بلیاں وغیرہ عام پائی جاتی ہیں اس لئے درج ذیل احتیاطی تدابیر کی سفارش کروں گا:
1۔اگر آپ نے کوئی کتا یا بلی پال رکھی ہو تو اس کا کورونا ٹیسٹ ضرور کروائیں۔
2۔آوارہ کتے اور بلیوں کو اپنے گھروں کے اردگرد جمع نہ ہونے دیں۔ ان کے کھانے پینے کا ”اہتمام“ بھی بعض لوگ (بالخصوص بچے) کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ فی الحال یہ پریکٹس ترک کر دیں۔ کھانے کو نہیں ملے گا تو یہ جانور خود بخود انسانی آبادیوں سے باہر نکل جائیں گے۔
3۔گھریلو پرندوں کو آزاد کر دیں۔ بٹیرے اور تیتر وغیرہ پالنے والے حضرات اس طرف خصوصی توجہ دیں۔ پاکستان میں جانوروں اور پرندوں میں کورونا جراثیم کی موجودگی یا عدم موجودگی کو ٹیست کرنے کی کوئی لیبارٹری موجود نہیں۔ یہ ایک نہائت مہنگا کاروبار ہے، اس لئے احتیاط کریں۔ اس بات پر بھی غور کریں کہ کیا وجہ ہے کہ سو فیصد ویکسین لگانے والے ملکوں میں بھی کورونا ختم نہیں ہو سکا……