پرانے اسٹیم انجن اب ریلوے اسٹیشنوں کی عمارت کے باہر دلہن کی طرح سجے اپنے”طاقتور رقیبوں“ ڈیزل انجنوں کو کوستے چپ چاپ کھڑے ہیں 

پرانے اسٹیم انجن اب ریلوے اسٹیشنوں کی عمارت کے باہر دلہن کی طرح سجے ...
پرانے اسٹیم انجن اب ریلوے اسٹیشنوں کی عمارت کے باہر دلہن کی طرح سجے اپنے”طاقتور رقیبوں“ ڈیزل انجنوں کو کوستے چپ چاپ کھڑے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:40
اس نے ایک بھاری بھرکم، صحت مند اور طاقت ور گھوڑے کے پیچھے150 پاؤنڈ کا وزن باندھ کر اسے ہانک دیا اور پھرخود بھی ایک وقت کی روٹی اور پانی لے اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا، پھراس گھوڑے کو اس نے مسلسل 1 گھنٹے تک چلایا اور پھرطے کیے جانے والے اس فاصلے کو ناپا   تو یہ اڑھائی میل یعنی کوئی 4 کلومیٹر بنا تھا۔ اس نے وہ فاصلہ، وزن اور وقت نوٹ کر لیا۔ پھروہیں کہیں کسی درخت کی چھاؤں تلے بیٹھ کر کاپی پنسل نکالی، کاغذ پر الٹی سیدھی کچھ لکیریں کھینچیں،ٹیڑھے میڑھے سے زاوئیے بنائے اور پھرکچھ سمجھ نہ آنے والے فارمولے لگا کر اس جمع اورتفریق کے نتیجے میں جو ہندسہ سامنے آیا اس کو اس نے ہارس پاور کہنا شروع کر دیا،بعد ازاں یہی فارمولا ہر حرکت کرنے اور گھومنے والی مشین پر لگا دیا گیا۔ مثلاً اس کے اپنے بنائے ہوئے ابتدائی انجن کی طاقت کوئی 6 ہارس پاور تھی۔
 پھرمختلف ممالک میں تجربے ہوئے اور اسٹیم انجن کے ایسے ایسے ماڈل بنائے گئے جنھیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ اس سلسلے میں ایک  جناتی قسم کا بڑا سا اسٹیم انجن بھی میدان میں لایا گیا جس کے حجم اور جسامت کو دیکھتے ہوئے زندہ دل امریکیوں نے اسے فوراً ہی ”بگ بوائے“ کا نام دے دیا۔ اس دیو ہیکل مشین کا اپنا وزن600 ٹن سے زیادہ اور لمبائی 130فٹ تھی۔ طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے اس کے پیچھے3600 ٹن کی ریل گاڑی باندھ کر دوڑایا گیا تو علم ہوا کہ اس عمل کے دوران اس نے 6 ہزارہارس پاور توانائی پیدا کی جو جیمس واٹ صاحب کے ابتدائی انجن سے ایک ہزار گنا زیادہ تھی اوریہ اب تک اسٹیم انجنوں میں سب سے زیادہ  طاقتور انجن تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے ساتھ اس کے 7 اور بھائی بھی بنائے گئے تھے۔ لیکن ان سب کا انجام بھی اپنے کچھ ساتھیوں جیسا ہی ہوا اور انھیں بنا سنوار کر امریکہ کے مختلف عجائب گھروں کی زینت بنا دیا گیا جہاں یہ تماشائیوں کو اپنی سیٹیوں اور پھنکاروں سے محظوظ کرتے ہیں۔ انجنوں کے دیوانے دور دور سے اس کو دیکھنے آتے ہیں اور گھنٹوں  اس کے ارد گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔
بھاپ کے انجن دْنیا بھر میں 1940ء کی دہائی تک خوب چلے۔ پھرنئے آنے والے بجلی اور ڈیزل کے انجنوں کے سامنے اس نے ہتھیار ڈال دئیے اور ادھر اْدھر ہو گئے یا چھوٹی اور غیر معروف لائنوں پر چلے گئے۔ ان میں سے بعض تو عجا ئب گھروں کی زینت بن گئے اور جو کہیں بھی جگہ نہ پا سکے وہ شہر سے باہر اجاڑ بیابان میں بنائے گئے لوہے کے قبرستانوں میں جا کر ابدی سوگئے۔ 
پاکستان میں یہ انجن 1960ء کی دہائی تک مرکزی لائن پر چلتے رہے اور ہم نے بچپن میں ایسی گاڑیوں پر خوب سفر کیا تھا۔ پھریہاں بھی ڈیزل انجن آگئے جو پہلے پہل تو مرکزی لائنوں پر ہی دوڑے پھرتے رہے اور اسٹیم انجنوں کو وہاں سے بھگا کر برانچ لائنوں پر بھیج دیا۔  پھررفتہ رفتہ اکثر برانچ لائنیں بھی بند ہوتی گئیں اور جو بچ بھی گئیں تو ان پر بھی ڈیزل انجنوں نے اپنا قبضہ پکا کر لیا۔
اب ان میں سے کچھ پْرانے اسٹیم انجنوں پر نیا رنگ و روغن کرکے پاکستان کے بڑے ریلوے اسٹیشنوں کی عمارت کے باہر دلہن کی طرح سجا  بنا کر ایک چبوترے پر کھڑا کر دیا گیا ہے جہاں وہ اپنے بیتے دنوں کی عظمت کو یاد کرکے اور اپنے طاقتور رقیبوں یعنی ڈیزل انجنوں کو کوستے اور برا بھلا کہتے ہوئے چپ چاپ کھڑے ہیں، جنھوں نے ان کا پوری ایک صدی سے قا ئم اقتدارختم کر دیا تھا اور ریلوے کے نظام پر ان کی اجارہ داری ختم کرکے انھیں بے گھر اور دَر بدر کر دیا تھا۔ باقی جو بچے تھے گمنام ہو گئے۔ سنا ہے کہ وہ اب بڑے اسٹیشنوں کے اردگرد بے یارو مددگار کھڑے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں۔پاکستان کی نئی نسل کو تو اس بارے کچھ علم ہی نہیں۔ وہ اسٹیشن کے باہر اس دیو ہیکل مشین  کی ساتھ تصویریں بنوا کر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -