گورنر راج زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک نافذ رہ سکتا ہے
سانحہ کوئٹہ کے مقتولین کی نعشوں کے ہمراہ ان کے ورثاءاور ہزارہ برادری کے احتجاج کے نتیجہ میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو بالآخر بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کرناپڑا، ہزارہ برادری سے اظہار یکجہتی کے لئے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔
وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل234 کے تحت کوئٹہ میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کیا، اس اعلان کی کیا آئینی حیثیت ہے؟ اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟ اور یہ کہ کسی صوبہ میں زیادہ سے زیادہ کتنی دیر کے لئے گورنر راج نافذ رکھا جا سکتا ہے؟ ان سوالات کے جواب آئین میں واضح کر دئیے گئے ہیں، آئین کے آرٹیکل234 کے تحت متعلقہ صوبہ کے گورنر کی رپورٹ پر اگر صدر مملکت کو یقین ہو جائے کہ صوبہ کی حکومت آئین اور قانون کے مطابق معاملات نہیں چلا سکتی تو وہ گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ گورنر راج نافذ کرنے کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ پارلیمینٹ کے دونوں ایوان اپنے الگ الگ اجلاسوں میں کسی صوبہ میں گورنر راج کے نفاذ کے لئے قراردادیں منظور کر لیں تو صدر مملکت ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے گورنر راج کے نفاذ کا صدارتی فرمان جاری کرے گا، 18 ویں آئینی ترمیم سے قبل کسی صوبہ میں پارلیمینٹ کے ذریعے گورنر راج کے نفاذ کے لئے ضروری تھا کہ ایسی قرارداد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جائے تا ہم اب دونوں ایوانوں میں الگ الگ قرار دادیں منظور ہونا ضروری ہے، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے صدر مملکت کی طرف سے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔اس اعلان کی بنیاد پر صدارتی فرمان جاری کرنا ضروری ہے جو پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا، اس حوالے سے آئین کا آرٹیکل234(3) کہتا ہے کہ پارلیمینٹ کی منظوری ملنے تک گورنر راج نافذ کرنے کا صدارتی فرمان زیادہ سے زیادہ دو ماہ تک نافذ العمل رہے گا۔ آئینی طور پر پارلیمینٹ گورنر راج کے فرمان میں زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ دو دو ماہ کے لئے توسیع کر سکتی ہے، یوں کسی صوبہ میں چھ ماہ سے زیادہ عرصہ کے لئے گورنر راج نافذ نہیں کیا جا سکتا، آئین کے آرٹیکل234(4) میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہو تو گورنر راج کی مدت3 ماہ ہو گی تا ہم سینیٹ اس میں توسیع کی منظوری دے سکتا ہے، ایسی صورت میں بھی گورنر راج کی زیادہ سے زیادہ مدت 6 ماہ ہی ہو گی، آئین کے آرٹیکل334 کا بنیادی مقصد صوبے میں دستور کے مطابق حکومت چلانے میں صوبائی حکومت کی ناکامی کی صورت میں امور حکومت وفاقی حکومت کے ہاتھ میں دینا ہے تا کہ صوبہ میں انتشار کی کیفیت کا خاتمہ کیا جا سکے، آرٹیکل334 کے تحت متعلقہ صوبائی اسمبلی کے اختیارات پارلیمینٹ اپنے ہاتھ میں بھی لے سکتی ہے، گورنر راج کے نفاذ کے بعد گورنر آئین کے آرٹیکل105 کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے ، آرٹیکل 105 کے تحت گورنر کابینہ یا وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر ہی فرائض انجام دیتا ہے لیکن گورنر راج کی صورت میں وہ انتظامی معاملات ان اختیارات کے تحت چلاتا ہے جو اسے صدر کی طرف سے تفویض کئے جاتے ہیں۔
کسی صوبہ میں گورنر راج کے نفاذ کا مطلب وہاں ہنگامی حالت کا اعلان نہیں ہے، گورنر راج کے دوران شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق بحال رہتے ہیں۔ آئین کے تحت صدر یا ان کی ہدائت پر گورنر صوبے کے کسی بھی با اختیار ادارے یا ہیئت مجاز کے اختیارات خود سنبھال سکتا ہے لیکن ہائیکورٹ کے اختیارات سلب نہیں کئے جا سکتے۔ آئین میں واضح کر دیا گیا ہے کہ آئین صدر یا گورنر کو وہ اختیارات استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا جو کسی ہائیکورٹ کو حاصل ہوں۔ ہائیکورٹ سے متعلق دستور کے کسی حکم کے عملدرآمد کو کلی تو ایک طرف جزوی طور پر بھی معطل نہیں کیا جا سکتا۔
صدر مملکت کی طرف سے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا فرمان زیادہ سے زیادہ دو ماہ کے عرصہ تک قابل عمل رہ سکتا ہے، اس معیاد کے خاتمہ سے قبل اس میں توسیع کے لئے پارلیمینٹ سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے، یہاں تک پارلیمینٹ کے ذریعے کسی صوبہ میں آرٹیکل334 نافذ کرنے کا تعلق ہے اس کا تجربہ1993 میں کیا گیا تھا۔ اس وقت کے صدر غلام اسحق خان کی طرف سے نوا زشریف حکومت کی تحلیل کا اقدام سپریم کورٹ سے کالعدم ہو چکا تھا اور پنجاب میں میاں منظور احمد وٹو پیپلز پارٹی کی حمائت سے وزارت اعلیٰ کے عہدہ پر فائز تھے جبکہ غلام اسحقٰ خان پنجاب میںمیاں محمد اظہر کی جگہ چودھری الطاف کو گورنر پنجاب مقرر کر چکے تھے۔ وہ میاں نواز شریف کی پسند کا گورنر لگانے پر آمادہ تھے اور نہ ہی آرٹیکل334 نافذ کر کے میاں محمد نواز شریف کے نامزد کردہ کسی شخص کو امور حکومت کے اختیارات تفویض کرنے پر تیار تھے، تب29 جون1993 ءکو پارلیمینٹ نے ایک قرار داد منظور کی اور کہا کہ میاں منظور احمد وٹو کی حکومت دستور کے مطابق نظام حکومت چلانے میں ناکام ہو گئی ہے اس لئے وفاق سابق گورنر میاں محمد اظہر کو پنجاب میں امور حکومت چلانے کے لئے نامزد کر کے نوٹیفکیشن جاری کرے۔ اس قرار داد کے خلاف بے نظیر بھٹو کی قیادت میں اپوزیشن کے 107 ارکان پارلیمینٹ سے واک آﺅٹ کر گئے تھے جبکہ جماعت اسلامی کے چھ ارکان اور اقلیتی رکن جے سالک نے اس قرار داد کی مخالفت کی تھی اس کے باوجود قرارداد منظور ہو گئی تا ہم یہ بیل صدر غلام اسحق خان کی مداخلت کے باعث منڈے نہ چڑھ سکی تھی۔
بلوچستان میں حالات کی خرابی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے وہاں گورنر راج کے نفاذ کے لئے نہ صرف وفاقی حکومت میں شامل جماعتوں کی طرف سے آواز بلند کی گئی بلکہ بلوچستان حکومت میں شامل اہم شخصیات کو بھی اعتماد میں لیا گیا، ان حالات میں اس بات کا غالب امکان موجود ہے کہ وفاقی حکومت چاہے گی تو گورنر راج میں توسیع کے لئے پارلیمینٹ سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام نہیں ہو گی۔