نیشنل کانفرنس نے حکومت سازی کے لیے پی ڈی پی کی حمایت کر دی

نیشنل کانفرنس نے حکومت سازی کے لیے پی ڈی پی کی حمایت کر دی

  

سرینگر(کے پی آئی) نیشنل کانفرنس کے سربراہ عمر عبداللہ نے سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کے طور ابھر کر سامنے آنے والی پی ڈی پی کو مزید امتحان میں ڈالتے ہوئے گورنر ہاوس کے راستے پی ڈی پی کو تحریری حمایت کی پیشکش کرتے ہوئے گورنر این این وو ہرا پر زور دیا کہ حکومت سازی اور موجودہ اسمبلی کے مستقبل پر حتمی فیصلہ لینے سے قبل نیشنل کانفرنس لیڈر شپ کے ساتھ مشاورت کریں۔نیشنل کانفرنس کے فیصلہ سازادارہ کور گروپ کے اہم ترین اجلاس میں کل یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ پی ڈی پی کو حمایت کی پیشکش برقرار رکھی جائے گی ۔اجلا س کے ایک روز بعد منگل کو نیشنل کانفرنس نے اخباری بیانات یا مشترکہ بہی خواہوں کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے پی ڈی پی تک پہنچنے کی خاطر راج بھون کا راستہ اختیار کیا اور اس ضمن میں پارٹی کے کارگزار صدر عمر عبداللہ نے گورنر این این وو ہرا کو ایک مکتوب لکھا جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ این سی نے پی ڈی پی کو حکومت سازی کیلئے حمایت کی پیشکش کی ہے جو برقرار ہے ۔

عمرکا مکتوب،جو پارٹی کے صوبائی صدر جموں دیوندر سنگھ رانا نے ان تک پہنچایا ،میں عمر عبداللہ نے گورنرکو مطلع کیا کہ نیشنل کانفرنس نے حالیہ اسمبلی چناؤ میں سب سے بڑی پارٹی کے طور ابھر نے والی پی ڈی پی کو حمایت دینے کی پیشکش کی ہے۔خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ پی ڈی پی کی جانب سے غیر فیصلہ سازی کی وجہ سے ریاست میں سیاسی تعطل کے نتیجہ میں گورنر راج نافذ کرنا پڑا جبکہ چناؤ عمل میں عوام کی بھاری شرکت کے باوجود ریاستی اسمبلی کو معطلی کی حالت میں رکھنا پڑا۔ خط میں مزید کہاگیا ہے کہ پارٹی کی جانب سے پی ڈی پی کو دی جانے والی حمایت برقرار ہے اور اگر گورنر موجودہ اسمبلی یا حکومت سازی میں اس کی اہمیت کے حوالے سے کوئی فیصلہ لینا چاہیں ،تو وہ اس سے قبل پارٹی قیادت کو اعتماد میں لیں۔غور طلب ہے کہ 23دسمبر کے چناوی نتائج میں معلق اسمبلی سامنے آئی تھی جبکہ پی ڈی پی 28سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے طورابھری تھی تاہم وہ اکثریت حاصل کرنے کے جادوئی ہندسہ44سے16پیچھے تھی ۔اسی طرح بی جے پی 25سیٹوں کے ساتھ دوسرے ،نیشنل کانفرنس15سیٹوں کے ساتھ تیسرے اور کانگریس12سیٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر آئی تھی ۔الیکشن نتائج سامنے آنے کے فورا بعد عمر عبداللہ نے حکومت سازی کیلئے پی ڈی پی کوحمایت کی پیشکش کی تھی تاہم انہوں نے اس ضمن میں یہ کہہ کر ذمہ داری پی ڈ ی پی پر ڈالی تھی کہ پہل انہیں کرنی ہے ۔عمر نے کہاتھاہم پی ڈی پی کو حمایت دینے کیلئے تیار ہے ،تاہم پہل مفتی صاحب کو کرنی ہے۔اس کے جواب میں پی ڈی پی نے کہا تھا کہ وہ ان کی حمایت لینے کیلئے تیار ہیں اگر وہ رسمی طور آگے بڑھیں۔اس کے جواب میں این سی نے کہا کہ ایک مشترکہ بہی خواہ کے ذریعے رسمی طور پی ڈی پی قیادت کو پارٹی کی حمایت سے آگاہ کیاگیا ۔این سی کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک پی ڈی پی کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا ۔پارٹی کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر کا کہنا ہے کہ وہ اپنی یقین دہانی پر قائم ہیں اور وقت آنے پر پی ڈی پی کو دی جانے والی حمایت ثابت کرنے کیلئے لوازمات بھی پورا کریں گے ،مگر وہ شروعات تو کریں۔قابل ذکرہے کہ جہاں پی ڈی پی بھاجپا کے ساتھ حکومت سازی کو لیکر غیر رسمی بات چیت میں مصروف ہے ،اس نے این سی کی پیشکش بھی نہیں ٹھکرائی ہے تاہم بھاجپا کے ساتھ مذاکرات کا کوئی نتیجہ تاحال برآمد نہیں ہوا ہے اور اب کانگریس کے ساتھ بھی روابط کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ڈی پی کو حمایت کی پیشکش بار بار دہرا کر این سی قیادت پی ڈی پی کیلئے راستے محدود کرنا چاہتی ہے ۔ان مبصرین کا کہنا ہے کہ این سی کو معلوم ہے کہ پی ڈی پی ان کی حمایت نہیں لے گی اور بھاجپا کے ساتھ ہاتھ ملانے کو ترجیح دے گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پارٹی کل یہ ڈنڈورا پیٹے گی کہ ہم نے حمایت دی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے فرقہ پرستوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر ہماری یہ بات ثابت کردی کہ پی ڈی پی بھاجپا کی پیداوار ہے ۔مبصرین کے مطابق بار بار حمایت کی پیشکش کر نے کے بعد اب گورنر کو تحریری طور لکھ کر عمر عبداللہ نے پی ڈی پی قیادت کو مزید امتحان میں ڈالا ہے اور پارٹی کے لئے حکومت سازی کے حوالے سے کوئی فیصلہ لینا اب آسان نہیں ہوگا ۔

مزید :

عالمی منظر -