ٹی وی کیمروں کو روشنیوں سے دور پیرس میں پاک بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کے مذاکارات
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
ٹیلی ویژن کیمروں کی چکا چوند روشنیوں میں جو مذاکرات ہوتے ہیں اُن کا انجام بعض اوقات آگرہ کی طرح ہوتا ہے۔ غالباً اسی لئے اب پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں کے مذاکرات ان روشنیوں سے بچ بچا کر ہو رہے ہیں۔ آج پیرس میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے مذاکرات فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے دونوں کے درمیان بنکاک میں طویل ملاقات ہوئی تھی جس کے نتیجے میں ایک بڑا بریک تھرو یہ ہوا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج، ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کیلئے اسلام آباد آئیں۔ انہوں نے وزیراعظم نوازشریف اور مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقاتیں کیں اور جامع مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس میں ہونے والی دہشت گردی نے مذاکرات پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا حالانکہ جن غیر ریاستی عناصر نے دہشت گردی کی یہ واردات کی تھی بظاہر اُن کا ہدف یہ مذاکرات ہی تھے لیکن بالغ نظری کے رویوں کے باعث ہی یہ ممکن ہوسکا ہے کہ اب خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات باہمی مشاورت سے ری شیڈول ہوئے ہیں غالباً قومی سلامتی کے مشیروں کے مذاکرات کے نتیجے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ یہ بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ مذاکرات ہو بھی رہے ہیں اور نہیں بھی، جو مذاکرات دونوں ملکوں سے دور پیرس میں ہو رہے ہیں انہی میں یہ فیصلہ ہوگا کہ خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کب ہوگی، میرا اندازہ ہے کہ اگلے دو ہفتوں کے اندر یہ مذاکرات منعقد ہوں گے۔ اب کی بار ایک اور غیر معمولی بات یہ ہوئی ہے کہ بھارت نے نہ صرف پٹھان کوٹ حملے کے سلسلے میں پاکستان کی تحقیقات پر اطمینان ظاہر کردیا ہے بلکہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو نئی دہلی آنے کی اجازت بھی دیدی ہے۔ قارئین کرام آپ کو یاد ہے کہ ماضی میں کبھی ایسا ہوا ہو؟ جب بھی بھارت نے پاکستان پر کسی دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام لگایا پاکستان نے مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کی جسے بھارت نے ہمیشہ مسترد کردیا، اب کی بار اگر اجازت دی ہے تو کیا آپ اسے بدلتے ہوئے موسم سے تعبیر نہیں کرسکتے؟ ایسے لگتا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان جن مذاکرات کا آغاز بنکاک سے ہوا اور جن کا دوسرا دور اب پیرس میں ہو رہا ہے، یہ سلسلہ اب کسی نہ کسی طور جاری رہے گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جو حلقے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیراعظم مودی اور وزیراعظم نوازشریف کی جو بات چیت لاہور میں ہوئی اس کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کی جائیں۔ اُن کا دھیان بھی اِدھر نہیں گیا، نہ کسی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ مشیروں کی یہ لمبی لمبی ملاقاتیں، ملک سے باہر کیوں ہو رہی ہیں نہ کسی نے یہ مطالبہ کیا کہ اِن ملاقاتوں کی تفصیل قومی اسمبلی میں پیش کی جائے۔ اسے آپ ان حلقوں کا ’’تجاہل عارفانہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ غالباً یہ محسوس کرلیا گیا ہے کہ ملکی ہنگامہ خیزیوں کے سائے سے دور جو مذاکرات ہو رہے ہیں اُن میں گہری سوچ بچار ہو رہی ہے اور ملاقاتوں کا کچھ نہ کچھ نتیجہ بھی ضرور نکلے گا، یہ جو بھارت نے پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دی ہے، کیا اِسے بھی قومی سلامتی مشیروں کی اس ملاقات کا مثبت نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا؟ میرا خیال ہے یہ انہی ملاقاتوں کا اعجاز ہوسکتا ہے۔
اب ذرا آگرہ مذاکرات کو ذہن میں لائیں جنرل پرویز مشرف جب آگرہ پہنچے تو اُن کا خیال تھا کہ اِن مذاکرات کا کچھ نہ کچھ نتیجہ ضرور نکلے گا، ایسا ماحول بھی بنایا گیا کہ نہر والی حویلی میں جنرل پرویز مشرف کا آبائی گھر بھی دریافت کیا گیا، جس کا انہوں نے ہجرت کے بعد پہلی بار دیدار بھی کیا۔ اخبار نویسوں اور ایڈیٹروں سے ملاقاتوں میں انہوں نے بڑے مثبت خیالات کا اظہار کیا، اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے بارے میں اچھے خیالات ظاہر کئے لیکن جب مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلان یا اعلامیہ جاری کرنے کا وقت آیا تو یہ الفاظ کی بھول بھلیوں میں کھوکر رہ گیا۔ اعلان کا جو مسودہ تیار کیا گیا فریقین کے درمیان اس کا تبادلہ ہوا تو بعض الفاظ بدل دیئے گئے۔ ایک دو بار ایسا ہوا اور آخری مرتبہ جب مسودہ تبدیلی کیلئے گیا تو واپس ہی نہیں آیا۔ یہ ’’عقابوں کے نشیمن‘‘ میں کہیں کھوگیا، سشما سوراج بھی ان میں سے ایک تھیں جو اس وقت وزیر اطلاعات تھیں، جنرل پرویز مشرف منتظر رہے اور طویل انتظار سے اس قدر بدمزہ ہوئے کہ آدھی رات کے وقت آگرہ سے واپس آگئے۔ آگرہ میں دو دن کی ہنگامہ آرائیاں محض ’’فوٹو سیشن‘‘ ثابت ہوئیں۔ مذاکرات میں ایسی اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے اور جب اخبار نویس ’’پاپا رازیوں‘‘ کی طرح خبر کی تلاش میں ہوں تو ایک دوڑ لگی رہتی ہے۔ ’’پاپا رازی‘‘ فرانس کے وہ فوٹو گرافر کہلاتے ہیں جو دنیا کے بڑے لوگوں کی تصویریں لینے کیلئے ہر وقت اُن کی ٹوہ میں رہتے ہیں اور وہ جہاں بھی جاتے ہیں یہ اُن کا پیچھا کرتے ہیں، لیکن عجیب بات ہے کہ دو متحارب ہمسایوں کے قومی سلامتی کے مشیر ایسے مذاکرات کر رہے ہیں جن کی خبر نہ کسی رپورٹر کو ہے اور نہ کسی فوٹو گرافر کو، یہ اُن سب سے بچ کر مذاکرات میں مصروف ہیں جن کے نتیجے پر بہت کچھ انحصار خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کا بھی ہے۔
بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے کہا دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پاکستانی کارروائیاں درست سمت میں جا رہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں نے خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات باہمی رضامندی سے ری شیڈول کئے ہیں کیونکہ ’’تیاری کیلئے وقت درکار ہے‘‘۔ دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ’’بہت جلد اور بہت اچھی ملاقات‘‘ ہوگی۔
مذاکرات کے سلسلے میں اس وقت بھارت حیرت انگیز طور پر انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ احساس بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اگر دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد مذاکرات ایک جھٹکے کے ساتھ مہینوں اور برسوں کیلئے ملتوی کئے جاتے رہے تو اس طرح نہ صرف دہشت گردوں کے مقاصد پورے ہوں گے بلکہ مذاکرات کا عمل بھی غیر سنجیدہ ہوکر رہ جائے گا۔