دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد میں متعیّن چین کے سفیر یاؤ جنگ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے کامیاب جنگ لڑی ہے جس کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا جانا چاہئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیاب کارروائی کے باعث اب میں لاہور، پشاور اور دوسرے شہروں میں جاتا اور لوگوں سے آزادانہ ملتا ہوں، مُجھے خطرہ محسوس ہوتا ہے اور نہ حکومت میری حفاظت کے سلسلے میں فکرمند ہے، پاکستان کی کامیاب کارروائیوں کی وجہ سے حالات پرامن ہیں، ایسٹ ترکستان موومنٹ کے لوگ جو چین میں کارروائیاں کرتے تھے، شام چلے گئے ہیں اور باقی گروپوں کو بھی پاکستان نے بے بس کر دیا، یہ بُہت بڑی کامیابی ہے جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دوسرے مُلکوں کو بھی تحفظ ملا۔ امریکہ نے حالیہ دنوں میں پاکستان کے حوالے سے جو موّ قف اختیار کیا ہے وہ خِطّے میں قیام امن اور دہشت گردی کے خاتمے میں مددگار نہیں، دہشت گردی بین الاقوامی مسئلہ ہے، ہمارے ہاں بھی ایسٹ ترکستان موومنٹ جیسی تنظیمیں موجود ہیں مگر اِن کا قلع قمع پاکستان پر پابندیاں لگا کر یا ڈومور کا مطالبہ کرکے نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان پاکستان اور چین کا ہمسایہ ہے، اس لئے دونوں ممالک افغانستان میں امن چاہتے ہیں اور اس کی ترقی و خوشحالی کے خواہش مند ہیں۔ دونوں جگہ یہ خواہش موجود ہے مگر امریکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے طاقت کا استعمال ضروری سمجھتا ہے جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک مذاکرات ہی واحد حل ہے اور سہ فریقی مذاکرات کا مقصد افغانستان کی متحارب قوتوں کو ایک میز پر لا کر کِسی فارمولے پر متفق کرنا ہے۔ انہوں نے کہا سی پیک سے علاقائی باہمی تعاون کی راہیں نکلیں گی، وہ اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، چین نے ہمیشہ ان کا نہ صرف خود کھُل کر اعتراف کیا ہے بلکہ عالمی فورموں میں جہاں جہاں ضرورت پڑی ہے، اس نے پاکستان کے اس ضمن میں کردار کو ہر مرحلے پر سراہا ہے، کیونکہ بھارت کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان پر بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کا ملبہ منتقل کرتا رہے لیکن بھارت کے اندر بُہت سی دہشت گرد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں اور مُلک کی کئی ریاستوں میں اُن کی کارروائیاں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن بھارت کے اندر جب کبھی دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے، بھارت کے سیاستدان فوری طور پر بلا سوچے سمجھے اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینا شروع کر دیتے ہیں اور بھارتی میڈیا بھی کوئی وقت ضائع کئے بغیر اپنی حکومت کی ہاں میں ہاں ملا دیتا ہے، بھارت کے اندر جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان میں ترتیب یہی ہوتی ہے کہ ایک واقعہ رونما ہوا، آدھ پون گھنٹے کے اندر اندر اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا گیا اور بھارتی میڈیا نے بھی کورس کی شکل میں بھارت کی سرکاری الزام تراشی میں اپنی آواز ملا دی حالانکہ بُہت سے واقعات ایسے ہوئے ہیں جو بعد میں بھارتی تنظیموں کی کارروائی نکلے۔ سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگانے کا واقعہ یاد کر لیں، اس کا الزام بھی پاکستان پر لگایا گیا لیکن بعد میں ایک حاضر سروس فوجی کرنل اس کا ذمہ دار ٹھہرا اور جب ایک ذمہ دار اور فرض شناس پولیس افسر تحقیقات کے بعد اس کرنل کو گرفتار کرنے والا تھا تو اس پولیس افسر کو پُراسرار حالات میں ہلاک کر دیا گیا، اس کے بعد سے تحقیقات کا معاملہ ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ اس آتشزدگی میں زیادہ تر مسافر پاکستانی تھے جو بھارت سے واپس آ رہے تھے، آج تک بھارت نے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔
عالمی فورموں پر جب بھارت کے حکمران پاکستان کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں تو چین ہمیشہ ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرتا ہے۔ روس اور تُرکی نے بھی کئی مواقع پر بھارتی الزام تراشی کا کھُل کر جواب دیا ہے۔ جب سے امریکہ پاکستان کے خلاف یہ الزام لگا رہا ہے کہ اُس کے علاقے میں دہشت گردوں کے کیمپ ہیں تو چین اُسے یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ الزام تراشی درست نہیں۔ اس طرح اگر افغانستان میں امن قائم کرنا مقصود ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا، افغانستان میں امن مذاکرات کے ذریعے ہی آ سکتا ہے، طاقت کے استعمال سے نہیں۔ حال ہی میں چینی دفتر خارجہ نے کھُل کر کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ ہمت اور حوصلے سے کیا ہے اور اس کا نتیجہ ہے کہ اب دہشت گردی کی وارداتیں بڑی حد تک کم ہو گئی ہیں۔ چینی سفیر نے اپنی بات میں یہ وضاحت بھی شامل کر دی ہے کہ اس سے پہلے بھی 2007-08ء میں سفارت کار کی حیثیت سے اسلام آباد میں مُتعین تھے تو کھُلے عام پھرنا مشکل تھا، اب وہ مختلف شہروں میں بلاجھجھک سفر کرتے ہیں اور کِسی فکرمندی میں نہ خود مُبتلا ہوتے ہیں نہ حکومت کو ان کے بارے میں کوئی تشویش ہوتی ہے۔ چینی سفیر کا کہنا تھا کہ پوری دُنیا کو پاکستان کی ان کوششوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے کیونکہ یہ کامیابی بڑی محنت اور قربانیوں سے حاصل ہوئی ہے، لیکن اس کے برعکس امریکی حکومت پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لئے الزام تراشی کی مہم چلا رہی ہے اور پاکستان کی اقتصادی امداد بھی روکی ہوئی ہے جو قابلِ تحسین اقدام نہیں ہے۔
چینی سفیر کا سی پیک کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ منصوبہ باہمی تعاون کے بُہت سے در وا کر رہا ہے اور علاقے کے ملک بھی نہ صرف اس سے مستفید ہو سکتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے بیروزگاری وغیرہ پر قابو پا کر دہشت گردی کو بھی کنٹرول کرنا ممکن ہو سکے گا۔ چین اس بات کا بھی خواہش مند ہے کہ سی پیک کو افغانستان تک توسیع دے دی جائے، اس کا بُہت زیادہ فائدہ تو خود افغانستان کو ہوگا جو خشکی میں گھرا ہوا مُلک ہے اور اس کی اپنی کوئی بندرگاہ نہیں، افغانستان کا درآمدی اور برآمدی مال سی پیک کے منصوبے کے تحت تعمیر ہونے والی شاہراہ کے ذریعے گوادر پُہنچایا جا سکتا ہے پھر اس کا رابطہ ون بیلٹ ون روڈ کے چینی منصوبوں کے ذریعے دُنیا کے تین براعظموں سے ہو سکتا ہے جو اس منصوبے کا ہدفِ اصلی ہے لیکن افغانستان بظاہر بھارتی اثرورسوخ کی وجہ سے اس سلسلے میں فوری پیش رفت سے گریز کر رہا ہے۔ چین نے تو بھارت کو بھی اس ضمن میں فراخ دلانہ پیش کش کی ہوئی ہے لیکن بھارت کی پاکستان دشمنی اس کے آڑے آ جاتی ہے اور وہ ایک مفید منصوبے کے مثبت پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتا ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -