حالات، سیاست اور سازش

حالات، سیاست اور سازش
 حالات، سیاست اور سازش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ضمنی انتخاب میں حکمران جماعت کو ہرانا بہت مشکل ہوتا ہے، یہ بات اتنی غلط بھی نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست کے چار پانچ عشروں کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے ، لیکن چکوال میں ہونے والے PP-20 کے ضمنی انتخاب میں، جو چکوال شہر، بلکسر اور کلر کہار کے علاقوں پر مشتمل ہے، مسلم لیگ نواز کی تقریباً 30 ہزار ووٹوں سے فتح کچھ اور ہی پیغام دیتی ہے۔

سب سے بڑا پیغام تو یہی ہے کہ مقبول عوامی لیڈر کو غیر سیاسی عمل کے ذریعہ سیاسی میدان سے باہر نہیں کیا جا سکتا اور دوسرا پیغام یہ کہ سازش کسی سیاست دان اور مقبول لیڈر کی سیاست ختم نہیں کر سکتی۔

کتنی عجیب بات ہے کہ ڈکٹیٹر ہوا کا جھونکا بھی برداشت نہیں کر سکتا ،لیکن ایک عوامی لیڈر بڑے سے بڑے طوفان میں بھی ثابت قدم رہتا ہے۔ یہ کہاوت بالکل سچ ہے کہ جس لیڈر کو عوام کی حمائت حاصل ہو، اسے سیاسی موت نہیں آ سکتی۔ ہماری 70 سال کی تاریخ دیکھ لیں، غیر جمہوری طاقتوں نے مقبول عوامی راہنماؤں لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اگر یہ سوچ کر راستے سے ہٹایا تھا کہ ان کی سیاست ختم ہو جائے گی تو پھر وہ مکمل ناکام رہیں، مگر سالہا سال گذرنے کے باوجود یہ تمام راہنما عوام کے نزدیک ویسے ہی مقبول اور معتبر ہیں جیسا اپنی سیاسی زندگی میں تھے جب کہ ان کے خلاف سازشیں کرنے والے وقت کی دھول میں دفن ہو گئے۔

پانامہ کیس کی سماعت کے دوران میاں نواز شریف کو گاڈ فادر اور سسلین مافیا جیسے القابات سے نوازا گیا اور پانچ ججوں نے متفقہ طور پر انہیں نا اہل قرار دیا، جبکہ پہلے جے آئی ٹی اور اب احتساب عدالت میں انہیں بار بار سخت تفتیش سے باریک چھلنی کی طرح گزارا جا رہا ہے، لیکن عوام میں ان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔

ضمنی انتخاب میں عام طور پر ووٹروں کا ٹرن آؤٹ عام انتخابات کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے اور اس وجہ سے حاصل کردہ ووٹ بھی کم ہوتے ہیں، لیکن چکوال کے ضمنی انتخاب میں اس سیٹ پر مسلم لیگ نواز کے امیدوار چوہدری حیدر سلطان نے 76 ہزار ووٹ لئے جبکہ عام انتخاب میں ان کے والد مرحوم چوہدری لیاقت علی نے 62 ہزار ووٹ لئے تھے۔ مرحوم علاقہ کے انتہائی کامیاب سیاست دان تھے۔

1985 سے ہونے والے تمام انتخابات میں ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہو چکے تھے، صرف ایک بار منتخب نہیں ہو سکے تھے۔ جینوئن سیاستدان کی سیاست کو سازش سے نہیں ختم کیا جا سکتا اس لئے مریم نواز شریف کا مشہور جملہ ’’روک سکو تو روک لو‘‘ ایک بڑی سیاسی حقیقت بھی ہے۔

مقبول عوامی لیڈر کو اگر اقتدار سے بے دخل کر بھی دیا جائے تو وہ پوری شدت سے کم بیک کرتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات دیکھے جائیں تو کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے۔


ہم الیکشن کے سال میں داخل ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت جمہوریت کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے جو سیاسی عمل کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کے خلاف سازشیں ہر دور میں ہوئیں ، اب پھر سازشیں عروج پر ہیں۔

جس دن چکوال کے لوگ دھڑا دھڑ مسلم لیگ نون کو ووٹ دے رہے تھے اسی دن کوئٹہ میں اس کے وزیر اعلی کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا گیا۔

بلوچستان کی سیاست کے اپنے تقاضے ہیں اور شروع سے وہاں کے حالات ایسے رہے ہیں کہ اینٹی اسٹیبشمنٹ سیاست وہاں ممکن ہی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ غیر جمہوری طاقتوں کے لئے بلوچستان ہمیشہ سب سے آسان ہدف ہوتا ہے، چنانچہ اس دفعہ بھی انہوں نے یہ ٹارگٹ حاصل کر لیا۔

یہاں میاں نواز شریف کی بالغ نظری کی داد دینا ہو گی کہ انہوں نے اپنے وزیر اعلی کا مستعفی ہونا قبول کر لیا ،لیکن ہارس ٹریڈنگ کے ذریعہ حکومت بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سازشیں اپنی جگہ ،لیکن ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی سیاسی میچورٹی میں اضافہ ہوا ہے۔

دوسری طرف ملکی سیاست کو پٹری سے اتارنے کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے آ کر ایک مرتبہ پھر دھرنا سیاست کا آغاز کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید کے لئے انتخابی سیاست کوئی معنی نہیں رکھتی کہ یہ دونوں حضرات اپنے بل بوتے پر ایک بھی نشست جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لئے ان دونوں کو انتخاب سے زیادہ انتشار بہتر لگتا ہے ۔

مجھے زیادہ تعجب عمران خان اور آصف علی زرداری پر ہوتا ہے جو ملکی سطح پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوں یا نہ ہوں ،لیکن کسی ایک صوبہ میں بہر حال حکومت بنا سکتے ہیں اور وفاق کی سطح پر بھی مناسب نمائندگی حاصل کر سکتے ہیں ، اس لئے ان دونوں حضرات کے پاس صفر جمع صفر ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید کے ساتھ احتجاجی سیاست میں حصہ لینے کا سیاسی جواز نہیں ہے۔

یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ الیکشن کے سال میں الیکشن کی تیاری کرنے کی بجائے وہ کیوں حالات کو ایسے بگاڑ کی طرف لے جانے میں شریک ہیں جس کے نتیجہ میں الیکشن سبوتاژ یا تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے، اس لئے لگتا یہی ہے کہ ان کی موجودہ سیاست کا جواز سیاسی نہیں، بلکہ غیر سیاسی ہے اور جہاں تک غیر سیاسی قوتوں کا تعلق ہے، انہوں نے تو ملک کے دو ٹکڑے ہونے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔

پاکستانی عوام کے لئے زہرِ قاتل جیسی دھرنا سیاست کا آئے دن اہتمام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے ساتھ کھڑی جماعتوں کے علاوہ پیر حمید الدین سیالوی بھی لاک ڈاؤن ٹائپ سیاست کے ذریعہ ملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں ،جبکہ ابھی چند ہفتے پہلے ایسی کوشش خادم حسین رضوی اور ڈاکٹر اشرف جلالی بھی کر چکے ہیں۔

اسی طرح قصور میں پیش آنے والے اندوہناک واقعہ کی آڑ میں بھی کچھ لوگ انتشار کی سیاست کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ قصور کا واقعہ ہمارے معاشرے کی اخلاقیات پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے اس واقعہ کا سیاسی استعمال غلط ہے، بالکل ویسے ہی جیسے سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے افسوس ناک واقعہ کی آڑ میں ڈاکٹر طاہر القادری ساڑھے تین سال سے احتجاجی سیاست کر رہے ہیں اوراب تیزی سے ملک کو انتشار کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔

دھرنا سیاست نے ملک کی معیشت اور عوام کی فلاح و بہبود کا جنازہ نکال دیا ہے اور اس کی تمام ذمہ داری عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر عائد ہوتی ہے۔

غیر جمہوری قوتیں کوئی اور مقصد تو حاصل کر نہیں پاتی ہیں، لیکن اپنی سازشوں سے ملک کو انتشار کا شکار اور قومی ترقی کو داؤ پر لگا دیتی ہیں۔ پاکستانی عوام کی غالب اکثریت ملک میں امن، ترقی اور خوش حالی چاہتی ہے، لیکن غیر جمہوری طاقتوں کی وجہ سے اکثر اوقات انہیں اپنا خواب چکنا چور ہوتا نظر آتا ہے۔


اس وقت پاکستان کو انتہائی مشکل اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔سب سے اہم بھارت اور افغانستان سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر خطرات ہیں ،خاص طور پر بھارت، اسرائیل، افغانستان گٹھ جوڑ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی اداروں کو شیشے میں اتار لیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو اب بہت زیادہ اندرونی استحکام کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کی معیشت اور نہ ہی سیاست اور حکومت عدم استحکام کی متحمل ہو سکتی ہیں۔

ان کے غیر مستحکم ہونے کا فائدہ موقع کی تاک میں تیار بیٹھے دشمنوں کو ہو گا۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو پاکستان کی معیشت، سیاست اور حکومت کو مضبوط کرکے دشمن کے عزائم ناکام بنانا ہوں گے۔ان حالات میں انتشار پیدا کرنے سے ملک کی نہیں، ملک دشمنوں کی خدمت ہو گی۔

اللہ کرے وہ تمام قوتیں جوملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں وہ 21 کروڑ ہم وطنوں پر مہربانی کرتے ہوئے سسٹم کی مضبوطی میں حصہ لیں۔

غیر سیاسی یا غیر جمہوری طریقے سے میاں نواز شریف کو شکست نہیں دی جا سکتی کیونکہ عوام میں مقبول کسی بھی لیڈر کی سیاست کو سازش سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ایک ہی طریقہ ہے جس میں تمام سیاست دانوں اور ملک کی بھلائی ہے اور وہ طریقہ ہے کہ اقتدار میں آنے کی خواہش مند پارٹیاں اچھی اقدار کی سیاسی جدو جہد ، الیکشن کی بھرپور تیاری اور عوام کے لئے بہترین معاشی اور سماجی پروگرام کے ساتھ میاں نواز شریف کا مقابلہ کریں۔

حکومت کسی کی میراث نہیں، لیکن اسے ہی ملنی چاہئے جو اس کابہتر مستحق ہے جو عوام کی خوش حالی اور ملکی معیشت کی ترقی لانے کا سب سے زیادہ اہل ہو۔ اچھی ٹیمیں صاف گول کرکے میچ جیت لیتی ہیں، حریف کو امپائر سے ریڈ کارڈ دکھا کر گراؤنڈ سے باہر بھیج کر نہیں۔

اگر ممکن ہوتا تو حلقہ 120 میں بھی بیگم میاں نواز شریف کو شکست ہوتی اور حلقہ پی پی 20 میں بھی۔یہ چیزیں جتنی جلدی سب کو سمجھ آئیں گی، اتنا ہی سب کا اور اس ملک کا وقت بچے گا۔

مزید :

رائے -کالم -