آہ صفدر چوہدری
سوشل میڈیا پر یہ خبر پڑھ کر غم اور دکھ کا ایک زوردار جھٹکا لگا۔ ان کی علالت کی خبریں مدت سے سن رہے تھے۔مگر نجانے کیوں یقین نہیں آ رہاہے کہ موت ہمارے اس دوست کو چھین کر لے گئی ہے، جس کی مسکراہٹ ہمیشہ زندگی کا پیغام دیتی تھی۔
صفدر علی چوہدری مدتوں جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ۔وہ شعبہ نشرواشاعت کے ناظم اور ایشیا کے مدیررہے۔ وہ جماعت اسلامی کے ان دوستوں میں سے تھے جن سے احترام آمیز محبت کرنے کی عادت سی ہو جاتی ہے۔
ان سے پہلی ملاقات پرانی انارکلی میں قومی ڈائجسٹ کے دفتر میں ہوئی۔ اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ صحافت کے دور میں متعدد مرتبہ منصورہ جانا ہوا۔ جماعت کے اہم راہنماؤں کے انٹرویو کیے۔
ان میں میاں طفیل محمد ، قاضی حسین احمد اور پروفیسر غفور احمدشامل تھے۔صحافتی ذمہ داریوں کے دوران جب بھی کسی معاملے پر جماعت کے راہنماؤں کے تاثرات یا رائے لینے کی ضرورت پیش آتی، چوہدری صفدر کو فون کرتے۔ وہ محبت اور شفقت بھرے انداز میں بھرپور تعاون کے لیے تیار ملتے۔
ایک مرتبہ قومی ڈائجسٹ کا ایک خصوصی نمبر شائع کیا جا رہا تھا۔ جماعت اسلامی کے ایک سینئر راہنما سے انٹرویو کی ضرورت پیش آئی۔ صفدر چوہدری صاحب سے درخواست کی۔
انہوں نے انٹرویو کا اہتمام کروا دیا۔ مگر انٹرویو کے دورا ن اس وقت عجیب صورت حال پیدا ہو گئی جب ان بزرگ راہنما نے ہر سوال کا جواب ایسے انداز میں دیا کہ اس جواب کا سوال کے ساتھ کوئی تعلق نظرنہیں آتاتھا۔
انٹرویوکے بعد ہم باہر نکلے تو صفدر چوہدری صاحب نے زیرلب مسکراتے ہوئے کہا کہ ڈوگر صاحب اب آپ کیا کریں گے؟ میں نے برجستہ کہا ’’چوہدری صاحب! جواب تو تبدیل نہیں کیے جا سکتے اب میں جوابات کے مطابق اپنے سوالات تبدیل کر لوں گا۔
‘‘اس پر انہوں نے اپنا روایتی قہقہہ بلند کیا۔چوہدری صفدر صاحب کے میڈیا کے لوگوں سے ذاتی تعلقات تھے۔ وہ جماعت کی خبریں بھی دیتے۔ اخبارات کو مضامین بھی فراہم کرتے۔ اچھے انداز سے اپنے موقف پر زور بھی ڈالتے مگر ان میں ناراض ہونے یا بدتمیزی کرنے کی صلاحیت سرے سے موجود نہیں تھی۔
اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ وہ جماعت اسلامی پر ہونے والی تنقید بھی سنتے اور ضروری سمجھتے تو کوئی جواب دے دیتے تاہم وہ کبھی مناظرے یا جھگڑے کی صورت پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔
صحافت میں کئی سال گزارنے کے بعد میں حکومت کے محکمہ تعلقات عامہ سے وابستہ ہو گیا۔ کبھی کسی تقریب میں ملاقات ہوتی تو انتہائی محبت سے ملتے اور منصورہ آنے کی دعوت دیتے۔ ان کا رویہ ان لوگوں سے قطعی طور پرمختلف تھا جو صحافی کا اخباریا عہدہ دیکھ کر اپنا انداز بدل لیتے ہیں۔
ہمارے مرحوم دوست جہانگیر تمیمی صاحب پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ وابستہ ہونے سے پہلے روزنامہ نوائے وقت میں تھے۔ ایک مرتبہ ان کے ساتھ پرانی انارکلی سے گزر رہے تھے ، ایک صاحب ان سے بڑے تپاک سے ملے۔
حسب توفیق خوشامد بھی فرمائی۔ آخر دریافت کیا کہ تمیمی صاحب کیا آپ نوائے وقت میں ہی ہوتے ہیں نا۔ اس پر تمیمی صاحب نے برجستہ کہا کہ نہیں میں نے نوائے وقت چھوڑ دیا ہے۔ آپ اپنا سلام واپس لے لیں۔
صفدر چوہدری صاحب کے ساتھ تعلقات تین عشروں سے زیادہ عرصے پر محیط تھے۔ وہ ایسے لوگوں میں سے تھے جو اپنے فرائض کی ادائیگی محبت اور جذبے کے ساتھ کرتے تھے۔ مختلف ادوار میں جماعت اسلامی پر سخت وقت آئے۔
اس کو میڈیا کی زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض اوقات یہ مظلوموں کے ساتھ کھڑی بھی نظر آئی۔ چوہدری صفدر صاحب ہر دور میں فعال نظر آتے تھے۔ ہلکے سے تبسم کے ساتھ وہ میڈیا کے لوگوں سے ملتے۔ جماعت اسلامی کا پیغام اور موقف عوام تک پہنچانے میں چوہدری صاحب نے زبردست کردار ادا کیا۔ میڈیا میں صفدر چوہدری صاحب کی بہت زیادہ کریڈیبلٹی تھی۔ اور اس کریڈیبلٹی کو انہوں نے احسن طریقے سے استعمال کیا۔
صفدر چوہدری صاحب اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم بھی رہے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ دور تھا جب قناعت کو جماعت کا سب سے بڑا اثاثہ سمجھا جاتا تھا۔
صفدر چوہدری صاحب نے میاں طفیل صاحب کو دیکھا تھاجو تقسیم ہند سے پہلے ریاست کپورتھلہ کے دوسرے وکیل تھے۔ مگر مولانا مودودی کی ہدایت پر انہوں نے کسی انگریز کی عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا اور پٹھان کوٹ آ کر مولانا مودودی کے ادارے سے وابستہ ہو گئے تھے۔
جہاں یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ وکیل ترجمان القرآن کے بنڈل ڈاک کے ذریعے بھجوانے کا کام کیا کرتے۔ صفدر چوہدری صاحب بھی جماعت کے ایسے ہی پیروکار تھے۔ انہوں نے جب جماعت میں شمولیت اختیار کی تو اس وقت کام کرنے والوں کو صرف اتنا ہی معاوضہ دیا جاتا تھا جس سے ان کی بمشکل گزر بسر ہوتی تھی۔
وہ بے سروسامانی کا دور تھا۔ ایک طرف تو صحافت کے بڑے حصے پر حکومت کا براہ راست کنٹرول تھا۔ ووسری طرف جماعت کے شعبہ نشر و اشاعت کے وسائل کی صورت حال خاصی ناگفتہ بہ تھی۔ صفدر چوہدری کو ملنے والی پہلی سواری وہ پھٹیچر موٹر سائیکل تھا جو یورپ جاتے ہوئے عطاالحق قاسمی فروخت کر گئے۔
صفدر چوہدری صاحب نے جو کٹھن راستہ اختیار کیا وہ بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ اس پر چلتے رہے۔ وہ ایک نظریاتی آدمی تھے۔ ان کا لاڈلا بیٹا مظفر نعیم جہاد کشمیر میں شہید ہو گیا۔
رؤف طاہر صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ تعزیت کے لیے گئے تو انہوں نے چوہدری صاحب کو مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ غیر معمولی طور پر باحوصلہ پایا۔ اس موقعہ پر ایک صاحب نے کہا کہ شہید کے والد کا چہرہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔
تاہم بیٹے کی شہادت کا دکھ ان کے دل میں بس گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد انہیں شوگر کا موذی مرض لاحق ہو گیا اور یہی مرض ان کی وفات کی وجہ بنا۔صفدر چوہدری صاحب جہاد افغانستان سے بھی وابستہ رہے۔
وہ صحافیوں کے متعدد وفود لے کر افغانستان بھی گئے۔ ایک وفد میں صحافی خواتین بھی شامل تھیں۔ گلبدین حکمت یار ، ربانی اور عبداﷲ عزام جیسے بڑے لیڈروں سے ان کے قریبی تعلقات تھے اور انہوں نے افغان جہاد کی کوریج کے لئے اپنے فرائض پیشہ ورانہ دیانتداری کے ساتھ ادا کئے۔
خالد ہمایوں صاحب ہمارے دیرینہ رفیق ہیں۔ صفدر چوہدری صاحب کی وفات کی خبر سن کر میں نے انہیں فون کیا تو یادوں کو زبان دینے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ چوہدری صاحب کی جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی بے حد طویل تھی۔
وہ مولانا مودودی کے ساتھ بھی رہے۔ انہوں نے جماعت کو تاریخ کے مختلف ادوار میں دیکھا۔ جماعت کی تاریخ، سیاست اور ملکی معاملات کے متعلق وہ بہت سے اہم واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔
مدت سے احباب انہیں اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے کا مشورہ دے رہے تھے مگر اس پر وہ توجہ نہ دے سکے۔ اس طرح بہت سے اہل صحافت نے ان سے طویل انٹرویو کی درخواست بھی کی مگر شاید انہوں نے اسے مناسب نہیں سمجھا۔ چوہدری صفدر صاحب کا سینہ قومی تاریخ کے بہت سے رازوں کا امین تھا جنہیں وہ اپنے ساتھ لے کر ہی دوسری دنیا میں چلے گئے ہیں۔
وہ جرات مند انسان تھے مگر بہت سے معاملات میں شاید خوف فسادخلق کی وجہ سے انہوں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ وہ جھگڑے اور فساد سے دور رہنے والے انسان تھے۔ انہوں نے پاکستانی میڈیا کو بے شمار خبریں دیں مگر خود خبر بننے سے گریز کرتے رہے۔
خالد ہمایوں صاحب بتا رہے تھے کہ ایک دور میں انہیں اسلامی جمعیت کی ماں بھی کہا جاتا تھا۔ وہ جماعت اسلامی کے ضلعی سیکرٹری صاحبان اطلاعات کی تربیت کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ ایسی ورکشاپوں میں شمولیت کے لیے پورے ملک سے لوگ آتے تھے۔
انہیں میڈیا کی اہمیت بتائی جاتی تھی۔ میڈیا کے ساتھ تعلقات رکھنے کے متعلق مشورے دیئے جاتے تھے۔ میڈیا کو خبر دینے کے فن سے آشنا کرایا جاتا تھا۔ 1970ء کے عشرے میں ہونے والی ایسی ایک ورکشاپ کا تذکرہ کرتے ہوئے خالد ہمایوں صاحب نے بتایا کہ جب ضیاء الحق آرمی کے سربراہ بنے تو ان سے کسی صاحب نے ضیاء الحق کے متعلق رائے دریافت کی۔ اس پر چوہدری صاحب نے کہا کہ ’’بس انہیں مسلم لیگی ہی سمجھ لیں‘‘۔
جب ان سے ان کے اس جملے کی وضاحت کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا ’’یہ اسلام کا نام تو بہت لیں گے مگر اسلام کے لیے کچھ نہیں کریں گے‘‘۔