شہری مسائل کا حل ٹاؤن پلاننگ یا ماسٹر پلاننگ کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے
پاکستان میں ٹاؤن پلاننگ کے ذریعے ترقی کیسے ہو؟
کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں 70سال تک مسلسل تجربات کرنے کے بعد بھی ہماری حکومتیں شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ آج کراچی ، لاہور ، فیصل آباد ، حیدر آباد ، گوجرانوالہ جیسے شہر مسائل کا گھڑ ہ بن چکے ہیں۔ ہر دور میں حکومتوں نے شہروں کے ماسٹر پلان بنائے اور بلدیاتی نظام میں بہتری لانے کے لئے نت نئے تجربے کئے مگر ڈھاک کے تین پات۔سوال یہ کہ کیا ہم اس طرح ہی چلتے رہیں گے کہ لوگ گندا پانی پی کر کینسر اور ہیپا ٹائٹس کے مریض بنتے رہیں اورٹریفک یا تجاوزات سے ماحول پرا گندہ رہے ؟ اس وقت ملک میں 20کروڑ عوام گندگی کی وجہ سے ہیپاٹائٹس کا شکار ہو چکے ہیں اس کی بڑی وجہ آبادیوں میں ٹاؤن پلاننگ کنٹرول کا نہ ہو نا ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہمیں سوچنا ہوگا۔
ویژن کی کمی:
عمومی طور پر ہمارے رہنما ترقی کے وعدے کرتے وقت صرف نعروں سے کام لیتے ہیں اور ایک دوسرے کی تنقید کرتے ہیں۔ جبکہ ترقی کے منصوبہ جات میں ایک واضع روڈ میپ(Road Map) کی ضرورت ہوتی ہے۔
کسی ملک میں ترقی کا زمین کے استعمال سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کیونکہ ترقیکی ہر لہر اگر عملی جامہ پہن لے تو زمین کے استعمال (Land Use)میں تبدیلی آتی ہے۔ ہر ملک شہروں، قصبوں، دیہاتوں ، کھیتوں اور کھلیانوں کا مجموعہ ہو تا ہے۔لفظ "ترقی" یعنی "ڈویلپمنٹ "ایک وسیع معنی رکھتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے قوانین میں اس کی تعریف یہ ہے"ڈویلپمنٹ زمین کے اوپر یا زمین کے نیچے کسی بھی تبدیلی کا نام ہے" تمام ترقی یافتہ ممالک کے قوانین ٹاؤن پلاننگ یا ماسٹر پلاننگ کی منظوری کے بغیر منصوبے شروع نہیں کرتے ۔وہاں ماسٹر پلان ایک طاقت ور نقشہ ہوتا ہے جسکی خلاف ورزی ایک ناقابلِ معافی فوجداری جرم تصور کیا جاتا ہے۔ یہ نقشہ20سے 30سال کیلئے بنایاجاتا ہے اور کوئی سیاسی حکومت یا بیوروکریٹس یا سرمایہ دار اس میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بغیر ٹاؤن پلاننگ یا ماسٹر پلاننگ کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
ترقی اور سی پیک منصوبہ:
پاک چائنہ اکنامک کو ریڈورکو حکومت گیم چینجر(Game Changer) کہہ رہی ہے۔ یعنی حکومت کا دعوہ ہے کہ پاکستان اب ترقی کی جانب گامزن ہو چکا ہے یا جلد ہو جائے گا۔ اس عزم کو حقیقت بنانے لے لئے ترقیاتی عمل میں ٹاؤن پلاننگ ، ماسٹر پلاننگ اور ریجنل پلاننگ بہت لازمی چیز ہے۔ لیکن ابھی تک اس شعبہ میں کوئی کام منظرِ عام پر نہیںآیا۔اس کا مطلب ہے کہ ترقی کے یہ دعوے مناسب منصوبہ بندی کے کئے جا رہے ہیں۔کیونکہ علاقائی منصوبے اگر بغیر مربوط منصوبہ بندی سے کئے جائیں تو اس کے مثبت نتائج یقینی نہیں ہوتے۔ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ ترقی اورترقیکے تصورات کو ٹاؤن پلاننگ یا ریجنل پلاننگ سے نہیں جوڑا جاتا۔دیہاتوں اور ذرعی علاقوں کی ترقی کے لئے علاقائی پلاننگ یعنی ریجنل پلاننگ سے کام کرنا بہت ضروری ہے۔اگر پلاننگ ہوتی بھی ہے تو یہ کاغذات کی حد تک رہ جاتی ہے۔
ہمارے عمومی شہری مسائل؟
ہمارا میڈیا روزانہ آبادیوں کے مسائل کا ڈھنڈورا پیٹتارہتا ہے۔ جیسا کہ چند تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے بڑے شہری مسائل عام طور پر یہ ہیں: تجاوزات، بے ہنگم کمرشلائزیشن، ٹریفک بلاکیڈ، سیوریج کے مسائل، صاف پانی کے مسائل، رہائشی علاقوں اور انڈسٹری کا مِکس ہونا، پارکنگ کے مسائل، سڑکوں کی خستہ حالی، تفریحی پارکوں کی کمی، تعلیمی اداروں کا گھروں سے دور ہونا، پلاٹوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر، بڑھتے ہوئے مکانوں کے کرائے، تنگ مکانوں کی وجہ سے بیماریوں کا پھیلنا، سیاسی حکومتوں کی مداخلت ، انویسٹر حضرات کاسیاستدانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل۔ڈی۔اے) کا فرسودہ نظام، ماسٹر پلان کی کمزور تعریف۔ حقیقت یہ کہ کہ اِن تمام مسائل کا تعلق ٹاؤن پلاننگ کے نظام سے ہے۔
ٹاؤن پلاننگ کیا ہے اور یہ کیوں ضروری ہے؟
آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ٹاؤن پلاننگ کیا ہے؟ ٹاؤن پلاننگ بڑے پیمانے پر ہاؤس کیپنگ(House Keeping)کا نام ہے۔ مثلاََ آپ اگرایک نیا گھر بناتے ہیں تو پہلے نقشہ بنایا جاتا ہے پھر ٹھیکیدار سے تعمیر ہوتی ہے۔ تعمیر کے بعد جب آپ کی فیملی گھر میں آباد ہوجاتی ہے تو نقشہ کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔ یعنی ڈرائینگ روم مہمانوں کے لئے اور باورچی خانہ کھانا پکانے کے لئے آپ کو اگر کسی روز آپ کی اہلیہ کہے کہ وہ آج ڈرائنگ روم میں کھانا پکائے گی اور آپ کا بیٹا کہے کہ وہ ماسٹر بیڈ میں اپنے دوستوں کو لے کر آئے گا تو آپ کے کیا تاثرات ہوں گے۔ اس طرح شہروں اور قصبوں کے بارے میں جب ایک مرتبہ ماسٹر پلان بن جاتا ہے تو اس پر عمل نہ کرنے سے بے ترتیبی پیدا ہوتی ہے۔ ماسٹر پلان پندرہ سے بیس سال کے لئے بنتا ہے یعنی ہماری سیاسی قوتوں کو4 سال الیکشن تک اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ ماسٹر پلان پر عمل درازی کے لئے قوانین بنا کر اس میں قوتِ نافذہ پھونکی جاتی ہے مگر افسوس کی بات ہے ہمارے ہاں ٹاؤن پلاننگ اور ریجنل پلاننگ کے مطابق بنائے گئے ماسٹر پلانوں کو خطرناک حد تک کمزور رکھا جاتا ہے تا کہ ہر آنے والی حکومت اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کر سکے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہماری آنے والی حکومتوں کو اس بارے میں سوچنا ہو گا۔
ترقی یافتہ ممالک کا تجربہ:
حقیقی ترقی کے ماڈل کو سمجھنے کے لئے ترقی یافتہ ممالک کے تجربے کو دیکھنا ہو گا۔اِن ملکوں نے آج سے تقریباََ 150برس پہلے جبکہ دنیا میں صنعتی انقلاب آیا تو مندرجہ بالامسائل کو بھانپ لیاتھا اور شہری و دیہاتی مسائل حل کرنے کے لئے ٹاؤن پلاننگ اور ریجنل پلاننگ کے قوانین بنا کر ماسٹر پلاننگ کا عمل شروع کیا ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صرف لفّاظی سے کام لیا گیا ۔ہمارے بلدیاتی اور ترقیاتی ادارے پہلے ماسٹر پلان یا آؤٹ لائن ڈویلپمنٹ پلان کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ پھر سٹرکچر پلان کہنا شروع ہو گئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تقریباََ 100سال تک ماسٹر پلان کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی ہم نے پہلے اس کی نقّالی کی اس کے بعد سٹرکچر پلان کے تصورات آئے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں ماسٹر پلان پر لمبے عرصے تک عمل کرنے سے لچک کی کمی نظر آتی تھی۔انہوں نے وقت اور تجربے سے یہ تبدیلی کی۔ ہمارے ملک میں دونوں اصطلاحات کو کنفیوز (Confuse) کر کے شہروں کے مسائل کو پیچیدہ ترین کر دیا اور یہ اصطلاحات صرف لفظوں تک محدود رہ گئیں یعنی نہ ہم اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے رہے۔
حکومتِ پنجاب میں ماسٹر پلان کی فرسودہ تعریف:
سیاسی طاقتوں سرمایہ دار قوتوں اور بیورکو کریسی نے ماسٹر پلان کی تعریف کو اس قدر کمزور رکھا کہ جب چاہیں اس میں تبدیلی کرلیں۔
بادی نظر میں ماسٹر پلان کی مندرجہ بالا تعریف بہت مسحورکُن لگتی ہے مگراس کے نتیجے میں شہر کا جو نقشہ معرضِ وجود میں آتا ہے وہ صرف ایک رنگ بھرا خوبصورت نقشہ ہوتا ہے جس میں قوتِ نافذہ نا پید ہوتی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں اکثر شہروں کی زمین پرائیویٹ ملکیت ہوتی ہے۔ پرائیویٹ زمینوں پرصرف نقشوں کے اوپر رَنگ سازی کرنے سے لینڈ یوز کنٹرول(Land Use Control) حاصل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہاں آئین کی شِق نمبر23 (Provision as to Property) سے تصادم ہوتا ہے۔ظاہری طور پر یہ شِق ہر پاکستانی کو اپنی خواہش کے مطابق جائیداد رکھنے، خریدنے اور فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہے جو کہ ایک جائز بات ہے۔ مگر مارکیٹ میں عملی طور ر جائیداد خریدنے اور فروخت کرتے وقت یا وراثت میں منتقلی کے وقت آبادیوں کے ماسٹر پلان کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ پٹواری سے فرد حاصل کر لی جاتی ہے ۔ خریدار اور فروخت کنندہ اپنے دماغوں میں پراپرٹی کا استعمال (Land Use) کا ایک خاکہ سوچ کر ڈِیل بنا لیتے ہیں۔ رجسٹرار سے رجسٹری کرا لی جاتی ہے اور پٹواری انتقال کر دیتا ہے۔ اس سارے عمل میں ماسٹر پلان کہیں نظر نہیں آتا۔ چنانچہ ہماری آبادیاں بے ہنگم طریقے سے پھیلتی جاتی ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ملک کی سیاسی قوتیں ، بیورو کریٹ اور سرمایہ دار اس نظام کو اسی طرح چلتے رہنا چاہتے ہیں کیونکہ اس طرح صوابدیدی اختیارات کو ناجائز استعمال کرنے کا دروازہ کھلتا ہے۔ماسٹر پلانوں کی ناکامی کے بعد حکومتوں نے لوکلLand Use Classification Rulesبنائے کیونکہ ان میں صوابدیدی اختیارات کے بے شمار راستے تھے اور ان کا بھی تعلق زمین کی خریدو فروخت سے نہ تھا۔ چنانچہ مسائل گھمبیر ہوتے گئے۔
آئین میں شِق نمبر 23اور24میں سُقم:
ہمارے آئین میں شِق نمبر 23اور 24حقوق جائیداد کا تحفظ (Protection of Property Rights) دیتی ہیں۔ اِن کے مطابق کسی شخص کو اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔ یہ بات جائز ہے مگر لفظ "قانون"کے تحت آبادیوں کی پلاننگ سے متعلق قوانین کی ایک لمبی لِسٹ ہے جس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مفادِ عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹاؤن پلاننگ اور ریجنل پلاننگ کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اگر ماسٹر پلان 10سال بعد کسی زمین پرسڑک یا ہسپتال یا بس اڈہ یا سبزی منڈی بنانا چاہتا ہے تو مالکان سے زمین خریدے بغیر ممکن نہیں جبکہ ہماری حکومتوں کے پاس ایڈوانس رقم نہیں ہوتی۔ چنانچہ منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں اور لوگ عدالتوں میں جاکر منصوبوں کو قانونی پیچیدگیوں میں پھنسا دیتے ہیں۔
ماسٹر پلان اور رئیل اسٹیٹ مارکیٹ:
چونکہ ماسٹر پلان یا ٹاؤن پلان کا تعلق جائیدادوں کی قیمتوں اور خریدو فروخت وٹرانسفرکے عمل سے نہیں جوڑاجا تا، لوگ من مانی کرتے ہوئے خریدو فروخت کرتے رہتے ہیں۔ انویسٹر حضرات آبادیوں کے ارد گرد پراپرٹی کی تلاش میں رہتے ہیں۔اس کے علاوہ سیاست دان بھی اس دھندے میں ملوث ہوتے ہیں اور بیوروکریسی کی مدد سے من مانی کر کے شہروں کے ماسٹرپلانوں میں اپنے مفاد کی خاطر ردوبدل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ماسٹر پلان فیل ہو جاتے ہیں اورروپیہ خرچ ہونے کے باوجود شہری مسائل حل نہیں ہوتے۔ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ اور ماسٹر پلان میں ربط پیدا ہونے سے ٹاؤن پلاننگ کا عمل تیز ہو جائے گا کیونکہ اب خریدار ماسٹر پلان میں دئیے گئے لینڈ یوز کے مطابق قیمت کا تعین کرے گا۔
پنجاب کے 13شہروں کی ماسٹر پلاننگ کا ناکام تجربہ:
ہمارے بلدیاتی اداروں اور ترقیاتی اداروں کو ایڈوانس پلاننگ کرتے وقت مفادِ عامہ(Public Interest) کے لئے زمین ایکورائر کرنا پڑتی ہے جبکہ ان کے پاس فنڈموجود نہیں ہوتے اس لئے اکثر ماسٹر پلاننگ منصوبے فیل ہوجاتے ہیں۔ ٹاؤن پلانر میاں وامق انور نے 1996میں پاکستان کے 13شہروں کا ماسٹر پلان بنانے والی ٹیم کے ساتھ کام کیا ۔آج اِس منصوبوں کو بنائے 21سال ہو چکے ہیں۔یہ تمام منصوبے ترقیاتی اداروں کی الماریوں میں کتابوں کی شکل ہی میں رہے۔ ان چند شہروں کے نام یہ ہیں: سرگودھا،گوجرانوالہ، شیخوپورہ ، ساہیوال، ویہاڑی، بورے والا،چیچا وطنی، بہاولپور، رحیم یار خان، لاہور، پشاور، ملتان اورفیصل آباد۔ افسوس ایشین بینک سے قرضہ بھی لیا اور فائدہ بھی نہیں ہوا۔
ماسٹر پلان اور زمین کی ملکیت:
تجربے سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ جب ہم ٹاؤن پلاننگ کیلئے قلم اٹھاتے ہیں تو زمین کی ملکیت کا سوال پیدا ہو تا ہے کہ جس زمین پر آپ ایک لائن لگانا چاہتے ہیں وہ کس کی ملکیت ہے اور اس کی کیا قیمت ہے؟ آپ کے لائن لگانے کے بعد قیمت میں کیا تبدیلی آئے گی اور خرید و فروخت مارکیٹ پر کیا ا ثرات ہوں گے۔ ہمارے ملک میں اکثر شہری زمین پرائیویٹ ملکیت میں ہے۔ ٹاؤن پلاننگ کرتے وقت آپ جب عوامی سہولت کی چیزیں تجویز کرتے ہیں تو آپ کا قلم شہریوں کی پرائیویٹ زمینوں یا جائیدادوں کو متاثر کرتاہے ۔ جیسا کہ سکول ، ہسپتال، بسوں کے اڈے، مارکیٹیں،شاہرائیں وغیر ہ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔چونکہ اس مقام پر ہمارا تصادم آئین کی شِق نمبر23اور24 میں جائیداد کے متعلق دی گئی شخصی آزادی سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے اکثر ماسٹر پلان فیل ہو جاتے ہیں۔اس لئے ماسٹر پلان اور حقوقِ ملکیت میں ربط بہت ضروری ہے۔
ٹاؤن پلاننگ اور پٹوار کا نظام:
ٹاؤن پلاننگ کا زمین کی ملکیت کے نظام سے بہت ہی گہراتعلق ہے۔ پٹواری نظام کے مطابق پاکستان کی زمین خسروں، کھیوٹ اور کھیتوں میں تقسیم ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام زرعی زمینوں کے لئے تھا اور اس نظام میں یہ مقصود تھا کہ زمین کے ہر مالک کو آب پاشی کیلئے پانی کی کھال ملے اور اپنا مالک کھیت سے نکالنے کے لئے 15سے20فٹ کا راستہ ملے۔ دیہاتوں کے قریب قبرستان اور شاملات زمینیں مخصوص کر دی گئیں۔ چونکہ یہ نظام ذرعی علاقوں کے لئے تھا۔ جہاں زرعی زمینوں کی تقسیم آسان ہو تی ہے کیونکہ معاملہ ایکڑوں میں ہوتا ہے۔ شہری آبادیوں میں مرلے اور فٹوں میں بات ہوتی ہے اور جھگڑا زمین کی تقسیم کے وقت ہوتا ہے ۔ جب پٹواری ایک حصہ دار کو سڑک کا فرنٹ دیتا ہے اور دوسرے کو پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے حکومت کے لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے باوجود لینڈ کرپشن ختم نہیں ہوتی۔ ہمیں اس نظام کو ٹاؤن پلاننگ کے نظام سے جوڑنا ہو گا۔ لینڈ ریوینیو نظام کو ٹاؤن پلاننگ نظام کے ماتحت کرنا ہو گا�آآٹو میٹک ٹاؤن پلاننگ سسٹم:
راقم نے 35سال تک ٹاؤن پلاننگ پریکٹس کرنے کے بعد ملک کے موجودہ حالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک آٹو میٹک ٹاؤن پلاننگ نظام تجویز کیا ہے۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جائیداد انسان کی کمزوری ہوتی ہے۔ آج ہمارے ملک کے سیاسی نظام میں جو طوفان برپا ہے اس کی بنیاد بھی جائیداد ہے۔جبکہ ہر جائیدادزمین ہی پر واقع ہوتی ہے اور اس کا تعلق شہر کے ماسٹر پلان یا ٹاؤن پلان سے ہوتا ہے۔ہر جائیداد کا ایک موجودہ استعمال(Land Use) ہوتا ہے اور ایک مستقبل کا استعمال ہوتا ہے جو کہ ماسٹر پلان یا ٹاؤن پلان کے مطابق ہونا چاہیے ۔چونکہ قوانین کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہمارے ماسٹر پلانوں میں قوتِ نافذہ نہیں ہوتی۔اس لئے عوامی طاقتور طبقے کرپشن کر کے اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کر کے مالی فائدے حاصل کرتے ہیں۔اس روِش کو کم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کے ماسٹر پلان یا ٹاؤن پلان کی حیثیت کوآئین میں دئیے گئے جائیداد کے تصور سے جوڑ دیا جائے۔ یہ کام آئین کی شِق نمبر 23اور24میں چند معمولی تبدیلیاں کرنے سے کیا جا سکتا ہے۔اس طرح پورے ملک میں ٹاؤن و ریجنل پلاننگ کا آٹو میٹک نظام تدریجی طور پر شروع کیا جاسکتا ہے۔اس کام کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز دی جاتی ہیں:
تجویز نمبر1: آئین کی شِق نمبر 23اور24میں معمولی تبدیلی ۔
آئین کی شِق نمبر 23اور24میں معمولی تبدیلی کرنے سے پورے ملک میں ٹاؤن پلاننگ کا نظام نافذ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں میں اپنے بھائی سیاستدانوں پارلیمنٹیریننز سے مودبانہ درخواست کروں گا کہ اس ملک کی زمین ہماری زمین ہے۔ ہم نے کل اس زمین کے اندر جاکر اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ آبادیون کے نظام کو درست کیا جائے کیونکہ ان آبادیوں اور کھیتوں کے مجموعے کا نام پاکستان ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے سیاست دانوں نے آج سے 150سال قبل دنیا کے شہروں میں ٹاؤن پلاننگ کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کے لئے سوچ بچار اور قانون سازی کی۔ آپ ایسا کام کر جائیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اچھے لفظوں سے یاد کریں۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ ماسٹر پلان کے فیل ہونے کی وجوہات آئین میں دئیے ہوئے حقوقِ جائیداد سے متصادم ہوتی ہیں اور انسانی حقوق کے نام پر شہری اپنی جائیدادوں کو من مانی طریقے سے ڈویلپ(Develop) کرتے ہیں اور Stay Order حاصل کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے عوامی مفادکے منصوبے تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔جبکہ ماسٹر پلاننگ اور ٹاؤن پلاننگ کئے بغیرشہر ی مسائل حل کرنا نا ممکن ہے۔*مثال کے طور پرمندرجہ ذیل ایک مقدمے کی مثال ہے:
12اگست 1991کو وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے ایک شہری امین نعیم کی جانب سے دائر کردہ ایک درخواست پرفُل بینچ کا فیصلہ سنایا۔ اس درخواست میں غیر منقولہ جائیداد کے حصول (عارضی اختیار) کے ایکٹ کی دفعہ 7(1)3اور11کو اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا تھا کہ یہ اسلام کے منافی ہیں۔ مذکورہ دفعات حکومت کو اس بات کا اختیار دیتی ہیں کہ وہ کسی بھی عمارت کو کسی دفتر، وفاقی یا صوبائی حکومت کے تعلیمی اداروں، کسی کارپوریٹ اتھارٹی وغیرہ کے قیام کے لئے اس کے مالک کی رضا مندی کے بغیر حاصل کرے۔ دفعہ 7حکومت کو اس بات کا اختیار دیتی ہے کہ وہ عمارت کے مالک کی رضا مندی کے بغیر اس عمارت کے حصول کے عوض معاوضہ وغیرہ کو طے کرے خواہ وہ مارکیٹ ریٹ کے برابر نہ بھی ہو جبکہ دفعہ11اس طرح کے معاملات میں سول عدالتوں کے دائرہ اختیار پر پابندی عائد کرتی ہے۔
عدالت نے قرآن و سنت کی روشنی میں کہا کہ کسی بھی شخص کی جائیداد کو اس کے مالک کی اجازت کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
یہی وہ فیصلہ ہے جس کی وجہ سے شہروں کے ماسٹر پلانوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔نہ ہی حکومتوں کے پاس زمینیں ایکوائر کرنے کے لئے ایڈوانس رقم ہوتی ہے جبکہ ماسٹر پلان عوام کی اجتماعی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لیے لینڈ یوز (Land Use) تجویز کرتا ہے۔جیسا کہ بڑی شاہرائیں،پارکنگ ایریا، تعلیمی ادارے، ہسپتال ، تھوک پرچون مارکیٹس، صنعتی علاقے، سٹیڈیم، ائر پورٹ ، بسوں کے اڈے، سبزی منڈیاں، تفریحی مقامات وغیرہ۔
آئین میں ماسٹر پلان یا ٹاؤن پلان کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے مختلف سیاسی حکومتیں اپنی مرضی سے شہروں کے نقشے میں ردوبدل کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ ایک حکومت آتی ہے وہ اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لاتی ہے جبکہ دوسری حکومت منصوبوں کو بدل دیتی ہے۔ اس طرح شہروں کے ترقی اور انتظامی امور میں خلل پیدا ہوتاہے۔ جیسا کہ آج کل کے کراچی کے مسائل ہیں مثلاََ پانی کی سپلائی، کوڑا اٹھانے کا نظام اورٹریفک کی روانی وغیرہ۔
قوانین میں اس طرح کی تبدیلی کرنے سے تمام میونسپل اداروں ، ڈسٹرکٹ حکومتوں، ڈویلپمنٹ اتھارٹیوں کو یہ کام سونپنا چاہیے کہ وہ اپنے علاقوں کے ماسٹر پلان بنائیں اور جائیدادوں کی خریدو فروخت اور ٹرانسفر کے نظام کو ماسٹر پلان سے اس طرح جوڑا جائے کہ ہر پاکستان شہری جائیداد خریدتے اور فروخت کرتے وقت ماسٹر پلان کا محتاج ہو جائے۔اس طرح فروخت کنندہ اور خرید کنندہ ڈیل کرتے وقت ماسٹر پلان کے لینڈ یوز سے متعارف ہوں گے۔ ٹرانسفر کی دستاویزات میں ماسٹر پلان کا مجوزہ لیند یوز لکھا جائے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف لینڈ یوز کنٹرول آسان ہو جائے گا بلکہ صوابدیدی اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کم ہو گا۔
تجویز نمبر3:جائیداد کی خریدو فروخت اور ماسٹر پلاننگ چیک کا خاکہ۔
قوانین میں مندرجہ بالا تبدیلی کرنے سے مارکیٹ میں زمین /پراپرٹی کا جو خاکہ وجود میں آئے گا وہ ٹیبل نمبر 4میں دکھایا گیا ہے۔اس کے مطابق پٹواری اس بات کا پابند ہو گا کہ فرد برائے بیع دیتے وقت ماسٹر پلان میں دیے گئے
and Major Planning Permission Conditions Land Use کوفرد میں درج کرے اور رجسٹرار بھی پابند ہو کہ حقوقِ ملکیت دیتے وقت ماسٹر پلان میں دئے گئے کوائف کودستاویز کا حصہ بنائے۔
آٹو میٹک ٹاؤن پلاننگ سسٹم کا ایک خاکہ جس میں پٹواری کو پابند کیا جاتا ہے کہ فرد برائے خریداری و فروخت جاری کرتے ماسٹر پلان کا مجوزہ لینڈ یوز فرد میں درج کرے۔ فرد میں اس کام کے لئے ایک خانہ مخصوص کیا جائے۔ اس طرح خریداری اور فروخت کنندہ جائیداد کے منظور شدہ استعمال سے نا صرف متعارف ہو جائیں گے بلکہ اس کے مطابق پراپرٹی ریٹ کو ایڈجسٹ کریں گے۔
تجویز نمبر4: ماسٹر پلان کی تعریف بدل دی جائے۔
جیسا کہ تجویز نمبر2میں ذکر کیا گیا ہے کہ ملکیت کے تمام قوانین میں ماسٹر پلان کا لفظ داخل کر دیا جائے ۔ اس لیے ماسٹر پلان کی تعریف کو بدلنا ضروری ہے تا کہ ٹاؤن پلاننگ کے مقاصد حاصل ہوں۔ ماسٹر پلان کی نئی تعریف کو ٹیبل نمبر 5میں دکھایا گیا ہے۔یاد رہے روائتی ماسٹر پلانوں میں نقشہ سازی کا سکیل تفصیلی نہیں ہوتا لیکن ماسٹر پلان کی نئی تعریف کے مطابق شہر کا تفصیلی نقشہ بنانا پڑے گا اور اس کا سکیل 1:2000ہونا چاہیے۔
تجویز نمبر5:لینڈ بینک کا قیام:
لینڈ کے معاملے میں حکومت پنجاب نے لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی بنائی تھی مگر یہ کمپنی آشیانہ پراجیکٹ میں الجھ کر ختم ہو گئی۔ لینڈ کے معاملے میں ہمیں بہت گہرائی سے سوچنا ہو گا کیونکہ ٹاؤن پلاننگ اور لینڈ کی بہت گہری رشتہ داری ہے۔ حقیقت میں ٹاؤن پلاننگ تو زمین پر ہی ہوتی ہے ۔ پاکستان میں زیادہ تر زمین پرائیویٹ ملکیت ہے۔ ماسٹر پلان20سال کے لئے بنایا جائے تو پرائیویٹ لوگوں کی زمین ایکوائر (Acquire) کرنا پڑتی ہے۔ مجوزہ آٹومیٹک ٹاؤن پلاننگ سسٹم میں ایک لینڈ بینک بنایا جائے اور اس میں ایک مشترکہ فنڈ رکھا جائے۔ اس فنڈ سے شہروں کے مضافاتی علاقوں میں اجتماعی ضرورت کے لینڈ یوز (پارک، یونیورسٹیاں، شاہرائیں)مارک کر کے ریوینو ریکارڈ میں اندراج کر دیا جائے اور معاوضہ ماسٹر پلان میں درج لینڈ یوز اور مالک کے اصلی لینڈ یوز کے فرق کو مدِنظر رکھ کر دیا جائے۔ مالک کا اصلی لینڈ یوز (Land Use)وہی ہو گا جو ماسٹر پلان منطور ہونے کی تاریخ سے ایک ماہ پہلے تھا۔ مثلاََ اگر کسی شخص کی زمین زرعی ہے اور 15سال بعد وہاں ہسپتال ہے یا کمرشل سینٹر ہے تو 15سال بعد جب حکومت اس زمین کو حاصل کرے تو علاقے کے ذرعی ریٹ کے حساب سے رقم دے۔ کیونکہ ماسٹر پلان نا منظور ہونے کی تاریخ سے ایک ماہ پہلے اس کا استعمال ذرعی تھااور مالکِ زمیں اسی کا حق دار ہے۔
تجویز نمبر6:گوگل پلان کے ذریعے ماسٹر پلان آپریشنل سسٹم :
جب ماسٹر پلان میں قانون سازی کے ذریعے قوتِ نافذہ پھونک دی جائے گی اور آئینِ پاکستان بھی اسے سپورٹ کرے گا تو تمام حکومتی ادارے بھی اس کی پاسداری کریں گے کیونکہ اب صوابدیدی اختیارات بہت کم رہ جائیں گے اور کرپشن میں کمی ہو گی۔ملکیت کی دستاویزات میں ہر پراپرٹی کا موجود لینڈ یوز اور مجوزہ لینڈ یوز لکھا ہو گا۔ موجودہ لینڈ یوز ماسٹر پلان کی منظوری سے ایک ماہ پہلے کا ہوگا۔ گوگل پلان پر یہ لینڈ یوز مارک کر دئے جائیں گے۔ مجوزہ لینڈ یوز کے بائی لاز بھی گوگل پلان پر درج کر دیے جائیں گے۔ اس طرح ہر پاکستانی کمپیوٹر کے ذریعے اپنی جائیداد کا لینڈ یوز دیکھ سکے گا اسے LDA یا کسی دوسری میونسپل کارپوریشن میں جاکر افسران کی مِنت نہیں کرنی پڑے گی۔ مارکیٹ میں پراپرٹی کی خریدوفروخت کرنے والے حضرات بھی کمپیوٹر کی مدد سے ڈیٹالے سکیں گے۔انویسٹر حضرات بھی ماسٹر پلان کے مطابق خریداری کرنے لگیں گے۔
ماسٹر پلان اور آپریشنل سسٹم کو مذید مضبوط کرنیکے لئے سروسز والے اداروں کو (بجلی، پانی، گیس)قانون سازی کے ذریعے مجبور کر دیا جائے کہ کسی بھی پراپرٹی کو ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرنے پر کنکشن نہ دیں۔ اگر دیا ہے تو منقطع کر دیں۔ اس طرح ترقیاتی اداروں کو تجاوزات ہٹانے اور غیر قانونی عمارتیں گرانے کے لئے بلڈوزر کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مالک خود ہی مجبور ہو گا کہ ماسٹر پلان کے مطابق عمل کرے۔
تجویز نمبر7:ٹاؤن پلاننگ کورٹس:
ہماری آبادیوں میں ٹاؤن پلاننگ یا ماسٹر پلاننگ کے ذریعے ڈویلپمنٹ کنٹرول کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ جب ہر روز سورج طلوع ہوتا ہے تو شہر میں تبدیلی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔کوئی ملکیت وراثت میں جاتی ہے ،کوئی پلازہ بنانا چاہتا ہے، کوئی نیا گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ سائلوں کا ایک جمِ غفیر ہوتا ہے۔کسی بھی ڈیویلپمنٹ ادارے میں معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے موضوع سٹاف، ٹرانسپورٹ اور پولیس کی مدد درکار ہوتی ہے۔راقم کو یا د ہے کہ جب 1975میں اسلام آباد کی آبادی ایک لاکھ تھی تو10 ٹاؤن پلانر ڈویلپمنٹ کنٹرول کا کام کرتے تھے جبکہ لاہور کی آبادی تیس سال تک دس لاکھ رہی اور صرف ایک یا دو ٹاؤن پلانر تھے۔شہر بے جاپھیلتا رہا اورکمرشلائیزیشن بے ہنگم ہوتی رہی۔گھر گھر فیکٹریاں بنتی رہیں اور آج ہم ان تمام غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔چنانچہ ماسٹر پلاننگ کا نظام نافذ کرنے کے بعد عملی جامہ پہنانے کے لئے موثر اقدام کئے جائیں۔
ملک میں جب ماسٹر پلاننگ یا ٹاؤن پلاننگ کا نظام نافذ ہو گا تو لوگ عدالتوں کی طرٖف رُخ رکریں گے۔ مقدموں کا رش بڑھ جائے گا۔ اس کام کے لئے سپیشل ٹاؤن پلاننگ کورٹس (Special Town Planning Courts) بنائی جائیں گی۔ وہاں کا ماحول ماسٹر پلان کے تصورات کو سمجھ چکا ہو گا۔ عملہ نقشوں سے متعارف ہو گا اورجج صاحبان کیلئے ماسٹر پلان کے مطابق حکم دینا آسان ہو گا۔ اس طرح ماسٹر پلاننگ کو عملی جامہ پہنانا بھی آسان ہوجائے گا۔
تجویز نمبر8:پور ے ملک کے لئے جامع ٹاؤن پلاننگ ایکٹ بنایا جائے:
آئین میں ٹاؤن ماسٹر پلان کا ذکرکرنے سے پاکستان کی ہر جائیداد کے حقوقِ ملکیت ماسٹر پلان کے مطابق ہونے کی پابند ہو جائیں گے اور پاکستان کے تمام ادارے اور عدالتیں اس بات کی پابند ہو جائیں گی کہ آبادیوں کی زمینوں کو ماسٹر پلان کے مجوزہ استعمال کے مطابق کرنے کے عمل میں معا ونت کریں۔ماسٹر پلان کی تعریف کو حقیقی بنانے سے اس دستاویزمیں قوتِ نافذہ پیدا ہوگی۔اس سلسلے میں ہمیں ملائشیا اور ترکی کو ماڈل بنانا ہو گا۔ ان ملکوں میں ٹاؤن پلاننگ صحیح معنوں میں نافذ ہے اور آخری فیصلہ ٹاؤن پلان کو مد نظر رکھ کر کیا جا تا ہے۔ عدالتیں بھی ٹاؤن پلان کا احترام کر تی ہیں۔اس کے مقابلے میں پاکستان میں مختلف ادارے ٹاؤن پلاننگ ایجنسی کے تابع نہیں ہوتے۔ قوانین کی بھر مار ہے۔ ہر ادارہ اپنے قانون کو سپریم سمجھتا ہے جس سے ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ اس ٹکراؤ کو ختم کرنے کے لئے پورے ملک میں جامع ٹاؤن و ریجنل پلاننگ ایکٹ بنایا جائے اور تمام چھوٹے بڑے متعلقہ قوانین جو زمین کے استعمال میں تبدیلی سے متعلقہ ہیں انہیں منسوخ کر کے جامع ٹاؤن پلاننگ ایکٹ کے تحت کر دیا جائے اور ریوینیو ڈیپارٹمنٹ کو ماسٹر پلان کے تابع کر دیا جائے۔ اگر صوبائی خود مختاری کو مد نظر رکھنا ہے تو صوبے اس قسم کے قانون بنا سکتے ہیں۔ ماسٹر پلان /ریجنل پلان کی تعریف کو مضبوط کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر لینڈ یوز کنٹرول حا صل نہیں کیا جا سکتا۔
مندرجہ بالا تجاویز کی روشنی میں حاصل کئے جانے والے فوائد:
راقم کی تجاویز پر عمل کرنے سے ملک کو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوں گے۔
1۔ شہروں کے مرکزی حصے جو کہ بہت زیادہ گنجان ہو چکے ہیں جہاں تجاویزات اور کمرشلائیزیشن کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل گھمبیر ہو چکے ہیں اِن کو ارتقائی(Evolutionary) طریقے سے ماسٹر پلاننگ کے ذریعے حل کرنے کا موقع ملے گاکیونکہ ٹاؤن پلانر ز کی ٹیم جو نقشہ بنائے گی اب اسے ایک آئینی و قانونی قوتِ نافذہ حاصل ہو گی اور جب پراپرٹی ٹرانسفر میں جائے گی یا وراثت کی وجہ سے منتقل ہو گی تو اس کا لینڈ یوز (Land Use)بھی ماسٹر پلان کے مطابق ہو گا۔
2۔ریوینیو کا محکمہ پابند ہو گا کہ ماسٹر پلان میں موجودہ اور مجوزہ لینڈ یوز (Land Use) کو زمین کی ملکیت کے نظام سے منسلک کر دے اورپٹواری لیول تک ہدایات جاری کرے کہ فردِ ملکیت جاری کرتے وقت موجودہ اور مجوزہ لینڈ یوز (Land Use)فرد میں درج کرے تاکہ جائیداد کے خریدار اور فروخت کنندہ کو ڈِیل (Deal)سے پہلے نئے ماسٹر پلان کے مطابق قیمت تعین (Adjust)کرنے کا موقع ملے۔اس طرح مارکیٹ میں ماسٹر پلاننگ کی عمل درامدی آسان اور تیزہو جائے گی۔
3۔ ٹاؤن پلاننگ کرنے والے اداروں کو اپنے منصوبو ں کے لئے موزوں نرخوں پر زمین حاصل کرنا آسان ہو جائے گاکیونکہ مستقبل کے لینڈ یوز ز کی پختہ نشاندہی ہو جائے گی ۔زمین کے مالکوں کو ماسٹر پلان کے منظور ہو نے کی تاریخ سے ایک ماہ پہلے کا معاوضہ ملے گا اسطرح شہروں سے ملحقہ زرعی زمین کم ریٹوں پر خریدنا ممکن ہو گا۔
4۔ ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہو گی کیونکہ ماسٹر پلان میں فنی ماہرین20سال کے لئے ٹریفک پلان بنائیں گے اور ماسٹر پلان میں اس کے مطابق قوتِ نافذہ آچکی ہو گی۔
5۔تمام شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں کے موجودہ تنگ بازاروں میں کمرشلائیزیشن کی زیاتی ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ٹریفک اور ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ ماسٹر پلان میں قوتِ نافذہ بڑھنے کے بعدڈیِ کمرشلائیزیشن( De-commercialization) کا عمل آسان ہو گا۔تنگ بازاروں کو آسانی سے کشادہ کرنا بھی ممکن ہو گا۔
6۔ ماسٹر پلان میں سکول پلاننگ پر خاص توجہ دی جائے گی کیونکہ ہر پاکستانی روزانہ اپنے بچوں کو سکول پہنچانے اور واپس لانے کے لئے پریشان ہوتا ہے۔سکولوں کے سامنے پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک رش کو کم کرنے کا سدِباب کیا جائے گا۔
7۔ ہماری آبادیوں کے اندر رفاہِ عامہ سے متعلق سہولتوں کے لئے جگہ کی کمی رہتی ہے جیسا کہ تعلیمی یونیورسٹیاں،کھیلوں کے میدان،پلانڈ مارکیٹیں، پارکینگ کی جگہیں، عدالتیں، سبزی منڈیاں اورٹرکوں کے اڈے وغیرہ۔ ماسٹر پلان اور جائیداد کے آئینی تصور کو بدلنے سے ٹاؤن پلانرز کے لئے ممکن ہو گا کہ وہ آئندہ آنے والے 20سالوں میں آبادیوں کے پھیلاؤ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شہر کے موجودہ آباد اور غیر آباد علاقے میں یہ سہولتیں نقشوں پر پلان کریں تاکہ ارتقائی عمل میں یہ چیزیں وجود میں آنا شروع ہو جائیں۔
8۔گذشتہ 40سالوں کے دوران شہروں کے ٹریفک مسائل کو حل کرنے کے لئے روڈ بائی پاس بنانے کی روایت رہی مگر تجربہ نے یہ بات سکھائی کہ آج یہ تمام بائی پاس ٹریفک بلاکنگ کی نظر ہو گئے کیونکہ معاشرے کے انویسٹر حضرات نے ان بائی پاسوں کے کناروں پر زمینیں خریدیں اور وہاں بے ہنگم کمرشلائیزیشن کی جس کی وجہ سے یہ منصوبے فیل ہو گئے۔نئے نظام میں جب پٹواری سے فرد برائے فروخت لی جائے گی تو اس میں ماسٹر پلان کے مطابق لینڈ یوز اور بلڈنگ سیٹ بیکس (Setbacks)درج ہوں گے ۔ اس طرح ڈویلپمنٹ ٹاؤن پلاننگ کے مطابق ہونا شروع ہوجائے گی۔
9۔ ملک کے پروفیشنلز جیسا کہ ٹاؤن پلانرز ، آرکیٹیکٹس، انجنئیرز، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کو موقع ملے گا کہ وہ ٹیم کی شکل میں کام کریں اور شہروں کے 20سالہ ماسٹر پلان کو تیار کریں۔
10۔ شہروں کی بہتر انفراسٹرکچر پلاننگ کرنے کا موقع ملے گا جس کی وجہ سے صاف پانی کی سپلائی اورسیوریج کے مسائل کم ہوں گے۔
11۔ سیاسی جماعتوں اور بیورو کریٹس کو کم موقع ملے گا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق ماسٹر پلان میں تبدیلیاں کریں۔
12۔ انویسٹر حضرات کو ماسٹر پلان کے مطابق خریدو فروخت کا موقع ملے گا۔
13۔ ماسٹر پلان کے نظام کو عملی جامہ پہنانے کی وجہ سے ترقیاتی کاموں کا نہ صرف کام کا معیار بہتر ہو گا بلکہ کم قیمت میں ترقیاتی کام کرنے گا مو قع ملے گا کیونکہ ماسٹر پلان کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں دوسر ی اور تیسری بار بنانی پڑتی ہیں اور اسی طرح پانی ، بجلی اور گیس کی لائینوں کی بھی توڑ پھوڑ ہو تی رہتی ہے۔