منہاج القرآن میں کیا ہو رہا ہے؟
گزشتہ سہ پہر منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پہنچا تو بیرونی دروازے کے ساتھ کینوپی اور شامیانوں کی اوٹ میں علامہ طاہرالقادری کے مشہور زمانہ کنٹینر کی مرمت کا کام جاری تھا۔ دو تین ویلڈرز کنٹینر کو ٹوچن پہ ٹوچن لگارہے تھے ، معلوم ہوا کہ کنٹینر کے ساتھ لوہے کا ایک مضبوط ٹیرس نصب کیا جارہا ہے جس پر17جنوری کو مال روڈ پر ہونے والے احتجاج کے دوران علامہ طاہرالقادری کے ہمراہ اپوزیشن قیادت جلوہ افروز ہوگی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس بار شرکاء احتجاج سے خطاب کنٹینر کے اندر سے نہیں بلکہ اس ٹیرس پر کھڑے ہو کر کیا جائے گا جہاں علامہ کے ہمراہ اپوزیشن کے دیگر اکابرین بھی موجود ہوں گے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ وہی کنٹینر ہے جو 2013ء کے دھرنے میں پانچ دن اور 2014ء کے دھرنے میں 70دن تک اسلام آباد میں موجود رہا تھا ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کنٹنیر کا بلٹ پروف شیشہ بھی تبدیل کیا گیا ہے !
منہاج القرآن کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اس بات کا جواب کہ آیا 17جنوری کا احتجاج ایک دھرنے میں تبدیل ہوگا یا نہیں صرف علامہ قادری، عمران خان اور آصف زرداری کو معلوم ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ علامہ کے اردگرد ان دو جماعتوں کے علاوہ باقی پارٹیوں کی حیثیت شامل واجہ کی سی ہے کہ انہیں سوائے اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کے اور کچھ نہیں کرنا ہے، نہ اُنہیں پیشگی معلوم ہے کہ اُن سے کیا خدمت لی جائے گی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان جماعتوں میں قاف لیگ اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے بتایا گیا کہ 2014ء کی طرح وہ اس بار بھی آدھی ہاں اور آدھی ناں کے ساتھ علامہ طاہرالقادری کے ساتھ کھڑی ہے۔
منہاج القرآن کے ذرائع کی غور سے سنئے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے تاحال اپنے کارڈ پوری طرح کھول کر علامہ طاہرالقادری کے سامنے نہیں رکھے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی اس حد تک نہیں جانا چاہتی کہ جمہوری سسٹم ڈی ریل ہو جائے، اس کے برعکس وہ چاہتی ہے کہ پنجاب کی حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ضمن میں قانون کو اپنی راہ بنانے دے اور اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے۔
وہاں موجود دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ 16جنوری کی سہ پہر 3بجے فیصلہ اناؤنس کیا جائے گا کہ آیا اس مرحلے پر صرف لاہور شہر کی مال روڈ کو ہی بند کیا جارہا ہے یا پھر اس کے ساتھ ساتھ کراچی ، فیصل آباد اور شاہراہ ریشم کو بھی بند کیا جائے گا۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ منہاج القرآن کے ذمہ داران اس موقف پر بضد ہیں کہ احتجاج اور دھرنے پرامن ہوں گے اور مال روڈ کے اردگرد سروس روڈ کھلے رہیں گے جبکہ دکانداروں کے کاروباری مشاغل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے گی۔ ان دوستوں کے مطابق منہاج القرآن کے دھرنے ہمیشہ پرامن رہے ہیں لیکن 17جون2014ء کو منہاج القرآن میں پنجاب پولیس کی جانب سے 14جانوں کے زیاں کے بعد سے مرکزی سیکرٹریٹ کے اردگرد اب پولیس کو کھڑے ہونے کی اجازت نہیں ہے ، اس کے برعکس منہاج القرآن کے اپنے کمانڈوز سیکورٹی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اور دلچسپ بات سن لیجئے کہ منہاج القرآن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 2014ء سے قبل کی بات ہے کہ لاہور کے امیر کا موٹرسائیکل پکڑا گیا تو وہ چھڑوانے کے لئے تھانے جانے سے کترارہا تھا لیکن جون 2014ء کے پولیس تشدد کے بعد پولیس منہاج القرآن کے کارکنوں سے ڈرتی ہے کیونکہ اس کے بے جا تشدد نے عوامی تحریک کے شریف کارکنوں کو بدمعاش بنادیا ہے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14شہداء کے علاوہ 90ایسے کارکن ہیں جو زخمی ہوئے اور ان کی میڈیکولیگل رپورٹ بھی لی گئی جبکہ 43کارکن عمر بھر کے لئے مختلف شکلوں میں اپاہج ہو چکے ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ منہاج القرآن میں 22رکنی سوشل میڈیا ٹیم بھی ایکٹو ہے جس نے حال ہی میں ٹویٹر پر #JusticeforZainabکا ٹرینڈ پاپولر کروایا ہے۔ اس کے علاوہ لگ بھگ 12سکرینوں پر صف اول کے نیوز چینل کی نشریات کو 24گھنٹے کی بنیاد پر ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ علامہ طاہرالقادری نے لگ بھگ 25ممالک کے دوروں کا شیڈول کینسل کردیا ہے اور تب تک پاکستان سے نہیں جانا چاہتے جب تک کہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے لئے انصاف حاصل نہ کرلیں۔
منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ 20فروری کے بعد نون لیگ کی حکومت نہیں ہوگی۔ ان کے لہجے کا تیقن دیکھ کر ہمیں اگست 2014ء یاد آگیا جب علامہ طاہرالقادری نے چٹکیاں بجاتے ہوئے کہا تھا کہ 30اگست کو حکومت یوں جائے گی یوں ....اب نوراللہ کہتے ہیں کہ 20فروی کے بعد حکومت نہیں ہوگی تو بے اختیار ان سے کہنے کو جی چاہا کہ آپ کا سال والا کیلنڈر تو ٹھیک ہے لیکن مہینوں والا کیلنڈر ٹھیک نہیں لگتا!