جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم واٹر کمیشن کراچی کے سربراہ مقرر ، ہمیں مت الجھائیں ، بتائیں شہر میں پانی کی کمی کیوں ہے : چیف جسٹس
کراچی( سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک ،این این آئی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ناقص دودھ کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکے فوری طور پر ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ اتوار کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ چھٹی کے روز بھی ڈبہ پیک دودھ کی فروخت کے از خود نوٹس سمیت ماحولیاتی آلودگی اور پانی کی فراہمی کے مقدمات کی سماعت کی ۔چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن، سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو ، ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سمیت دیگر وکلا سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں موجود تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تمام حکام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ چھٹی کے دن یہاں آئے، عوامی مفاد کا معاملہ ہے، سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ناقص دودھ سے متعلق سماعت شروع ہوئی تو ناظر نے اپنی رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کی جس میں بتایا کہ گیا کہ متعدد مقامات پرچھاپے مارے اور ریکارڈ چیک کیا گیا جب کہ بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکوں کے 39 پیکٹس ضبط کیے گئے ہیں۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ڈرگ انسپکٹر مارکیٹوں میں چھاپے ماریں اور بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکے ضبط کریں جب ہ چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت کو حکم دیا کہ ٹیکوں کو ضبط کرنے کا کام ڈرگ انسپکٹر کو دیا جائے اور ایف آئی اے، ڈرگ انسپکٹرز، ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز کے اسٹاک کا جائزہ لے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھا جائے کہ مارکیٹوں میں یہ ٹیکے کتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ڈبوں میں ناقص دودھ کی فروخت سے متعلق مختلف کمپنیز نے جواب عدالت میں داخل کرادیے جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ دودھ اور ٹی وائٹنرز الگ الگ ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ٹی وی یا اخبارات پر اشتہارات میں واضح کریں کہ ٹی وائٹنرز دودھ نہیں اور آپ کو لکھ کر دینا ہوگا کہ یہ دودھ ہرگز نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ہر برانڈز کیدودھ کا جائزہ لیں گے جب کہ چیف جسٹس نے عدالتی معاون کو حکم دیا کہ ہر کمپنی سے 50 ہزار روپے لے کر معائنہ کرائیں، ڈبہ پیک دودھ کی پی سی ایس آئی آر خود معائنہ کرے۔عدالت نے ڈبہ دودھ کا معائنہ کرا کے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی جبکہ چیف جسٹس نے حکام کو ہدایت کی کہ جس کمپنی کا دودھ مضر صحت ہوا اس کا پورا اسٹاک اٹھا لیں، کمپنیاں خواہ کہیں کہ بھی ہوں، سب کا معائنہ کرایا جائے۔پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹس میں ہمیں مت الجھائیں۔یہ بتائیں کہ اس شہر میں پانی کی کمی کیوں ہے، سیدھا بتایا جائے کہ منصوبے پر عمل کب ہوگا۔ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی نے عدالت کو بتایا کہ بہت سے علاقے کچی آبادیاں ہیں، جہاں لائنیں نہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پانی کی کمی ٹینکرز سے کیوں پوری ہوتی ہے، چلیں پینے کے پانی کو چھوڑیں، استعمال کا پانی ٹینکرز سے کیوں پورا ہورہا ہے۔اس موقع پر ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ پانی کی طلب اور رسد میں فرق ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ذریعہ آپ ہی ہیں، خود پانی کی فراہمی کا انتظام کیوں نہیں کرتے، کیا ڈیفنس میں پانی کی فراہمی کا کوئی اپنا نظام نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ٹینکرز مافیا بن چکا، اربوں روپے کمائے جا رہے ہیں، سندھ حکومت شہریوں کو پانی تک فراہم نہیں کر رہی، وہ جھاکے والا دور گیا، اب ہم یہاں بیٹھیں ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹینکرز کے ٹھیکوں کے پیچھے کون ہے، غریبوں کو 4ہزار روپے کے ٹیکے لگا رہے ہیں، مافیا کے اپنے مفادات ہیں، بااثر لوگ ٹینکرز بند نہیں ہونے دیں گے۔چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ذمہ داری ادا نہیں کر رہے تو عہدہ چھوڑ دیں، اگر اختیار نہیں یا ناکام ہیں تو کوئی بات نہیں، ٹینکرز مافیا سے نمٹنا ہمارا کام ہے، اگر وہ ہڑتال کریں گے تو ان سے ہم نمٹ لیں گے۔۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے میئر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے مسائل حل کرنا آپ کی بھی ذمے داری ہے، آپ کی معاونت چاہیے جس پر سیاست نہیں بلکہ عوام کی بھلائی ہو۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگلے ہفتے آجائیں گے، آپ مسائل کا حل ہمارے سامنے رکھیں جس پر میئر کراچی وسیم اختر نے عدالت کو بتایا کہ شہر کے ڈھانچے کو درست کرنے کی ضرورت ہے، قبضے چھوٹوں نے نہیں بلکہ بڑوں نے بھی کیے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا کہ وہ عدالت سے پورا تعاون کریں گے۔سپریم کورٹ نے واٹر کمیشن کے سربراہ کو تبدیل کرتے ہوئے جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کو واٹر کمیشن کا نیا سربراہ مقرر کردیا، جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کے پاس توہین عدالت کے سوا سپریم کورٹ کے جج کے تمام اختیارات ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کے اختیارات ریٹائرڈ جج کو نہیں دے سکتے، کسی نے واٹر کمیشن کے کام میں رکاوٹ ڈالی تو ٹرانسفر پوسٹنگ عدالت خود کرے گی۔گزشتہ روزدوران سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ وہ جسٹس(ر)امیر ہانی مسلم کا سن کر مایوس کیوں ہو گئے؟۔بھرپور کارروائی کیلئے ہانی صاحب کو مکمل اختیار دیں گے ،ہم غیر معمولی کام کر رہے ہیں رات 12 بجے تک بھی عدالت لگائیں گے۔چیف جسٹس نے کہا میرے ججز رات کو بھی بیٹھ سکتے ہیں،یہ لوگ مجھے اچھا کھانا بھی کھلاتے ہیں ، پانی کے منصوبوں میں بجلی کا تعطل نہیں ہونا چاہئے،چیف سیکرٹری صاحب !ہم آپ کی مدد کیلئے آئے ہیں،اگرآپ کو فنڈ نہیں ملتا تو سوچ کر آیا ہوں اپنی تین ماہ کی تنخواہ دوں گا،چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہم کام نہیں رکنے دیں گے لوگوں کا مسئلہ حل کریں گے ،آپ کو دوسروں سے بھی چندہ لے کر لیں گے ،ان کا کہناتھا سمجھوں گا سندھ حکومت رقم دینے کے قابل نہیں تو یہ بھی کر لیں گے۔
چیف جسٹس