ایک ایسا واقعہ جس نے دلی کے لال قلعہ سے بھارتی فوج کو بھاگنے پر مجبور کردیا
دہلی(ڈیلی پاکستان آن لائن ) دلی کا لال قلعہ مسلمانوں کی عظمت کا نشان ہے جسے انگریزوں کے بعد بھارتی حکومت نے اپنا عقوبت خانہ بھی بنائے رکھا اور یہاں بھارتی فوج نے اپنا مستقل ٹھکانہ بنائے رکھا ، لیکن پھرایک واقعہ ایسا ہوا کہ جس کا خوف بھارتی فوج کے دل میں بیٹھ گیا اور اس نے لال قعلہ سے اپنی چھاونی اٹھا لی۔
دریائے جمنا کے نزدیک واقع لال قلعہ مغلیہ سلطنت کے سنہری دور کی یادگارہے۔اسے سترویں صدی میں مغل بادشاہ شاہجہان نے تعمیر کرایا تھا۔ اسی قلعے کے دیوان خاص میں تخت طاوس واقع ہے جہاں بیٹھ کر مغل بادشاہ ہندوستان کے طول و عرض پر حکومت کرتے تھے۔یہ سلسلہ 1857 کی جنگ آزادی تک جاری رہا۔ غدر کے دوران انگریز فوج نے دلی (دہلی)پر اپنے قبضے کے بعد اس وقت کے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قلعے سے نکل جانے کا حکم دیا تھا اور انہیں شہر کے جنوب میں واقع قطب مینار کے احاطے میں منتقل کر دیا تھا۔سن اٹھارہ سو ستاون سے لے کر سن انیس سو سینتالیس تک لال قلعہ برطانوی فوج کے قبضے میں رہا اور اس میں انہوں نے اکثر ہندوستانی قیدیوں کو قید رکھا۔
آزادی کے بعد لال قلعہ کے بیشتر حصے ہندوستانی فوج کے قبضے میں آگئے اور یہاں سنگین نوعیت کے مجرموں کو رکھنے کے سیل بھی بنائے گئے۔
لال قلعے کے دو دروازے ہیں جن میں سے ایک دلی دروازہ جبکہ دوسرا لاہوری دروازہ کہلاتا ہے۔ جب یہ قلعہ تعمیر کیا گیا تھا اس وقت دریائے جمنا اس کی عقب کی دیواروں کو چھوکر گزرتا تھا لیکن اب وہ کچھ فاصلے پر بہتا ہے۔ہر سال یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم اسی قلعے کی فصیل سے خطاب کرتے ہیں۔2001میں لشکر طیبہ کے دو ارکان نے لال قلعہ پر حملہ کردیا جس میں درجن بھر بھارتی فوجی ہلاک ہوئے اور مجاہدیں قلعہ کی فصیل پھلانگ کر فرار ہوگئے۔جس کے بعد دسمبر 2003 میں اس قلعے کو مکمل طور پر فوج نے خالی کر کے آثار قدیمہ کے محکمے کے حوالے کر دیا۔ 2007 میں لال قلعہ کو عالمی اثاثوں کے لیے اقوام متحدہ کی تنظیم برائے ثقافت، یونیسکو کی فہرست میں شامل کرلیا گیا اور اب یہاں عسکری نوعیت کی سرگرمیاں نہیں کی جاتیں۔