فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر330

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر330
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر330

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم ڈاکٹر اسد الرحمن کے پاس پہنچ گئے۔ امّاں کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور انہیں لے کر گھر پہنچ گئے۔ ڈاکٹر اسد الرحمن کی نرم خوئی اور نرم گفتاری سے ہی امّاں پگھل گئیں۔ پھر جب انہوں نے بتایا کہ ہمارے کون کون سے رشتے داروں سے ان کا تعلق اور واسطہ رہا ہے تو امّاں کچھ اور متاثر ہوگئیں اور انہیں آزمانے کا ایک موقع دینے پر آمادگی کا اظہار کردیا۔
ڈاکٹر اسد الرحمن نے ان کا بغور معائنہ کیا۔ پوری توجہ سے ان کا حال سنا۔ پرانے نسخے دیکھے جن کا انبار لگ گیا تھا۔ پھر مسکرائے اور بولے ’’امّاں فکر نہ کریں‘ انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’مگر ڈاکٹر صاحب‘ زیادہ گولیاں اور کڑوی دوا نہ دیجئے گا کہ حلق سے اترنا مشکل ہوجائے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر کہا ’’امّاں! اللہ پر بھروسا رکھیے۔‘‘ پھر ایک شربت لکھ دیا جس کا نام غالباً ’’بیکوزائم‘‘ تھا ’’دن میں تین بار ایک ایک بڑا چمچہ کھانے سے آدھے گھنٹے پہلے استعمال کرلیا کریں۔‘‘

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر329 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
امّاں بولیں ’’ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب اور دوائی یا۔۔۔‘‘
’’یہی آپ کی دوائی ہے۔ اللہ نے چاہا تو بالکل ٹھیک ہوجائیں گی۔‘‘
امّاں حیران رہ گئیں ’’بس؟ ڈاکٹر صاحب سوچ لیجئے۔‘‘
’’سوچ لیا ہے امّاں۔ آپ اللہ کا نام لے کر شروع توکریں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب رخصت ہوگئے۔ امّاں ان کے حُسنِ اخلاق‘ گفتگو اور شرافت سے بہت متاثر ہوئیں لیکن اب انہیں یہ شکایت تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے انہیں کوئی دوائی تودی ہی نہیں۔ علاج کیا خاک ہوگا۔
بڑی مشکل سے سب گھر والوں نے امّاں کو سمجھایا کہ کچھ دن استعمال کرکے دیکھ لیں۔ ورنہ ڈاکٹر اقبال تو موجود ہی ہیں۔ امّاں نے نیم دلی سے شربت کا استعمال شروع کردیا۔ شربت لذیذ تھا۔ اس کے ساتھ پانی کا پورا جگ پینے کی ضرورت بھی نہیں تھی اس لیے امّاں کو یہ علاج پسند آگیا۔
چند روز کے اندر ہی اماں کی صحت ٹھیک ہونے لگی جسم میں توانائی بھی آگئی۔ بھوک بھی لگنے لگی۔ نیند بھی آنے لگی۔
بس پھر کیا تھا۔ امّاں تو ڈاکٹر اسد الرحمن کی معتقد ہوگئیں۔ اب وہ ہرروز اپنا حال بیان کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب کو فون کردیا کرتی تھیں۔ خود ڈاکٹر صاحب نے بھی چند روز تک مزاج پرسی کی رسم نبھائی۔
’’ہیلو ڈاکٹر صاحب! السلام علیکم‘ مزاج شریف؟ جی میں کافی ٹھیک ہوں مگر۔۔۔‘‘ اب امّاں ڈاکٹر اسد الرحمن کو فون گھمایا کرتی تھیں اور ان ہی کے گُن گاتی تھیں۔
’’اللہ زندگی دے۔ بس ایک دوائی دیتے ہیں اور فائدہ ہوجاتا ہے۔ غضب کی شفا ہے ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں پھروہ پرانے حکیموں کے قصّے سنانے میں لگتیں‘‘۔ امّاں جب تک زندہ رہیں ڈاکٹر اسد ہی کے زیرعلاج رہیں۔ آخری چند مہینوں میں بیماری سے گھبرا کر ڈاکٹر بدلنے کی خواہش کرتی تھیں مگر چند روز بعد پھر ڈاکٹر اسد ہی سے رابطہ کرلیتی تھیں۔
لیجئے تذکرہ نعمان بھائی کا تھا اور بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ نعمان بھائی کی صحت روز بہ روز خراب ہوتی جارہی تھی مگر ان کے معمولات میں ذرا سا بھی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ ساری رات کھانستے رہتے تھے‘ سانس کی تکلیف سے بے حال رہتے مگر صبح ذرا بھی طبیعت بحال ہوتی تو کُھرپا اور بیڑیوں کا بنڈل سنبھال کر باغ میں پہنچ جاتے۔ باغ بانی میں مصروف ہوکر وہ اپنی بیماریاں بھول جاتے تھے اسی لیے امّاں نے انہیں روک ٹوک کرنا چھوڑ دیا تھا۔ کہا کرتی تھیں ’’کُھرپا اور مٹّی ہی تو اس کا علاج ہے۔ ان کے ساتھ رہ کر ہی یہ تندرست رہتا ہے۔‘‘یہ 1963ء کا ذکر ہے۔
نعمان بھائی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ کئی دن بستر میں لیٹے رہے۔ باغ کا رُخ بھی نہیں کیا۔ البتہ مالی کو بلا کر ضروری ہدایات دیتے رہتے تھے۔ ان کے معالج بھی ڈاکٹر اقبال ہی تھے۔ جب بیماری نے طول کھینچا تو دوسرے ڈاکٹروں سے بھی مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ کینسر اس زمانے میں اتنا عام نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کو بھی تشخیص کرنے میں دیر لگ جاتی تھی۔ اِدھر نعمان بھائی انجان ڈاکٹروں اور ہسپتال کے نام سے گھبرا جاتے تھے اسی لیے ان کی بیماری اندر ہی اندر بڑھتی رہی۔ وہ یہی کہتے رہے کہ اب بہترہیں۔
ایک دن امّاں نے دیکھا کہ انہیں کینو کی قاش کھانے میں دِقّت پیش آرہی ہے۔ انہوں نے پوچھا ’’کھاتے کیوں نہیں؟‘‘
بولے ’’کھایا نہیں جارہا۔‘‘
اس سے پہلے وہ ٹھوس غذا نہیں کھا سکتے تھے۔ یہی کہتے تھے کہ گلا خراب ہے۔ ٹھیک ہوجائے گا۔ کسی اور ڈاکٹر کو دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔
امّاں نے بہت شور مچایا کہ کسی اور ڈاکٹر کو دکھایا جائے مگر نعمان بھائی کسی طرح آمادہ نہیں ہوئے۔ ہم فلم کی مصروفیات اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے تھے مگر گھرکی ساری ذمّے داری بھی اٹھانی پڑ رہی تھی۔ نعمان بھائی اگر سنتے تھے تو صرف ہماری۔ امّاں اور بہنوں کوتو وہ یوں ہی باتوں میں بہلا دیتے تھے۔
چند روز بعد اچانک انکشاف ہوا کہ دودھ اور جوس بھی نعمان بھائی کے حلق سے نہیں اُترتا۔ امّاں نے فوراً گھبرا کر ہمیں فون کیا اور بتایا کہ گزشتہ تین دن سے یہی کیفیت ہے مگر وہ چُھپاتے رہے ہیں۔ اس عرصے میں پانی‘ چائے اور دودھ کا ایک قطرہ بھی ان کے حلق سے نیچے نہیں گیا۔
یہ سُن کر ہمارے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کوئی شخص دو تین دن سے بالکل بھوکا پیاسا ہے اور وہ بھی ہمارا بھائی۔ یہ تصوّر ہی انتہائی روح فرسا تھا۔ ہم سارے کام چھوڑ کر ٹیکسی لے کر گھر بھاگے۔ دیکھا تو نعمان بھائی بڑے اطمینان سے بیٹھے ہیں۔ گھر والوں کی پریشانی ان کے مقابلے میں ہزار گنا تھی مگر وہ بالکل پُرسکون تھے۔
ہم نے فوراً مختلف ڈاکٹروں کو فون کیا جنہوں نے مشورہ دیا کہ ان کو ہسپتال لے جانا ضروری ہے تاکہ ان کے حلق میں ٹیوب ڈال کر غذا پہنچائی جاسکے۔ نعمان بھائی ہسپتال جانے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھے مگر امّاں کی ڈانٹ ڈپٹ اور گھر والوں کی منّت سماجت کے آگے ہار گئے۔ سب نے انہیں سمجھایا کہ یوں بھوکے پیاسے کب تک بیٹھے رہو گے۔
بولے ’’دوائی تو کھا رہا ہوں۔ ٹھیک ہوجاؤں گا۔‘‘
شام کا وقت تھا۔ کار ہمارے پاس تھی نہیں۔ ٹیکسی نام کی چیز اس زمانے میں بڑی مشکل سے ملتی تھی۔ تانگے پر انہیں اتنی دور (آٹھ نومیل پر میو ہسپتال) لے جانا ایک مسئلہ تھا۔ خدا خدا کرکے فلیٹیز ہوٹل سے ایک پرائیویٹ ٹیکسی دستیاب ہوئی اور ہم انہیں لے کرہسپتال چل پڑے۔ وہ تو مطمئن تھے مگر ہمارے ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے۔ جسم میں سنسنی سی دوڑ رہی تھی۔ کئی دن سے ایک قطرہ تک ان کے پیٹ میں نہیں گیا تھا۔ سوچ سوچ کر ہمارا دل بھر آتا تھا۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر331 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں