اسلامی سزاؤں کا نفاذ۔۔۔ناگزیر

اسلامی سزاؤں کا نفاذ۔۔۔ناگزیر
اسلامی سزاؤں کا نفاذ۔۔۔ناگزیر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر : ڈاکٹر شجاع اختر اعوان

معصوم زینب کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ نے پورے ملک کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ایسے درندگی کے سانحے ہر روز رونما ہوتے ہیں ،خبریں اخبارات کی زینت بنائی جاتی ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا ایسے واقعات کو ریٹنگ کی دوڑ میں بریکنگ نیوز کے طور پر بار بار پیش کرتا ہے اور متاثرہ خاندان کو انصاف دلانے کے نام پر ان کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے ۔ متاثرہ خاندان کی عزتیں مزید اچھالی جاتی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر دو چار دن کے لیے ہر کوئی اپنا اپنا حصہ بھی شامل کردیتاہے اور برائے نام احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد اپنا فرض پورا سمجھ کر ہر شخص اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ جبکہ ظلم و بربریت و سفاکیت کی چکی مسلسل مظلوموں کی عصمتوں کو پیستی رہتی ہے ۔ نام نہاد حکمران ، سیاستدان متاثرہ خاندانوں کے گھرمیڈیا ٹیموں کے ہمراہ جا کر بلند بالا دعوے کرتے اور مگر مچھ کے آنسو بہاتے نظر آتے ہیں اور سرکاری خزانہ سے چند ٹکوں کی مالی امداد کا اعلان کرکے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے اور قرار واقعی سزاد لوانے کے جھوٹے عزم کے دعوے اور مکمل انصاف دلانے کے راگ الا پ کر فوٹو سیشن کروانے کے بعد چلتے بنتے ہیں ۔ جبکہ سیاسی قیادت مفاد پرست ، بیورو کریسی ، انتظامیہ نااہل و بددیانت ، پولیس کرپٹ و فرض سے نا آشنا، عدلیہ تعداد میں کم مقدمات کی بڑھتی ہوئی زیادتی ،جرائم میں بے تحاشہ اضافہ کی وجہ سے انصاف کی بروقت فراہمی نا ممکن ، لاکھوں مقدمات سالوں تک انصاف کی بھول بھلیوں کی نظر ،ظالموں کا اثر و رسوخ ، پولیس کا روایتی فرسودہ نظام تفتیش انصاف کے راستے کی رکاوٹ ، ظالم اور پولیس کی ملی بھگت مظلوم کی پریشانی کا باعث، ستم ظریفی کی انتہاء کہ جس لاٹھی اس کی بھینس ، مظلوم کا وکیل بھی ظالم کی چمک پر بیعت کر جاتا ہے۔
سب جانے ہیں کہ تھانوں میں جانے والوں کی با اثر ملزمان کے خلاف FIRتک درج نہیں ہوتی۔ اگر مقدمہ درج ہو بھی جائے ناکافی شہادتوں پر ملزمان بری ہو جاتے ہیں یا پھر متاثرہ خاندان کو ڈرا دھمکا کر چند ٹکوں کے عوض ان کی مجبوریاں خرید کر راضی کر لیا جاتا ہے۔ سفاک ملزمان وکٹری کا نشان بعد چند دن بعد ہی جیل دروازہ سے نکل آتے ہیں اور یہی وکٹری کا نشان اس معاشرے کے منہ پر زور دارطمانچہ ہے ۔ اس فرسودہ نظام کو جب تک تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ غریب عوام یونہی ظلم و زیادتی ، سفاکیت و بربریت کا شکار رہے گی۔
قوم کے بچوں اور بچیوں کی عصمتوں کو بچانے کے لیے اس ملک کے آئین میں ترامیم کروانے کی ضرورت ہے ۔ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے جو ملک کے آئین میں اسلامی سزاؤں کے قانون شامل کروا سکیں ۔ اسلامی سزاؤں کی دفعات شامل کر وا کر اور ان پر عمل درآمد کروا کے ہی اس معاشرے کو ظلم و ستم اور نا انصافی سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ جب ملزمان کو شہر کے چوکوں اور چوراہوں میں اسلامی تعلمیات کے مطابق سزائیں دی جائیں گی ۔ جب آنکھ کے بدلے آنکھ ، کان کے بدلے کان ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ ، جا ن کے بدلے جان کا قانون ہو گا ، چورکا ہاتھ کاٹا جائے گا ، زانی کوبیچ چوراہے سنگسار کیا جائے گا تو عوام کی عزتیں اور جان و مال محفوظ ہو گاپھر کسی معصوم زینب سفاکیت و بربریت کا نشانہ نہیں بنے گی ۔ ہزاروں سالوں سے آزمودہ یہی اسلامی نسخہ معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتا ہے۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -